گزشتہ برس اکتوبر میں اسرائیل کی قابض حکومت کے خلاف حماس کی کارروائی کے بعد شروع ہونے والے اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کو دیکھتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ یہ جنگ فلسطین تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ارد گرد کی عرب ریاستوں مثلاً شام‘ لبنان‘ اُردن اور مصر کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں مسئلہ فلسطین کی وجہ سے جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں اُن میں اِن فرنٹ لائن عرب ملکوں کو شامل ہونا پڑا۔ 1948ء میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی عربوں اور اسرائیل کے درمیان جو پہلی جنگ ہوئی تھی اس میں اسرائیل کے خلاف مصر‘ اُردن‘ شام اور کسی حد تک لبنان بھی شریک تھے۔ اسی طرح تیسری عرب اسرائیل جنگ (1967ء)‘ جسے چھ روزہ جنگ بھی کہا جاتا ہے‘ میں مصر‘ اُردن اور شام شریک تھے۔ 1973-74ء کی جنگ میں البتہ اُردن کا محاذ خاموش رہا اور صرف مصر اور شام کی طرف سے اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے کیلئے اسرائیلی ٹھکانوں پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس دفعہ بھی خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ غزہ میں اسرائیل کی جارجیت جلد ایک بڑی علاقائی جنگ میں تبدیل ہو جائے گی لیکن فلسطینیوں کی حمایت کرنیوالے عرب ممالک‘ جن کی سرحدیں اسرائیل سے ملتی ہیں‘ اسرائیل کے ہاتھوں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کے بے دریغ قتلِ عام پر ابھی تک خاموش ہیں اور ان کا ردِعمل اسرائیلی جارحیت کی مذمت‘ مختلف بین الاقوامی فورم پر اسے بے نقاب کرنے اور غزہ کے فلسطینی باشندوں کیلئے امداد کی فراہمی تک محدود ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نہیں چاہتے کہ غزہ پر اسرائیل کا یہ حملہ ایک علاقائی تصادم میں تبدیل ہو جائے کیونکہ اس کی آڑ میں نہ صرف اسرائیل بلکہ امریکہ خطے میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لبنان کی سرحد پر حزب اللہ اور اسرائیل کے سرحدی دستوں کے درمیان جھڑپوں کے باوجود اسرائیل کی شمالی سرحد محفوظ ہے اور اسرائیل کے تمام تر حملے غزہ پر مرکوز ہیں۔ حتیٰ کہ ایران نے بھی اس حوالے سے محتاط رویہ اختیار کیا ہوا ہے اور اسرائیل اور امریکہ کی اشتعال انگیزی کے باوجود اس جنگ میں کودنے سے اجتناب کیا ہے تاکہ امریکی امداد کے ساتھ اسرائیل کو یہ جنگ ایک علاقائی تصادم میں تبدیل کرنے کا بہانہ میسر نہ آ سکے۔ لیکن اس کے باوجود غزہ پر اسرائیل کے حملوں کے اثرات مشرقِ وسطیٰ پر مرتب ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ اس حوالے سے بحیرۂ احمر کی صورتحال خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ یہ صورتحال مبینہ طور پر اسرائیل کا جھنڈا لہرانے والے یا اسرائیل کیلئے سامان لے جانے والے جہازوں پر یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے حملوں کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے۔یہ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ اور اسرائیل کیلئے باعثِ تشویش ہے۔
بحیرۂ احمر براعظم ایشیا اور افریقہ کے درمیان شمال میں نہر سویز کے ذریعے بحیرۂ روم اور جنوب میں بحر ہند کیساتھ ملنے والا 2250کلومیٹر لمبا اور 255کلومیٹر چوڑا سمندر ہے۔ یہ دنیا کے ان چند سمندروں میں شامل ہے جن کا ذکر قدیم ترین کتابوں میں موجود ہے۔ بحر ہند سے ملنے کی وجہ سے بحیرۂ احمر بھی قدیم دنیا کے دو حصوں یعنی یورپ اور چین کے درمیان بحری تجارت میں اہم کردار کا حامل رہا ہے۔ قدیم ہندوستان اور بحرہند میں واقع دیگر جزائر مثلاً مالدیپ‘ سری لنکا‘ انڈمان اور نکوبار سے آگے جنوب مشرقی ایشیا اور چین سے تجارتی اشیا کو بحر ہند سے گزار کر بحیرۂ احمر کے ذریعے بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر واقع بندرگاہوں تک پہنچایا جاتا تھا جہاں سے یہ مال کشتیوں اور جہازوں کے ذریعے جنوبی یورپ کی بندرگاہوں تک پہنچتا تھا۔ بحیرۂ احمر کو بحرِ ہند سے جدا کرنے والی پانی کی پٹی صرف 20میل چوڑی ہے۔ اسے باب المندب کہتے ہیں‘ یہ عربی نام ہے اور انگریزی میں اس کا نام Gate of Tearsہے۔ اس کی وجۂ تسمیہ یوں بیان کی جاتی ہے کہ قدیم زمانے میں جب بحری بیڑے تجارتی سامان اور مسافروں کو لے کر بحر ہند سے بحیرۂ احمر میں داخل ہونے کیلئے اس تنگ آبی گزر گاہ میں داخل ہوتے تھے تو اس آبی گزر گاہ کے دونوں طرف گھات لگائے بحری قزاق حملہ کر دیتے تھے۔ ان حملوں میں قزاق نہ صرف تجارتی سامان لوٹ لیتے تھے بلکہ جہازوں پر سوار مردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو اغوا کر لیتے تھے۔ بحری قزاقوں کے ان حملوں کے نتیجے میں مسافرجو چیخ و پکارکرتے تھے‘ اسی کی بنا پر اس آبی گزر گاہ کا نام باب المندب پڑ گیا۔
آج بھی بحیرۂ احمر کا یہ حصہ بحری قزاقوں کی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ اس کے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے بحیرۂ احمر کو مشرقِ وسطیٰ اور بحر ہند کے جیو پالٹیکس میں زمانۂ قدیم سے جو اہمیت حاصل رہی ہے وہ ابھی تک برقرار ہے۔ اس میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب پندرہویں صدی عیسوی میں بحیرۂ روم پر ترکوں کی بالادستی کے نتیجے میں یورپی اقوام کو براعظم افریقہ کے گرد چکر لگا کر شمال مغربی بحر ہند میں پہنچ کر ہندوستان کا راستہ تلاش کرنا پڑا۔ یورپی اقوام میں پرتگیزی سب سے پہلے براعظم افریقہ کا چکر لگا کر ہندوستان کے مغربی ساحل پر 1498ء میں پہنچے تھے۔ واسکوڈے گاما پہلا یورپی ملاح تھا جس نے موجودہ ممبئی کے قریب واقع ایک مقام ''کالی کوٹ‘‘ پر قدم رکھا لیکن بحر ہندکے خطے میں پہلی یورپی سلطنت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کا سہرا پرتگیزی کمانڈر Afonso de Albuquerque کو جاتا ہے جو گوا کا گورنر تھا۔ وہ پہلا یورپی سٹریٹجسٹ تھا جس نے بحر ہند کی تجارت اور سکیورٹی پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے بحر ہند کے شمال مغربی حصے اور خلیج فارس کے دہانے پر واقع جزائر کی اہمیت کو پہچانا اور یہاں پرتگیزی بحریہ کے مضبوط اڈے قائم کیے جن کی مدد سے پرتگیزی بحر ہند کے وسط میں واقع سری لنکا اور اس کے بعد مشرق میں آبنائے ملاکا پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اگرچہ ہندوستان میں پرتگیزیوں کی نو آبادیاں (گوا اور دمن وغیرہ) رقبے کے لحاظ سے بہت چھوٹی تھیں‘ تاہم ملاکا اور ہرمز پر قبضہ کرکے پرتگیزیوں نے مشرق اور مغرب سے بحر ہند میں داخل ہونے والے تنگ آبی راستوں اور Choke points کو مخالف طاقتوں کیلئے بند کر دیا۔ بعد میں انگریزوں نے اسی دفاعی حکمت عملی کی بنیاد پر نہ صرف بحر ہند میں بحری بالادستی قائم کی بلکہ اس کی مدد سے فرانسیسیوں کو شکست دے کر ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ 1869ء میں بحیرۂ احمر اور بحیرۂ روم کے درمیان نہر سویز کی تعمیر سے بحیرۂ احمر کی اہمیت میں ڈرامائی تبدیلی آئی کیونکہ یورپ کیلئے بحر ہند میں داخل ہونے کیلئے یہ براعظم افریقہ کے گرد گھوم کر آنے کے مقابلے میں براہِ راست اور قلیل فاصلے کا راستہ تھا۔ برطانیہ کیلئے بحیرۂ احمر اس لیے بھی اہم تھا کیونکہ یہ ہندوستان اور ملایا کے علاوہ افریقہ کے مشرقی ساحل پر اس کی نو آبادیوں کیلئے سب سے زیادہ آسان راستہ تھا۔ اس لیے اس نے اس کی حفاظت کیلئے یمن کی بندرگاہ عدن کو ایک طاقتور فوجی اور بحری اڈے میں تبدیل کر دیا تاکہ مغرب کی طرف سے کوئی دشمن طاقت بحرہند میں داخل ہو کر جنوب اور جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی نو آبادیاتی مفادات کیلئے خطرہ نہ بن سکے۔ نہر سویز کی حفاظت کیلئے برطانیہ نے پورٹ سعید کے مقام پر ایک بہت بڑا فوجی اڈہ قائم کیا۔ اس فوجی اڈے کا مقصد نہ صرف بحیرۂ احمر کا تحفظ تھا بلکہ اس اڈے سے برطانیہ پورے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے معاشی اور دفاعی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنا سکتا تھا۔ برطانیہ نے جزائر سے پورٹ سعید‘ عدن اور کولمبو کے راستے آبنائے ملاکا تک دفاعی اڈوں کی جو زنجیر بچھا رکھی تھی‘ بحیرۂ احمر اس کی مضبوطی میں ایک اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ یہ صورتحال دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک جاری رہی لیکن جنگ کے بعد اس خطے میں امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور اسرائیل کے قیام نے ایک بالکل نئی صورتحال پیدا کر دی۔ اس کی تفصیل کسی اگلے کالم میں بیان کی جائے گی۔