اگلے (8فروری 2024ء) انتخابات کیلئے پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتحاد اور تعاون کے جس سلسلے کا آغاز ہوا تھا اس میں مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی طرف سے انتخابات میں مشترکہ طور پر حصہ لینے کا فیصلہ قابلِ ذکر ہے کیونکہ (ن) لیگ سندھ سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے آئندہ قومی اسمبلی میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتی ہے‘ اور ایم کیو ایم کراچی میں اپنی کھوئی ہوئی پوزیشن بحال کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں دونوں پارٹیوں کے وفود کے درمیان حال ہی میں اسلام آباد میں ایک ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں ایم کیو ایم نے لوکل گورنمنٹ اداروں کے اختیارات میں اضافہ کرنے کیلئے 26ویں آئینی ترمیم کے نام سے مجوزہ اصلاحات پر مشتمل ایک ڈرافٹ پیش کیا اور اس پر (ن) لیگ کی حمایت کا مطالبہ کیا۔ ملاقات کے بعد دونوں پارٹیوں کے وفود نے مشترکہ پریس کانفرنس میں ملاقات کی تفصیلات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے ہر ڈویژن میں لوکل گورنمنٹ کے ایک ادارے کے قیام کی سفارش کی گئی ہے جسے آئینی طور پر نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ میں ہر صوبے کے حصے میں سے 70 فیصد فنڈز مرکز سے براہ راست وصول کرنے کا اختیار ہو گا۔ ابھی تک اس ڈرافٹ کی دیگر سفارشات کی تفصیلات منظر عام پر نہیں آئیں‘ اس لیے اس کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی بحث نہیں کی جا سکتی تاہم اس سے ایک حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ لوکل گورنمنٹ اداروں کو فعال بنانے اور قومی ترقی میں ان کے کردار میں اضافہ کرنے کیلئے بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے اور اس میں تاخیر کی گنجائش نہیں‘ مگر اس کے باوجود قیام پاکستان سے لے کر اب تک تقریباً ہر حکومت نے (خصوصاً سیاسی حکومتیں) لوکل گورنمنٹ سسٹم کو مضبوط اور فعال بنانے کی بجائے اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے‘ حالانکہ دنیا بھر میں لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو جمہوریت کی نرسری سمجھ کر ان کے ذریعے نہ صرف مقامی سطح پر باہمی تعاون اور اتفاق سے مقامی مسائل حل کیے جاتے ہیں بلکہ قوم کے مستقبل کے سیاسی رہنمائوں کی فصل بھی تیار کی جاتی ہے۔بھارت میں آزادی کے بعد لوکل گورنمنٹ سسٹم کومنظم اور مضبوط بنا کر اسے قومی ترقی کے عمل میں ایک فعال کردار ادا کرنے کے قابل بنایا گیا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی پارلیمنٹ کے ارکان کی بیشتر تعداد لوکل گورنمنٹ کے اداروں کی پیداوار چلی آ رہی ہے ‘مگر پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کے ادارے عدم توجہی اور بے اعتنائی کا شکار رہے ہیں‘ حالانکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بعد یہ واحد ادارے ہیں جن کے ممبران کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست طریقے سے عمل میں آتا ہے۔ اس صورتحال کی ذمہ داری ملک کی سیاسی جماعتوں پر ڈالی جاتی ہے جو جمہوریت کے نام پر ووٹ حاصل کر کے اقتدار میں آتی ہیں مگر اقتدار پر قابض ہو کر جمہوریت کے ان بنیادی اداروں کو نظر انداز کر دیتی ہیں۔ بعض حلقے صوبوں کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جو صوبائی خود مختاری کے نام پر مرکز سے صوبوں کو اختیارات اور فنڈز کی منتقلی کا مطالبہ کرتے ہیں مگر اپنے سے نچلے لوکل گورنمنٹ کے اداروں کو ان کی ضروریات کے مطابق اختیارات اور فنڈز ٹرانسفر نہیں کرتے‘ حالانکہ یہ ادارے ملک کے سیاسی نظام کا اہم حصہ ہیں۔سیاسی پارٹیوں اور صوبوں سے یہ شکایتیں کافی حد تک درست ہیں۔
پاکستان میں لوکل گورنمنٹ اداروں کو فعال بنانے میں اگر کوئی پیشرفت ہوئی ہے تو وہ صرف فوجی حکمرانوں کے ادوار میں ۔ جنرل ایوب خان کے ''بنیادی جمہوری نظام‘‘، جنرل ضیا الحق کے دور کے ''لوکل گورنمنٹ ایکٹ 1979‘‘ کے تحت بلدیاتی اداروں کی تنظیم نو اور جنرل پرویز مشرف کے عہد میں ''Devolution of Power Plan 2001‘‘ کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ اس کے مقابلے میں سیاسی پارٹیوں نے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو فعال بنانے میں کسی قسم کی سرگرمی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ 1973 کے آئین میں اگرچہ لوکل گورنمنٹ اداروں کے قیام اور فعالیت پر زور دیا گیا ہے مگر پاکستان پیپلز پارٹی جسے ملک کے دو سب سے بڑے صوبوں پنجاب اور سندھ میں حکومت بنانے کا موقع ملا‘ نے لوکل گورنمنٹ سسٹم کی جگہ ''پیپلز ورکس پروگرام‘‘ نافذ کر دیا۔ ضیا الحق کے دور میں نافذ کیا جانے والا لوکل گورنمنٹ ایکٹ زیادہ تر ایوب خان کے بنیادی جمہوریت کے نظام سے ملتا جلتا تھا‘ تاہم اسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے بحیثیت حلقۂ نیابت (Electorate) استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا‘ لیکن پہلے کی طرح اس سسٹم پر بھی مالی اور انتظامی لحاظ سے صوبائی حکومتوں کو بالا دستی حاصل تھی کیونکہ عملی طور پر ہر صوبے میں لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ ہی بلدیاتی اداروں کو کنٹرول کرتا تھا۔ جنرل مشرف کے دور میںDevolution of Power Plan کے تحت پہلی مرتبہ بلدیاتی اداروں کو بیوروکریسی کے مالی اور انتظامی کنٹرول سے آزاد اور وسیع تر نمائندگی کی بنیاد پر قائم کیا گیا‘ بلکہ ''پلان‘‘ کے پہلے مسودے میں لوکل گورنمنٹ اداروں کو صوبائی حکومت کے ماتحت رکھنے کی بجائے انہیں آئینی ضمانت مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرح تیسرے درجے کی حکومت (Third Tier) کا درجہ دیا گیا تھا۔ بعد میں صوبائی حکومتوں کے احتجاج اور مطالبے کے پیش نظر اس کو واپس لے لیا گیا‘ لیکن بلدیاتی اداروں میں خواتین‘ اقلیتوں‘ مزدوروں اور کسانوں کی نمائندگی میں اضافے کا خیر مقدم کیا گیا کیونکہ نچلی سطح پر حکومتی اداروں میں پہلی مرتبہ معاشرے کے کمزور طبقات کو با اختیار بنانے کی طرف یہ ایک اہم پیشرفت تھی۔ پاکستان میں لوکل گورنمنٹ اداروں کی اہمیت اور افادیت سے کسی سیاسی پارٹی کو اختلاف نہیں اور وہ ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنے کیلئے انہیں مضبوط بنانے کے حق میں بھی ہیں۔ اس کے باوجود سیاسی پارٹیاں اس جانب مطلوبہ عملی اقدام کرنے پہ تیار نہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کیلئے انگریز حکمرانوں کی جانب سے جنوبی ایشیا میں لوکل گورنمنٹ سسٹم کے اجرا اور پاکستان میں فوجی حکومتوں کے ادوار میں ان اداروں کے سٹرکچر میں تبدیلیوں کا ان کے تاریخی تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔
انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستان میں ایک منظم‘ مؤثر اور فعال لوکل گورنمنٹ سسٹم قدیم زمانے سے پنچایتی سسٹم کے نام سے موجود تھا۔ یہ نظام مکمل طور پر خود کفیل اور نہ صرف انتظامی سیکورٹی بلکہ جوڈیشل اختیارات کا بھی مالک تھا۔ اس موضوع پر''The Origin and Growth of Village Communities in India‘‘ کے عنوان سے Baden Henry Powellکی تحقیق موجود ہے۔ اس نظام کی تقویت اور فعالیت کی بنیاد شہر اور گائوں کے درمیانGap اور اپنی معاشی اور روزمرہ کی ضروریات کیلئے موخرالذکر کا اول الذکر پر انحصار تقریباً نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس زمانے میں گائوں کو ہندوستانی معاشرے میں نہ صرف ایک بنیادی یونٹ کی حیثیت حاصل تھی بلکہ ہر لحاظ سے خود کفیل بھی تھا۔ اس صورتحال کو کارل مارکس نے نیویارک ڈیلی ٹریبیون کیلئے ہندوستان پر اپنے لکھے گئے‘ 1853 میں چھپنے والے‘ مضامین میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ (جاری)