پاکستان اور بھارت کے تعلقات شروع سے ہی اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ پانچ اگست 2019ء کے بعد سے تو دونوں ملکوں میں سخت کشیدگی چلی آ رہی ہے۔ ذرائع آمد و رفت‘ تجارت اور اطلاعات کا تبادلہ سب بند ہے۔ اس کے باوجود سال میں دو مرتبہ دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ امن اور باہمی خیر سگالی کی بنیاد پر سفارتی سطح پر خصوصی رابطہ پیدا کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک دونوں ملکوں کے درمیان نئے سال کے پہلے دن یعنی یکم جنوری کو ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات اور قیدیوں کی فہرستوں اور دوسرا ہر سال یکم جولائی کو دوبارہ قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ ہے۔ ایٹمی تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ جس معاہدے کے تحت کیا جاتا ہے اس پر دونوں ملکوں نے 1988ء میں دستخط کیے تھے‘ لیکن اس کا باقاعدہ آغاز یکم جنوری 1991ء سے ہوا‘ اور تنصیبات کی فہرستوں کا پہلا تبادلہ یکم جنوری 1992ء کو ہوا۔ گزشتہ 32برس سے پاکستان اور بھارت کی حکومتیں لازمی طور پر اپنی ایٹمی تنصیبات کی فہرستیں ایک دوسرے کے ہاں موجود اپنے سفارت خانوں کے ذریعے پیش کرتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات جیسے بھی ہوں اور دونوں ملکوں میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو‘ ان فہرستوں کا تبادلہ لازمی کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا تعلق ایٹمی شعبے میں دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے اقدامات سے ہے۔
دوسرا معاہدہ جس پر 2008ء میں دستخط ہوئے خالصتاً انسانی ہمدردی کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے دونوں ملکوں میں ایک دوسرے سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد لمبے عرصے تک جیلوں میں بند رہتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد دونوں ملکوں سے تعلق رکھنے والے مچھیروں کی ہوتی ہے جو بحیرۂ عرب میں مچھلیاں پکڑتے ہوئے سمندری حدود کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ پاکستانیوں کے مقابلے میں بھارتی مچھیروں کی زیادہ تعداد پاکستانی جیلوں میں ہے کیونکہ ان کی طرف سے سمندری حدود کی زیادہ خلاف ورزی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال کی متعین تاریخوں پر جب ان قیدیوں کی فہرستوں کا تبادلہ کیا جاتا ہے تو ان میں بڑی تعداد مچھیروں کی ہوتی ہے۔ مثلاً اس سال یکم جنوری کو پاکستان نے جن 231 قیدیوں کی فہرست بھارت کے حوالے کی ان میں سے 184مچھیرے تھے۔ دوسری طرف بھارت نے جن 418 قیدیوں کی فہرست پاکستان کے حوالے کی ان میں صرف 81مچھیرے تھے۔
اس معاہدے کے تحت ایک دوسرے کی جیلوں میں موجود قیدیوں کو اپنے اپنے ملک کے سفارت خانوں سے رابطہ کرنے کی بھی اجازت حاصل ہے۔ پاک بھارت کشیدہ تعلقات کی وجہ سے دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے قیدیوں کو بڑی مشکلات کا سامنا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ان کی مشکلات میں کمی واقعہ ہوئی ہے اور قانون کے مطابق ان کی رہائی کے عمل میں بھی تیزی آئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ معاہدہ 1988ء کے معاہدے کی طرح پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کم کرنے اور خیر سگالی کو فروغ دینے میں بہت کارآمد ثابت ہوا ہے‘ اگرچہ اس بارے میں مزید اقدامات کی بھی ضرورت ہے مثلاً 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں حصہ لینے والے کئی فوجی ابھی تک لاپتا ہیں۔ پاکستان نے انہیں اور 77دیگر سویلین قیدیوں کو بھارت میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کرنے کی خصوصی اجازت دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسکے علاوہ جن پاکستانی قیدیوں نے بھارتی جیلوں میں اپنی سزاؤں کی مدت پوری کر لی ہے‘ پاکستان نے انکی فوری رہائی اور انہیں پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امید ہے کہ ان اقدامات کیلئے اگر کوششیں جاری رہیں تو ضرور کامیاب ہوں گی‘ کیونکہ ان معاہدات سے ثابت ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے یہ دونوں ممالک باہمی اختلافات کے باوجود انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایسے اقدامات پر پوری طرح آمادہ رہتے ہیں جن کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ممالک کے مابین بلکہ پورے خطے میں خوشگوار اور پُرامن ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ اہم معاہدے اُس وقت طے ہوئے تھے جب پاکستان میں منتخب جمہوری حکومتیں تھیں۔ اس سے پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان دو اور تاریخی معاہدے‘ لیاقت نہرو پیکٹ 1950ء اور شملہ معاہدہ 1972ء بھی جمہوری دورِ حکومت کے دوران ہوئے تھے۔ اول الذکر معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک دوسرے کے ہاں موجود اقلیتوں کے بارے میں ہے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت میں جب کبھی مسلم اقلیت تشدد کا نشانہ بنے تو پاکستان اپنی تشویش کا اظہار کرکے بھارتی حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کروا سکتا ہے۔ اس معاہدے سے دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ میں بہت مدد ملی ہے اور چھ دہائیوں سے بھی زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد یہ معاہدہ اب بھی قائم ہے۔ اسی طرح شملہ معاہدے کے تحت نہ صرف بھارت کی قید میں 90ہزار پاکستانی سویلین اور فوجیوں کی رہائی کی راہ ہموار ہوئی بلکہ 1971ء کی جنگ میں بھارت نے مغربی پاکستان اور کشمیر میں جن علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا‘ پاکستان نے واپس حاصل کر لیے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان نے بھارت سے کشمیر کی متنازع حیثیت منوا کر اسے حل کرنے کی کمٹمنٹ بھی حاصل کر لی۔ شملہ معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان نہ صرف آمد و رفت اور دیگر مواصلاتی رابطے بحال ہوئے بلکہ تجارت کا بھی دوبارہ آغاز ہوا۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو معمول پر لانے والے اس معاہدے کی اہمیت کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کے پانیوں کی تقسیم پر بھارت کیساتھ معاہدے پر اگرچہ صدر ایوب خان کے دور میں دستخط ہوئے تھے مگر عالمی بینک کی وساطت سے اس پر پاک بھارت مذاکرات کا آغاز ایوب خان سے پہلے کی جمہوری حکومتوں کے دور میں ہو چکا تھا اور ایوب خان کے اقتدار میں آنے سے قبل اس کی تقریباً تمام تفصیلات طے ہو چکی تھیں‘ صرف دستخط ہونا باقی تھے جو 1960ء میں بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو کے دورۂ پاکستان کے موقع پر کیے گئے۔ اسی طرح 2004ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مذاکرات کے جس سلسلے کا آغاز ہوا تھا‘ اس کی بنیاد بھی 1996ء میں پاکستان کے ایک جمہوری طور پر منتخب وزیر اعظم کے دور میں کمپوزٹ ڈائیلاگ کی شکل میں رکھی گئی تھی۔ فروری 1999ء میں بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا دورۂ پاکستان اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک روڈ میپ پر اتفاق انہی مذاکرات کا نتیجہ ہے۔
پاک بھارت تعلقات کی تاریخ میں یہ لینڈ مارک معاہدات ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوری حکومتوں کے ادوار میں تعلقات میں بہتری لانے کیلئے جو بھی اقدامات کیے گئے وہ کامیاب اور پائیدار ثابت ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ منتخب اور جمہوری حکومتوں کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہوتا ہے اور داخلی امور اور خارجہ تعلقات کے شعبوں میں جو بھی فیصلے کیے جاتے ہیں عوام کے مفادات کیلئے کیے جاتے ہیں۔ دوسرے فریق بھی ایک جمہوری اور منتخب حکومت پر اعتبار کرتے ہیں اور نہ صرف قلیل المیعاد بلکہ طویل المیعاد اہمیت کے حامل مسائل پر بھی اتفاق ہو جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے معاملے میں تو جمہوری امن کے اس نظریے کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان امن اور استحکام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ اعتماد اور یقین کا فقدان ہے۔ اس رکاوٹ کو صرف اسی صورت دور کیا جا سکتا ہے جب دونوں ملکوں میں عوام کے مینڈیٹ کی حامل منتخب جمہوری حکومتیں برسر اقتدار ہوں۔