کل آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات مئی 1988ء میں جونیجو حکومت کی معزولی اور صدر ضیا کے ہاتھوں(B)(2) 58 کے تحت اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد‘ پاکستان کے نویں عام انتخابات ہیں۔ اس دوران منعقد ہونے والا ہر الیکشن سیاق و سباق‘ حجم اور نتائج کے اعتبار سے اپنے پیشرو سے مختلف رہا مگر آٹھ فروری کا معرکہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ یہ انتخابات 2018ء کے انتخابات کے بعد منتخب ہونے والی اسمبلی کی پانچ سالہ مدت کی تکمیل کے بعد اکتوبر یا نومبر 2023ء میں ہونا تھے مگر تین ماہ کی تاخیر سے منعقد ہو رہے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اپریل 2022ء میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اوراس وقت کے قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف کی قیادت میں پی ڈی ایم حکومت کے قیام کے بعد پی ٹی آئی کے بانی نے انتخابات کو وقت سے پہلے منعقد کرانے کے لیے بہت کوشش کی ‘ انہوں نے دو مرتبہ (مئی اور اکتوبر 2022ء) میں لانگ مارچ کیا‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پچاس سے زائد جلسے کیے اور پی ڈی ایم کی حکومت کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنے کیلئے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومتیں ختم کر کے صوبائی اسمبلیاں بھی تحلیل کر دیں‘ لیکن یہ حربہ کارگر ثابت نہ ہوسکا اور پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بھی آئینی مدت (90 دن) کے اندر انتخابات نہ ہو سکے‘ حالانکہ سپریم کورٹ نے انتخابات کیلئے 14 مئی 2023ء کی تاریخ بھی مقرر کر دی تھی۔
اگرچہ پاکستان میں آئینی و قانونی بحران میں اعلیٰ عدلیہ کی مداخلت کی پہلے بھی کئی مثالیں موجود ہیں‘ جیسے 1954-55ء میں پہلی قانون ساز اسمبلی کی تحلیل سے پیدا ہونے والا آئینی بحران‘ مگر 8 فروری کے انتخابات کو ممکن بنانے کیلئے اعلیٰ عدلیہ نے جو کردار ادا کیا‘ اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔صدرِ مملکت اور چیف الیکشن کمشنر کی مشاورت کے نتیجے میں موجودہ انتخابات کیلئے 8 فروری کی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ کی ہدایت ہی پر کیا گیا تھا‘ مگر انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد ملک میں امن و سکون پیدا ہونے کے بجائے نئے خدشات‘ قیاس آرائیوں اور افواہوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ انتخابات آٹھ فروری کو نہیں ہوں گے۔مقتدر حلقوں سے قربت رکھنے والے بعض افراد کی طرف سے انتخابات کو چھ ماہ سے ایک سال تک مؤخر کرنے کی تجاویز بھی گردش کرنے لگیں جبکہ انتخابات کو مزید مؤخر کرنے کیلئے جو دلائل پیش کیے جا رہے تھے اُن میں فروری میں شمالی علاقوں میں برف باری اور ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے امن و امان کی بگڑتی صورتحال کو بھی جواز بنایا گیا۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربرا مولانا فضل الرحمن نے ناموافق موسم اور دہشت گردی کے واقعات کا حوالہ دے کر کہا کہ ان کی پارٹی کیلئے انتخابی مہم چلانا نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اسی دوران سینیٹ میں ایک آزاد رکن کی طرف سے پیش کردہ قرارداد‘ جس میں آٹھ فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا‘ کی منظوری سے بھی انتخابات کا انعقاد مشکوک ہو گیا؛ تاہم یکم فروری کو الیکشن کمیشن کے اس اعلان نے‘ کہ انتخابات ہر صورت آٹھ فروری ہی کو منعقد ہوں گے‘ غیر یقینی صورتحال اور خدشات کو بہت حد تک ختم کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم تیز کر دی۔ سیاسی پارٹیوں نے اپنے انتخابی منشور پہلے ہی پیش کر دیے تھے اور اب وہ جلسوں‘ جلوسوں اور کارنر میٹنگز پر فوکس کرنے لگیں۔ جن سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہمات کو تیز کیا اُن میں (ن) لیگ‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم اور خیبر پختونخوا میں اے این پی‘ پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پی اور بلوچستان میں بی این پی (مینگل) اور نیشنل پارٹی وغیرہ شامل تھیں؛ تاہم پاکستان تحریک انصاف‘ جس کے بانی چیئرمین قید میں اور مڈل لیول لیڈرشپ متعدد مقدمات کی وجہ سے زیر حراست یا رُوپوش ہے‘ آزادانہ طور پر انتخابی مہم نہ چلا پائی۔ پی ٹی آئی کی طرف سے اس کے ورکرز کنونشنز‘ کارنر میٹنگز اور جلوسوں کو پولیس کی جانب سے روکنے کی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں۔ تکنیکی وجوہات کی بنا پر پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے بھی محروم ہو گئی۔ اس طرح پی ٹی آئی کی انتخابی سرگرمیوں میں جا بجا رکاوٹوں اور امیدواروں کی گرفتاری اور ہراسانی کے واقعات کے بعد آٹھ فروری کے انتخابات تقریباً یکطرفہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اس چیلنج کا سوشل میڈیا کے ذریعے سامنا کرنے کی کوشش کی اور اس میں کافی حد تک کامیابی بھی ملی‘ تاہم سوشل میڈیا حقیقی انتخابی مہم کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔
انتخابات سے ایک ‘ ڈیڑھ ہفتہ پہلے جہاں سیاسی پارٹیوں نے اپنی انتخابی سرگرمیوں کو فل گیئر میں ڈال دیا تھا‘ دوسری طرف دہشت گردوں کی طرف سے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حملوں کے واقعات میں بھی خاصا اضافہ ہو گا۔اس دوران پولیس کے تھانوں‘ ایف سی کی چیک پوسٹوں اور انتظامیہ کے دفاتر کے علاوہ سیاسی پارٹیوں کے انتخابی دفاتر‘ امیدواروں اور ان کے گھروں پر حملوں کے واقعات میں بھی تیزی آ گئی۔ بدقسمتی سے اس خطے کے کسی بھی ملک میں کوئی بھی انتخاب تشدد سے پاک نہیں رہا مگر حالیہ انتخابات سے قبل تشدد اور دہشت گردی کی جو نئی لہر آئی ہے‘ اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ قبل ازیں انتخابات میں تشدد کے واقعات میں متحارب پارٹیوں کے ارکان یا اُن کے حامی ملوث ہوا کرتے تھے‘ تشدد کی وجہ زبردستی یا جعلی ووٹ ڈالنے کی کوشش ہوا کرتی تھی یا مخالف امیدوار کے بیلٹ باکس اٹھانے پر جھگڑا ہو جاتا تھا‘ لیکن اب ایک باقاعدہ منصوبے یا بیانیے کے تحت دہشت گردی کی جا رہی ہے۔
اگرچہ 2013ء کے انتخابات میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور اے این پی دہشت گردوں کے نشانے پر تھیں‘ ان کے کئی کارکن انتخابی مہم میں جاں بحق ہوئے اور وہ خیبر پختونخوا میں اپنی مہم کو آزادی کے ساتھ جاری نہ رکھ سکیں؛ تاہم اس دفعہ معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردوں نے انتخابات کے انعقاد کو التوا کا شکار کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔ انتخابی امیدواروں کو نشانہ بنایا گیا اور اس میں کسی سیاسی پارٹی کی تخصیص نہیں ‘ سبھی پارٹیوں کے امیدواروں اور انتخابی دفتروں پر حملے ہو ئے۔ اگرچہ بلوچستان ایک عرصہ سے بحرانی کیفیت کا شکار ہے مگر حالیہ دنوں دہشت گردی کی پے درپے واقعات نے سکیورٹی کی صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ باجوڑ میں آزاد امیدوار ریحان زیب کی ٹارگٹ کلنگ نے خوفناک عوامی ردِعمل پیدا کیا‘ کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ چونکہ یہ جھگڑا دو سیاسی پارٹیوں کا تھا‘اور امید ہے کہ وہ اسے مزید پھیلنے سے روکنے میں کامیاب ہو جائیں گی؛ تاہم بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی صورتحال مخدوش ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں پانچ فروری کو ایک پولیس سٹیشن پر دہشت گردوں کا حملہ‘ جس میں 10 جوان شہید اور چھ زخمی ہوئے‘ صورتحال کی سنگینی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے‘ مگر اس کے باوجود سرد موسم اور برف باری کی پروا نہ کرتے ہوئے اور دہشت گردوں کی گولیوں اور بموں کے خطرے کے باوجود ان دونوں صوبوں کے لاکھوں مردو خواتین پولنگ سٹیشن پر پہنچیں گے اوراپنی پسند کے امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے۔یہ اُن کا ایسا جرأت مندانہ اقدام ہوگا جس پر یہ بہادر لوگ بجا طور پر خراجِ تحسین کے مستحق ٹھہریں گے۔