اس سلسلے کا گزشتہ کالم پیپلز پارٹی کے 1970ء کے انتخابات کے پارٹی منشور پر ختم ہوا تھا۔ اُس وقت عوام میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت بے شک ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت اور ان کے اندازِ سیاست کی مرہونِ منت تھی مگر 1970ء میں ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں ووٹرز کو پارٹی کے حق میں اپنا فیصلہ دینے میں پارٹی منشور نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کا منشور شیخ مجیب الرحمن کے مشہور چھ نکاتی ایجنڈے پر مبنی تھا‘ جن کے تحت پاکستان کے وفاقی ڈھانچے کو 1940ء کی قرار دادِ پاکستان کے مطابق ڈھال کر مرکز کے پاس صرف دفاع اور خارجہ تعلقات کے اختیارات رکھ کر باقی تمام اختیارات صوبوں کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ان نکات میں مشرقی پاکستان کیلئے علیحدہ ملٹری یا پیرا ملٹری فورس کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ ان انتخابات میں عوامی لیگ نے دو کے علاوہ مشرقی پاکستان سے قومی اسمبلی کی باقی تمام (160) نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور شیخ مجیب الرحمن کا دعویٰ تھا کہ ان کی پارٹی نے یہ کامیابی چھ نکات پر مبنی منشور کی بنیاد پر حاصل کی ہے۔
پیپلز پارٹی نے 1977ء کے انتخابات میں بھی ایک تفصیلی منشور جاری کیا جس کا دیباچہ خود ذوالفقار علی بھٹو نے لکھا تھا مگر اس میں زیادہ تر 1970ء کے منشور کی سفارشات ہی شامل تھیں۔ 1977ء سے1985ء تک ملک میں مارشل لا نافذ اور آئین معطل رہا۔985 ء کے انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کو حصہ لینے کی اجازت نہ تھی۔ 1988ء کے بعد جمہوری حکومتوں کا دور شروع ہوا مگر1999ء میں ملک میں ایک دفعہ پھر غیر جمہوری حکومت قائم ہو گئی جو تین سال تک تمام احتیارات کے ساتھ قائم رہی۔ 2002ء میں انتخابات کا دور پھر شروع ہوا مگر اس دور میں پولیٹکل انجینئرنگ کی وجہ سے سیاسی پارٹیوں کو پہنچنے والے نقصان کا ابھی تک ازالہ نہیں ہو سکا۔ پولیٹکل انجینئرنگ کے باعث سیاسی پارٹیوں میں منشور کی جگہ ہارس ٹریڈنگ اور الیکٹیبلز نے لے لی ہے‘ اب بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ بھی یہی کہتے ہیں کہ انہیں منشور پیش کرنے کی کوئی جلدی نہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی نئی چیز پیش کرنے کیلئے نہیں ہے۔
جس زمانے میں سیاست نظریات پر مبنی ہوا کرتی تھی اور پارٹیوں کو اپنے نظریات عوام تک پہنچانے کی ضرورت محسوس ہوتی تھی‘ منشور کی تیاری پر خاص توجہ دی جاتی تھی۔ 1970ء کے انتخابات میں صرف پاکستان پیپلز پارٹی نے ہی نہیں جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ‘ عوامی لیگ اور جمعیت علمائے اسلام نے بھی تفصیلی منشور عوام کے سامنے پیش کیے اور ان کی بنیاد پر ووٹ مانگے تھے۔ اب چونکہ نظریاتی سیاست کا دور نہیں رہا‘ اس لیے اقتدار کے حصول کیلئے منشور کے بجائے جوڑ توڑ‘ سیٹ ایڈجسٹمنٹ‘ برادری ازم اور دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کا سہارا لیا جاتا ہے۔ سیاست اگر نظریات پر مبنی ہو تو انتخابی مہم میں صرف سیاسی پارٹیاں یا ان کے سربراہ ہی میدان میں سرگرم نظر نہیں آتے بلکہ ان کے نظریات کے حامی ارکانِ سول سوسائٹی مثلاً صحافی‘ وکیل‘ مزدور یونینز‘ طلبہ حتیٰ کہ کسان بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ 1970ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی کامیابی میں صحافیوں‘ طلبہ‘ مزدوروں اور کسانوں کی تنظیموں نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان خصوصاً پنجاب اور سندھ کے کونے کونے میں جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے عوام سے براہِ راست رابطہ کرکے اپنی پارٹی کا پیغام پہنچایا تھا‘ لیکن پارٹی کی دو پبلی کیشنز ہفت روزہ ''نصرت‘‘ اور روزنامہ ''مساوات‘‘ کا بھی اس ضمن میں کردار بہت اہم تھا۔1970ء کے انتخابات سے پہلے پاکستان ایک انقلابی دور سے گزرا تھا۔ یہ دور ایوب خان کے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پر محیط آمرانہ دور کے خلاف خود رو ملک گیر تحریک تھی جس میں ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
اس کو حسنِ اتفاق کہیے کہ جس زمانے میں پاکستان اس تحریک سے گزر رہا تھا‘ اسی زمانے میں پوری دنیا ایک انقلابی دور سے گزر رہی تھی۔ اقوامِ متحدہ کے اندر اور اس کے باہر سب سے بڑا عالمی مسئلہ نوآبادیاتی نظام کی باقیات اور سامراجی قوتوں کی جانب سے اپنے مفادات کو نئے ہتھکنڈوں سے تحفظ دینے کی کوششوں کے خلاف نہ صرف ایشیا‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ بلکہ امریکہ میں بھی مزاحمتی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں۔ پرانے نوآبادیاتی نظام کے گڑھ یورپ اور نئی سامراجی قوت امریکہ کے اندر بھی آزادی‘ انصاف اور مساوات کے حق میں تحریکیں جاری تھیں۔ ان تحریکوں میں یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور ٹریڈ یونین کے ارکان پیش پیش تھے۔ مئی 1968ء کی فرانس کی طلبہ تحریک اس ضمن میں خاص طور پر قابلِ ذکر ہے‘ جس نے مزدوروں کیساتھ مل کر حکومت کا تختہ تقریباً الٹ دیا تھا۔ ویتنام کی جنگ کے خلاف احتجاج تیسری دنیا کے ممالک تک محدود نہیں تھا بلکہ اس میں امریکی یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی پیش پیش تھے۔ اس زمانے میں فیڈل کاسترو اور چی گویرا کا نام گونج رہا تھا اور دنیا بھر کے سیاسی اور انقلابی حلقوں میں ان کے انقلابی نظریات اور حکمت عملی زیر بحث تھیں۔
دوسرے ملکوں کی طرح پاکستان کی سیاست پر بھی ان عالمی رجحانات اور واقعات کے اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک (1959-68ء) کے نعروں اور مطالبات کی شکل میں یہ اثرات نمایاں طور پر نظر آ رہے تھے۔ اس لیے 1970ء کے انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کے منشوروں میں اس دور کی سیاسی حقیقتوں کی جھلک نظر آتی ہے‘ لیکن 1977ء کے بعد پاکستان میں ایک ایسا دور آیا جس دوران نہ صرف سیاسی سرگرمیوں بلکہ سیاسی پارٹیوں پر بھی ایک عرصہ تک پابندی رہی۔ ضیا الحق کے دور میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت سیاسی پارٹیوں کو انتخابی عمل سے الگ رکھنے کی کوشش کی گئی۔ سیاسی پارٹیوں کی شرکت کے بغیر 1985ء کے انتخابات اس منصوبے کا حصہ تھے اور 1988ء میں وزیراعظم جونیجو کی حکومت کی برطرفی کے بعد ہونے والے انتخابات بھی سیاسی پارٹیوں کی شرکت کے بغیر منعقد ہونے والے تھے‘ بلکہ اس موقع پر ضیا الحق نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا بس چلے تو وہ آئندہ 30برس تک ملک میں نان پارٹی الیکشن منعقد کروائیں‘ لیکن 1988ء اور اس کے بعد تمام انتخابات سیاسی پارٹیوں کی شرکت سے منعقد ہو رہے ہیں‘ مگر ضیا الحق کے طویل آمرانہ دور اور آٹھویں آئینی ترمیم کے بار بار استعمال اور پرویز مشرف کے دور نے سیاسی پارٹیوں کو صحیح معنوں میں ایک سیاسی قوت بننے کا موقع نہیں دیا‘ اور تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں نے برسر اقتدار آنے کیلئے عوامی قوت کے بجائے مقتدرہ کی خوشنودی‘ جوڑ توڑ‘ ہارس ٹریڈنگ اور سیاسی طور پر قد آور شخصیات کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس کیلئے کسی ایسے منشور کی ضرورت نہیں جس میں انقلابی تبدیلیوں کے مطالبات درج ہوں۔
یہی وجہ ہے کہ آٹھ فروری 2024ء کے انتخابات میں بھی بڑی پارٹیوں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں کوئی نیا نعرہ یا پروگرام شامل نہیں ہو گا بلکہ ان کے منشور پرانے نعروں اور پروگرامز پر ہی مبنی ہوں گے۔ پیپلز پارٹی نے1970ء میں پہلی مرتبہ روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا تھا۔ آئندہ انتخابات کیلئے اس کی قیادت نے جس منشور کے خد و خال کا اعلان کیا ہے اس میں بھی روٹی‘ کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا گیا ہے۔ پارٹی قیادت کا خیال ہے کہ 1970ء کی طرح 2024ء میں بھی اس نعرے سے عوام کا ووٹ حاصل کیا جا سکتا ہے ‘حالانکہ پاکستان کی آزادی‘ سلامتی‘ معیشت اور معاشرے کو درپیش چیلنج ایک مختلف اپروچ اور نئے بیانیے کا تقاضا کرتے ہیں۔