یمن میں حوثی قبائل کے ٹھکانوں پر امریکی فضائی حملوں سے نہ صرف غزہ بلکہ مشرق ِوسطیٰ‘ بحیرۂ احمر اور بحرِ ہند کے خطوں میں بھی عدم استحکام اور تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے کیونکہ امریکی فضائی حملوں کے بعد بھی اگر حوثی قبائل کی طرف سے بحیرۂ احمر سے گزرنے والے جہازوں پر میزائل اور ڈرون حملے جاری رہے تو ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ بعض تبصرہ نگاروں کے مطابق یمن پر امریکی حملوں سے بحیرۂ احمر اور بحر ہند کو ملانے والی تنگ آبی گزرگاہ باب المندب کے ارد گرد پانیوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان پراکسی وار کا آغاز ہو چکا ہے جس میں مبینہ طور پر ایران‘ یمن اور امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایران پر یمن کے حوثی قبائل کو ہتھیار مہیا کرنے کا الزام ایک عرصہ سے عائد کیا جا رہا تھا اور اس کا مقصد سعودی عرب اور خلیج فارس کی عرب ریاستوں کو ایران کے خلاف صف آرا کرنا تھا‘ مگر گزشتہ سال چین کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مصالحت اور سفارتی تعلقات کی بحالی سے امریکہ کا یہ منصوبہ بری طرح ناکام رہا۔ اب غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کے شکار فلسطینیوں کیساتھ یکجہتی کے اظہار کے طور پر یمن کے حوثی قبائل کی طرف سے بحیرۂ احمر میں اسرائیل اور اس کو سامان پہنچانے والے دیگر ملکوں کے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے سے امریکہ کو ایران پر دباؤ بڑھانے کا ایک اور موقع ہاتھ آ گیا ہے کیونکہ صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے الزام عائد کیا ہے کہ حوثی قبائل کی طرف سے بحیرۂ احمر میں جہازوں پر میزائل اور ڈرون حملوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے اور یہ ہتھیار حوثی قبائل کو ایران نے سپلائی کیے ہیں۔ امریکی دعووں کے مطابق یمن کے حوثی قبائل ان حملوں سے سبق سیکھیں گے اور مزید تباہی سے بچنے کیلئے بحیرۂ احمر میں جہازوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ امریکی حملوں کے بعد حوثی قبائل کے رویے میں اور بھی سختی آ جائے گی اور وہ نتائج کی پروا کیے بغیر بحیرۂ احمر میں اپنے حملے جاری رکھیں گے۔ اس کا عندیہ انہوں نے حال ہی میں ایک امریکی مال بردار جہاز کو نشانہ بنا کر دے دیا ہے۔ابھی تک یمن کے حوثی قبائل کے خلاف جو فضائی کارروائی کی گئی ہے‘ اس میں امریکہ کا ساتھ برطانیہ نے دیا ہے۔ فرانس اور دیگر یورپی ممالک اس میں عملی طور پر شریک نہیں تھے مگر بحیرۂ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملے کی وجہ سے پورا یورپ تشویش میں مبتلا ہے کیونکہ یورپ اور ایشیا کے درمیان تجارت کیلئے یہ کم سے کم فاصلے کا راستہ ہے جس کا اگر براعظم افریقہ کے گرد گھوم کر راس امید کے راستے سے موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جہاں سنگاپور سے ایک تجارتی جہاز کو نہر سویز کے راستے 8500 ناٹیکل میل کا سفر طے کرنے کے بعد یورپ پہنچنے میں 26 دن لگتے ہیں وہاں راس امید کے راستے 11800ناٹیکل میل کا فاصلہ طے کرنے میں 36دن لگیں گے۔ اس سے جاپان اور چین کے علاوہ جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک کو بھی یورپ کی منڈیوں میں اپنا مال بھیجنے میں تاخیر اور زیادہ لاگت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی نقصان یورپ سے ان ملکوں میں تجارتی سامان پہنچانے والی کمپنیوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔
بحیرۂ احمر میں عدم تحفظ اور تصادم کی صورتحال پر امریکہ‘ یورپ اور چین کو صرف تجارتی زاویہ سے ہی تشویش نہیں ہے‘ یہ خطہ گزشتہ 500سال سے زیادہ عرصے سے مغرب کا حلقۂ اثر رہا ہے کیونکہ اس کے ارد گرد کے خطوں میں امریکہ اور یورپ کے اہم معاشی مفادات موجود ہیں‘ جن کی حفاظت کیلئے امریکہ کے دو بحری بیڑوں کے علاوہ فرانس‘ برطانیہ اور جرمنی کے بھی بحری جہاز موجود رہتے ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کی عسکری قوت کی اس خطے میں موجودگی کا مقصد نہ صرف اپنے مفادات کا تحفظ ہے بلکہ اس خطے میں کسی اور طاقت کوقدم جمانے سے روکنا ہے۔ امریکہ کے نزدیک اس خطے میں اس کی بالادستی کو چیلنج کرنے والے دو ممالک ہیں‘ ایک ایران اور دوسرا چین۔ ایران اپنے مقصد کیلئے امریکہ کے مطابق یمن کو بطور ایک پراکسی استعمال کر رہا ہے اور چین پر امریکہ کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ بحر ہند اور بحیرۂ احمر کے علاقے کے چھوٹے ممالک کیساتھ دو طرفہ بنیادوں پر تجارتی‘ معاشی اور دفاعی تعلقات قائم کرکے اپنے اثر و رسوخ کو اس خطے میں فروغ دینا چاہتا ہے۔ اس سلسلے میں جزیرہ مالدیپ اور جبوتی کیساتھ چین کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی مثال دی جا رہی ہے۔
جبوتی‘ جو کہ شمال مشرقی افریقہ کا آبادی اور رقبے کے لحاظ سے سب سے چھوٹا ملک ہے‘ باب المندب کے عین دہانے پر واقع ہے۔ بحر ہند کو بحیرۂ احمر سے ملانے والی اس تنگ آبی گزرگاہ کے ایک کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے اسے جیو پولیٹکل لحاظ سے کافی اہمیت حاصل ہے۔ مغربی طاقتوں اور بھارت کی طرف سے چین پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ اس نے جبوتی میں اپنا بحری اور فوجی اڈہ قائم کر رکھا ہے مگر چین نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور کہا ہے کہ جبوتی کے ساتھ اس کا صرف بحری قزاقی کے خاتمے کیلئے معاہدہ طے پایا ہے اور اس مقصد کیلئے اس کے چند فوجی جبوتی میں موجود ہیں مگر امریکہ اور یورپی طاقتوں کو فکر ہے کہ چین ہارن آف افریقہ میں قدم جما کر نہ صرف باب المندب پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا بلکہ اس کے ذریعے مشرقی اور وسطی افریقہ‘ جہاں چین نے تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں پہلے ہی اہم مفادات حاصل کر رکھے ہیں‘ اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کر لے گا۔ بحر ہند اور افریقہ میں چین نے دو طرفہ بنیادوں پر بیلٹ اور روڈ انیشی ایٹو کے ذریعے جو معاشی مفادات حاصل کر لیے ہیں ان کے تحفظ اور فروغ کو سامنے رکھیں تو بحیرۂ احمر میں تصادم قطعاً اس کے مفاد میں نہیں۔ اس لیے چین نے دیگر بہت سے ملکوں کی طرح بحیرۂ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملوں کے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف سے یمن پر فضائی حملوں پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
بحیرۂ احمر میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے متاثر ہونیوالے ممالک میں صرف امریکہ اور یورپ ہی شامل نہیں بلکہ سعودی عرب‘ قطر اور بحیرۂ احمر کے دیگر ممالک بھی شامل ہیں۔ اگر بحیرۂ احمر میں سکیورٹی کا مسئلہ ہو تو بحر ہند اور بحیرۂ عرب کے ساحلوں کے ارد گرد کے ممالک بھی متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکے سکتے ہیں۔ ان میں یقینی طور پر پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔ بحیرۂ احمر میں حوثیوں کے میزائل اور ڈرون حملوں سے کم از کم دو ایسے بحری جہاز نشانہ بنے ہیں جن پر بھارت کیلئے تجارتی سامان کے علاوہ بھارتی عملہ بھی موجود تھا۔ جہازوں کو نقصان پہنچا مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس قسم کے واقعات کو روکنے کیلئے نہ صرف ایرانی حکام کیساتھ بات چیت کی ہے بلکہ بحیرۂ عرب میں اپنے جنگی بحری جہاز بھی بھیجے ہیں۔ پاکستان کیلئے بحیرۂ عرب میں سکیورٹی کی صورتحال انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ملک کی درآمدی اور برآمدی تجارت کا 80فیصد حصہ بحیرۂ عرب کے ذریعے گزرتا ہے۔ اس کے علاوہ پاک چین اکنامک کوریڈور کا جنوبی ٹرمینل گوادر بھی بحیرۂ عرب کے بلوچستان ساحل پر واقع ہے۔ اگرچہ گوادر اور باب المندب ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر واقع ہیں تاہم بحیرۂ احمر میں سکیورٹی صورتحال کے بہانے بحیرۂ عرب کے شمالی حصے میں بھارت کے جنگی بحری جہازوں پر مشتمل ایک ٹاسک فورس کی موجودگی پاکستان کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ اسی لیے پاکستان نے بھی اپنی بحریہ کے کچھ یونٹ بحیرۂ احمر کی طرف روانہ کیے ہیں۔ بحیرۂ احمر میں پاکستانی اور بھارتی بحری جنگی جہاز ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے ہیں۔ اس طرح بحیرۂ احمر کی پیچیدہ سکیورٹی مسئلے میں پاک بھارت دیرینہ مخاصمت کا ایک اور خطرناک عنصر بھی داخل ہو گیا ہے۔ اگر حوثی حملے نہ رُکے اور امریکہ کی طرف سے یمن پر فضائی حملوں میں اضافہ ہوا تو جنگ کا دائرہ ایران تک پھیل سکتا ہے۔