کہا تو یہ جاتا ہے کہ ملک میں سب سے پاپولر کھیل کرکٹ ہے۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے ہر عمر کے لوگ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ میڈیا کا بھی سب سے زیادہ پاپولر موضوع یہی ہے۔ قومی ٹیم کسی بین الاقوامی میچ میں جیت جائے یا ہار جائے‘ ہر صورت میں گھنٹوں نشریات کا موضوع کرکٹ ہوتا ہے۔ لیکن میری رائے میں ملک میں ایک اور کھیل کرکٹ سے بھی زیادہ پاپولر ہے‘ اور وہ ہے سیاستدانوں پر تنقید اور الزام تراشی۔ سیاستدان اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر‘ کالم نگاروں‘ تجزیہ کاروں‘ اینکر پرسنز اور خود ساختہ ماہرین کی تنقید کا ہمیشہ نشانہ بنے رہتے ہیں۔ ملک کی ہر ناکامی کا ذمہ دار سیاستدانوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ویسے تو اس مہم جوئی سے کوئی سیاستدان‘ خواہ اس کا تعلق کسی بھی کیٹیگری سے ہو‘ محفوظ نہیں رہتا لیکن جو سیاستدان یا پارٹی اقتدار کی غلام گردشوں کی قربت حاصل کرتی دکھائی دے‘ وہ پبلک سکروٹنی یا تنقیدی جائزے کا خاص طور پر نشانہ بنتے ہیں۔ آج کل پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف اسی وجہ سے سرخیوں میں ہیں۔ گزشتہ تقریباً دو‘ ڈھائی ماہ سے‘ جب سے وہ لندن سے پاکستان واپس آئے ہیں‘ وہ میڈیا میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ وجہ اس کی ان کا وہ بیانیہ ہے جسے خود انہوں نے ''ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نام دیا تھا‘ اور جس کا اظہار انہوں نے اکتوبر 2020ء میں گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے ایک جلسے میں لندن سے اپنی آن لائن تقریر میں کیا تھا۔ اس تقریر میں انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے اپنی برطرفی اور سیاست میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی کو ایک سازش قرار دیا تھا‘ جس میں ان کے مطابق ثاقب نثار‘ قمر جاوید باجوہ اور فیض حمید نے نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ نواز شریف نے الزام عائد کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ 2018ء کے انتخابات‘ جن میں ان کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) جیت رہی تھی‘ میں دھاندلی کے ذریعے عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک کو جتوایا گیا ۔ ان حضرات کا نام لے کر نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ انہیں اپنے اس کردار کا جواب دینا پڑے گا۔ اس خطاب میں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا ہی ذکر نہیں کیا بلکہ یہ سوالات بھی کئے تھے کہ کیوں ملکی تاریخ میں کسی وزیراعظم کو پانچ سالہ مدت پوری نہیں کرنے دی گئی؟ وہ کون سے عوامل ہیں جن سے ملک میں جمہوری تسلسل متاثر ہوا؟ کیوں آئین شکن ملک میں آزادانہ گھومتے ہیں اور ان سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی؟ وہ کون ہے جس نے ملک کے اندر ایک متوازی حکومت بنا رکھی ہے؟ جب تک ان سوالات کا جواب نہیں دیا جاتا اور ذمہ داروں کا احتساب نہیں ہوتا ملک میں جمہوری اور آئین و قانون کی بالادستی پر مبنی نظام قائم نہیں ہو گا۔
میاں نواز شریف کے اس بیان پر مختلف حلقوں نے مختلف ردِعمل کا اظہار کیا تھا۔ بعض نے تو اسے مقتدرہ کے خلاف اعلانِ جنگ قرار دیا ‘ بعض کے نزدیک نواز شریف کا یہ بیانیہ مفاد پرستی پر مبنی تھا لیکن بعض نے اسے جرأت مندانہ‘ بروقت اور درست اقدام سے تعبیر کیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ملکی تاریخ میں آئین‘ قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات بہت سے سیاستدان کرتے چلے آرہے ہیں لیکن کسی نے بھی جمہوری سیاسی عمل میں مداخلت اور آئینی خلاف ورزیوں کے خلاف ملک کے تاریخی پس منظر میں اس طرح کھل کر بات نہیں کی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جن بہت سے معاملات میں وہ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو سے متاثر تھے‘ ان میں ایک ان کی اپنے ملک میں سویلین بالا دستی قائم کرنے میں کامیابی بھی شامل تھی۔ ان کا دور بے شک سویلین بالادستی کا دور تھا۔ ان کے علاوہ کوئی سیاستدان تاریخی پیرائے میں ملک کے سیاسی عمل کو منقطع کرنے کے خلاف کھڑا نہیں ہوا۔ کوئی اس سے اتفاق کرے یا نہ کرے لیکن نواز شریف کے اس خطاب سے ملک میں کافی شور مچا تھا۔ خود پی ڈی ایم میں بھی کھلبلی مچ گئی تھی‘ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ بیان ان کیلئے ایک جھٹکا تھا۔ تاہم اس کے بعد اس موضوع پر نواز شریف نے مختلف مواقع پر جو بیانات دیے ان میں ان کا لہجہ نسبتاً نرم تھا۔ بعد کے بیانات میں انہوں نے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر اصرار تو کیا مگر کوئی نام لینے سے احتراز کیا۔
اکتوبر میں لاہور میں جلسۂ عام سے خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ماضی کی تلخیاں بھلا کر ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے سب کو ساتھ لے کر چلنے کیلئے تیار ہیں۔ اس پر تجزیہ کاروں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ نواز شریف نے مزاحمتی انداز ترک کرکے مصالحانہ پالیسی اختیار کر لی ہے‘ اور اس کا مقصد مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ لیکن نواز شریف کے بیانات کے تازہ ترین سلسلے میں جو کہ عام انتخابات کیلئے پارٹی امیدواروں کو ٹکٹیں الاٹ کرنے کیلئے پارٹی کے پارلیمانی بورڈ کی مختلف میٹنگز میں دیے جا رہے ہیں‘ ان کے اوریجنل بیانیہ کی بازگشت سنائی دی جا رہی ہے‘ اور وہ دوبارہ ان افراد کا نام لے کر احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں جنہوں نے ان کے بقول انہیں نہ صرف وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے الگ کرنے میں کردار ادا کیا بلکہ ان پر سیاست کے دروازے بند کر دیے۔
نواز شریف کے کبھی سخت اور کبھی نرم لہجہ اختیار کرنے کی بنیاد پر ان کے سیاسی حریف ان پر موقع پرست ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ ان الزامات میں کہاں تک صداقت ہے اور نواز شریف اپنے اس مؤقف پر کب تک ڈٹے رہتے ہیں‘ اس کا جواب تو وقت دے گا لیکن انہوں نے ملکی سیاست کی سب سے بڑی حقیقت پر سے پردہ اٹھا کر تاریخ میں اپنا نام رقم کروا لیا ہے۔ اب وہ بے شک اپنے اُس بیانیے سے دستبردار بھی ہو جائیں جو انہوں نے تین سال قبل گوجرانوالہ کے جلسے میں اختیار کیا ‘ ان کی ذات تک تو اس کے نتائج سامنے آ سکتے ہیں مگر وہ آئین شکن افراد کا محاسبہ کرنے کا مطالبہ کرکے ملکی سیاست کو ایک ایسے مرحلے پر لے آئے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ اب سوال یہ نہیں کہ نواز شریف جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ صرف ذاتی مفادات کیلئے کہہ رہے ہیں یا قومی مفادات کیلئے‘ اصل سوال مگر یہ ہونا چاہیے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا وہ صحیح ہے یا غلط؟ اگر کسی کو اس بارے میں شک ہے یا اس بیانیے سے اختلاف ہے تو تحقیقات کروا لی جائیں۔ پوری ملکی تاریخ سامنے ہے‘ اس کے دریچوں میں جھانکنے سے حقیقت معلوم ہو جائے گی‘ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس وقت میڈیا میں تمام تر بحثوں کا فوکس اور سیاستدانوں کے بیانات میں مرکزی نکتہ نواز شریف کی ذات ہے۔ لیکن انہوں نے کیا کہا ہے‘ کیا وہ درست ہے یا غلط؟ اور اس قسم کے خلافِ قانون اقدام کا آئندہ کیا امکان ہے؟ اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ اس کی وجہ واضح طور پر نظر آتی ہے۔
نواز شریف کے بیانیے کی بجائے ان کی ذات پر بحث دراصل اصل اور اہم سوالات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے مگر تاریخ گواہ ہے کہ سچ کو دبایا نہیں جا سکتا‘ ہاں سچ بولنے والوں کی زبان بندی کی جا سکتی ہے‘ مگر اس سے تاریخی عمل میں ان تبدیلیوں کا راستہ نہیں روکا جا سکتا‘ جن کا سلسلہ سچ بولنے سے شروع ہوتا ہے کیونکہ قلم یا زبان سے ادا ہونے والا لفظ لکھاری یا خطیب کی ملکیت نہیں رہتا بلکہ پبلک ڈسکورس کا حصہ بن کر عوامی ملکیت بن جاتا ہے اور اس کے بعد یہ کہاں تک اپنا اثر دکھائے گا‘ اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی۔