آٹھ فروری کے انتخابات سے قبل مختلف حلقوں کی طرف سے یہ خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ انتخابات کے بعد ملک کا سیاسی بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے لیکن یہ بحران اتنا پیچیدہ ہو گا اور اس میں اتنی شدت آ جائے گی‘ یہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد شمال سے جنوب تک‘ پاکستان کے تمام حصوں میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مظاہروں میں کامیابی اور ناکامی کا سامنا کرنے والی سبھی سیاسی پارٹیاں شامل ہیں مثلاً پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین قومی اسمبلی میں سب سے بڑے گروپ کی حیثیت سے اُبھرے ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں تو انہوں نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے مگر قومی اسمبلی میں سب سے بڑا گروپ ہونے کے باوجود وہ اکیلے حکومت بنانے کے قابل نہیں۔ اپریل 2022ء میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد بانی پی ٹی آئی نے جس بیانیے کے ساتھ سیاسی ایجی ٹیشن کا آغاز کیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ اپنے پونے چار سالہ (اگست 2018ء تا اپریل 2022ء) دورِ حکومت میں ملک کی تعمیر و ترقی اور عوام کی بھلائی کے لیے محض اس لیے دلیرانہ اور اہم فیصلے نہ کر سکے کہ ان کے پاس ایک مخلوط حکومت تھی اور اس حکومت میں دیگر پارٹیوں کی شمولیت سے ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ اسی لیے تمام جلسوں اور دیگر مواقع پر بانی پی ٹی آئی کی اپنے حامیوں سے اپیل تھی کہ وہ آئندہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو دو تہائی اکثریت سے جتائیں اور اگر انہیں تنہا اکثریت حاصل نہ ہوئی تو وہ حکومت قبول نہیں کریں گے مگر آٹھ فروری کے انتخابی نتائج کی روشنی میں پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت تو دور کی بات‘ اکثریتی پارٹی کا ہدف بھی حاصل نہ کر سکی۔ اس پر انہوں نے اپنے ردِعمل میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے اور آخری لمحے میں نتائج میں رد و بدل کر کے پی ٹی آئی کے جیتے ہوئے امیدواروں کو ہارنے والوں میں شامل کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما عمر ایوب خان‘ جنہیں وزیراعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے‘ کا دعویٰ ہے کہ ان کی پارٹی نے قومی اسمبلی کی 265 میں سے 180 نشستوں پر برتری حاصل کی ہے اور ملک بھر میں ان کی پارٹی کے امیدواروں کے حق میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد تین کروڑ سے زائد ہے۔ دوسری طرف جمعیت علمائے اسلام (ف) نے خیبر پختونخوا میں اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ صوبے میں ان کے امیدواروں کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں ہرانے کے لیے دھاندلی کا حربہ استعمال کیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ کامیابی کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور انہوں نے صوبے میں جس احتجاجی تحریک کا آغاز کیا‘ اس کا ٹارگٹ پی ٹی آئی ہے‘ جس نے ان کے بقول‘ پولنگ سٹاف کو ڈرا دھمکا کر زبردستی اپنے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈلوائے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور پارٹی کی جانب سے نامزد وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اپنی ایک حالیہ تقریر میں خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں (سابقہ فاٹا) میں پی ٹی آئی پر اپنے مخالفین کو ڈرا دھمکا کر زبردستی اپنے حق میں ووٹ ڈلوانے کا الزام عائد کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے قبائلی علاقوں میں پی ٹی آئی کے سوا دیگر پارٹیوں کے حامی ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے روکا۔ اگرچہ اس دعوے کے حق میں انہوں نے صرف اطلاعات کا حوالہ دیا اور براہِ راست الزام لگانے سے احتراز کیا مگر یہ مطالبہ ضرور کیا کہ ان الزامات کی تحقیقات کی جائیں۔ اسی قسم کی شکایت نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ (این ڈی ایم) کے رہنما اور سابق رکنِ اسمبلی محسن داوڑ نے بھی کی ہے۔ محسن داوڑ مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پولیس فائرنگ سے زخمی بھی ہو گئے جبکہ اس دوران دو افراد ہلاک اور متعدد کارکن زخمی ہوئے۔ خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں مثلاً چترال میں بھی مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب صوبہ بلوچستان میں صورتحال ملک کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں کہیں پیچیدہ اور مخدوش ہے۔ بلوچستان میں آٹھ فروری کے انتخابات سے پہلے ہی احتجاجی جلسے‘ جلوسوں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری تھا۔ پاک افغان سرحد پر چمن کے مقام پر سرحد کے آر پار جانے کے لیے ویزا اور پاسپورٹ کی پابندیوں کے خلاف تاجروں اور کاروباری لوگوں سمیت سیاسی کارکنوں نے کئی ماہ سے دھرنا دے رکھا ہے۔ اس دھرنے کی وجہ سے نہ صرف پاک افغان تجارت بلکہ کاروبار‘ محنت مزدوری اور علاج معالجہ سمیت دیگر کاموں کے لیے سرحد پار کرنے والے افراد کی آمد و رفت رکی ہوئی ہے۔ حال ہی میں سینکڑوں کنٹینرز کو اپنی منزل کی طرف جانے کی اجازت دی گئی ہے مگر دھرنا تاحال جاری ہے۔ انتخابات سے پہلے بلوچستان کی سیاسی اور سکیورٹی فضا کو تلاطم سے ہمکنار کرنے والی ایک تحریک 'بلوچستان یکجہتی کونسل‘ کے زیر اہتمام چلائی گئی اور تربت سے کوئٹہ اور ڈی جی خان کے راستے اسلام آباد تک لانگ مارچ اور وفاقی دارالحکومت میں کئی روز تک دھرنا دینے کا واقعہ اس لحاظ سے قابلِ ذکر ہے۔ اس احتجاج میں بلوچ عورتوں اور بچوں نے بھی شرکت کی اور اندرونِ ملک سیاسی پارٹیوں‘ دانشوروں اور صحافتی حلقوں سمیت عام لوگوں کی توجہ بھی اپنی طرف مبذول کرائی۔ بلوچستان کی اس سیاسی فضا کے پس منظر میں انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ تحریک چار قوم پرست جماعتوں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل‘ پختونخوا ملی عوامی پارٹی‘ نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی نے شروع کر رکھی ہے۔ چار جماعتی اتحاد کی کال پر صوبے کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں پہیہ جام ہڑتال کی گئی اور احتجاجی دھرنے بھی دیے گئے جس کی وجہ سے بلوچستان کا نہ صرف سندھ‘ پنجاب اور کے پی سے زمینی رابطہ منقطع رہا بلکہ چمن سے افغانستان اور ایران کو جانے والے راستے بھی بند رہے۔ اگرچہ اب حالات معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں مگر مذکورہ اتحاد نے مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
سندھ میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے علاوہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے بھی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کر رکھی ہے۔ 16 فروری کو جی ڈی اے کے زیر اہتمام جامشورو‘ حیدر آباد انٹرسیکشن کے مقام پر ایک دھرنا دیا گیا جس میں لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ پیر پگارا نے اس دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے انتخابی نتائج کو عوام کے حقوق پر ڈاکا قرار دیا۔ جی ڈی اے قائدین کے علاوہ اس دھرنے سے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے بھی خطاب کیا۔ ہفتہ کے روز بانی پی ٹی آئی کی کال پر ملک کے تمام چھوٹے‘ بڑے شہروں میں پارٹی کارکنوں نے احتجاجی جلوس نکالے۔ پی ٹی آئی نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ مطالبات کی منظوری تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔
انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے خلاف یہ تحریک 1977ء میں پی این اے کی احتجاجی تحریک سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ اب انتخابات کی منسوخی اور نئے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ نہیں کیا جا رہا بلکہ مرکزی پارٹی پی ٹی آئی نے نہ صرف اسمبلیوں میں بیٹھنے بلکہ مرکز میں وزیراعظم اور پنجاب اور خیبر پختونخوا میں وزرائے اعلیٰ کے عہدوں کے لیے اپنے نامزد اراکین کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ پارٹی کا موقف ہے کہ وہ اسمبلیوں کے اندر اور اسمبلیوں کے باہر‘ اپنی ''جیتی ہوئی‘‘ سیٹوں کی بحالی تک احتجاج جاری رکھے گی۔ پی ٹی آئی کو احتجاجی میدانوں میں کافی تجربہ اور مہارت حاصل ہے۔ جو لوگ انتخابات سے قبل اس قسم کی خدشات کا اظہار کر رہے تھے کہ الیکشن سے سیاسی استحکام کے بجائے عدم استحکام‘ افراتفری اور غیر یقینی میں اضافہ ہوگا‘ ان کے خدشات اب درست ثابت ہو رہے ہیں۔