آٹھ فروری کو انتخابات ہوں گے یا نہیں؟ اس سوال پر اب بحث ختم ہو جانی چاہیے کیونکہ الیکشن کمیشن نے نامزدگیوں کی چھان بین اور عذر داریوں کے فیصلوں کے بعد امیدواروں کی حتمی فہرست شائع کر دی ہے اور ملک بھر میں پولنگ سٹیشنز کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ پولنگ سٹاف کی تربیت جاری ہے اور بیلٹ پیپرز کی چھپائی بھی تقریباً مکمل ہو چکی ہے جبکہ سکیورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کی درخواست پر وفاقی حکومت نے پُرامن پولنگ یقینی بنانے کیلئے سکیورٹی اہلکاروں کی تعیناتی کی منظوری دے دی ہے۔ الیکشن کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دینے والی وجوہات میں سے ایک انتخابی گہما گہمی کی کمی اور سیاسی پارٹیوں کی سست روی تھی لیکن اب سیاسی پارٹیوں نے بھی اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ ان میں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی‘ جمعیت العلمائے اسلام (ف) اور ایم کیو ایم خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اصل معرکہ پنجاب میں متوقع ہے اور اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہونے کی حیثیت سے پنجاب سے قومی اسمبلی کی 141 نشستوں سے اراکین منتخب ہو کر ایوانِ زیریں میں پہنچیں گے۔ اس لیے وزیراعظم کے انتخاب میں پنجاب فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔
انتخابی نشان ''بلا‘‘ چھن جانے کے بعد پی ٹی آئی انتخابی معرکے میں کافی پیچھے دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بانی اور سابق وزیر اعظم سزا یافتہ ہونے کی وجہ سے کسی حلقے سے بھی انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس کے سینئر وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور صدر چوہدری پرویز الٰہی زیر حراست ہونے کی وجہ سے انتخابی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔ پارٹی کی اعلیٰ اور درمیانے درجے کی قیادت کی عدم موجودگی میں پارٹی کی انتخابی مہم بہت سست ہے۔ ادھر اِن انتخابات کی شفافیت اور غیر جانبداری پر ابھی سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی‘ جو ملک کی ایک بڑی پارٹی ہے اور جس نے سابقہ انتخابات میں انفرادی طور پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے‘ انتخابی نشان ''بلا‘‘ چھن جانے کے بعد اس بار اُتنے ووٹ حاصل نہیں کر سکے گی۔ اسی وجہ سے بلاول بھٹو زرداری دعویٰ کر رہے ہیں کہ پنجاب میں اصل معرکہ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کے درمیان ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری کے اس دعوے کی بنیاد ان کا یہ یقین ہے کہ انتخابی نشان ''بلا‘‘ چھن جانے اور بیشتر رہنماؤں کی عدم موجودگی خصوصاً بانی چیئرمین پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی کے بعد آٹھ فروری کو پی ٹی آئی کا ووٹر پولنگ سٹیشن کا رُخ کرنے کے بجائے گھر بیٹھا رہے گا۔ اس لیے ان کی تمام تر انتخابی مہم اور تقریروں کا فوکس پی ٹی آئی کا ووٹر ہے اور اس کی ہمدردیاں جیتنے کیلئے وہ مسلم لیگ (ن) اور اس کے رہنماؤں پر زبانی حملے کر رہے ہیں۔ لاہور کے حلقہ این اے 127‘ جہاں سے وہ امیدوار ہیں‘ میں ایک جلسے میں انہوں نے پی ٹی آئی ووٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ (ن) لیگ کی انتقامی سیاست سے بچنے کیلئے مجھے ووٹ دیں۔
کافی عرصہ تک غیر متحرک رہنے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی انتخابی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔ وسطی پنجاب کے شہر حافظ آباد میں نواز شریف نے مریم نواز کے ہمراہ ایک جلسہ سے مختصر خطاب کیا لیکن 22 جنوری کو مانسہرہ میں ایک لمبی تقریر میں انہوں نے اپنی سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے مانسہرہ‘ جہاں سے وہ خود قومی اسمبلی کی سیٹ کیلئے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں‘ کے عوام سے خطاب کیا کہ اگر وہ اس دفعہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے تو مانسہرہ میں ایک ایئرپورٹ تعمیر کرنے کے علاوہ ہزارہ موٹروے کو مانسہرہ ناران جال کھنڈ کے ذریعے ایک طرف گلگت بلتستان اور دوسری طرف کراچی سے ملا دیا جائے گا۔ اس تقریر میں نواز شریف نے حاضرین سے وعدہ کیا کہ اگر میں وزیراعظم بنا تو ملک میں کوئی نوجوان بیروزگار نہیں رہے گا‘ اور غریبوں کو بجلی‘ گیس اور سبزیاں تک رعایتی نرخوں پر مہیا کی جائیں گی۔ اُدھر شہباز شریف نے جنوبی پنجاب کا محاذ سنبھالا ہوا ہے۔ 23جنوری کو احمد پور شرقیہ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جنوبی پنجاب خاص طور پر بہاولپور ریجن میں نواز شریف کے دور میں تعلیمی اداروں اور سڑکوں کی تعمیر کی صورت میں (ن) لیگ کی کارکردگی کا ذکر کیا اور وعدہ کیا کہ اگر آٹھ فروری کے انتخابات میں کامیاب ہو کر ان کی پارٹی مرکز میں نواز شریف کی قیادت میں حکومت تشکیل دیتی ہے تو احمد پور شرقیہ میں بھی ایک یونیورسٹی قائم کر دی جائے گی۔ 23جنوری کو لاہور میں انتخابی ریلی نکال کر (ن) لیگ نے اپنی مقبولیت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے علاوہ جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی بھی جنوبی پنجاب میں انتخابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے۔ جہانگیر ترین خود ملتان سے قومی اسمبلی کی ایک سیٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان کے علاوہ انتخابی معرکے میں ملتان سے حصہ لینے والے ہیوی ویٹ امیدواروں میں پیپلز پارٹی کے سید یوسف رضا گیلانی‘ پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی اور ملک عامر ڈوگر شامل ہیں۔ جہانگیر ترین کو ملتان کی قومی اسمبلی کی سیٹ این اے 149میں مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل ہے۔ حال ہی میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ انتخابات کے بعد وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ ایم کیو ایم نے گو کہ اپنی سرگرمیوں کا آغاز اکتوبر میں کر دیا تھا مگر اتوار 21جنوری کو باغِ جناح میں اس کا جلسہ صحیح معنوں میں پارٹی کا پاور شو تھا۔ اس جلسے سے ایم کیو ایم میں ضم ہونے والے تینوں گروپوں کے سربراہان یعنی ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی‘ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال نے خطاب کیا۔ حسبِ معمول ان تینوں مقررین کی تقریروں میں اپنی دو بڑی حریف سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال‘ جو کراچی کے میئر بھی رہ چکے ہیں‘ نے تو جلسے کو آٹھ فروری کے انتخابات میں ایم کیو ایم کی فتح قرار دے دیا اور ان دونوں جماعتوں کو خبردار کیا کہ ایم کیو ایم سے اس فتح کو چھیننے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیں گے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی تقاریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کراچی میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی سیٹوں کی اکثریت جیت لیں گی اور ان کا دعویٰ ہے کہ سندھ کا اگلا وزیراعلیٰ بھی ایم کیو ایم سے ہو گا‘ مگر ایم کیو ایم کیلئے سب سے بڑا چیلنج پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے بجائے جماعت اسلامی ہو گی جس نے کراچی کے لوکل گورنمنٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے بعد شہر کی سب سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔
پنجاب اور سندھ کے علاوہ بلوچستان میں بھی انتخابی سرگرمیاں جاری ہیں۔ وہاں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے تربت میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے لا پتا افراد کی بازیابی کو صوبے کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے صوبے کے معدنی ذخائر سے حاصل ہونے والی آمدنی میں صوبے کے حصے اور گوادر کے معاملات سے بلوچستان کو الگ کرنے کے مسائل کو اُٹھایا۔ اگرچہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کے پے در پے واقعات نے انتخابی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور امیدواروں کیلئے جلسوں اور جلوسوں کی شکل میں انتخابی مہم جاری رکھنا ناممکن ہے‘ تاہم مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام (ف)‘ پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز‘ آفتاب شیر پائو کی قومی وطن پارٹی‘ جماعت اسلامی‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے دونوں صوبوں کے قومی اور صوبائی حلقوں کیلئے اپنے امیدوار میدان میں اُتارے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ملک کے چاروں صوبوں میں انتخابی سرگرمیوں کے زور پکڑنے کا امکان ہے۔