چار مارچ کو ایوانِ صدر میں شہباز شریف کے بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد ملک میں صوبائی سے لے کر مرکزی سطح تک حکومت سازی کا عمل مکمل ہو چکا۔ پنجاب‘ سندھ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں صوبائی حکومتیں پہلے ہی کام کر رہی ہیں اور اب مرکز میں بھی وزیراعظم نے عہدہ سنبھال لیا ہے۔ اب عوام بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک بھی متجسس اور فکر مند نگاہوں سے شہباز شریف کی دو سال میں دوسری حکومت کی آئندہ پرفارمنس کی طرف دیکھ رہے ہیں جسے بعض ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جو فوری حل کے متقاضی ہیں اور بعض کا طویل المیعاد حل تلاش کرنا پڑے گا تاکہ ملک بار بار بحرانوں کی دلدل میں نہ پھنسے۔
آج سے تقریباً دو سال قبل پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد شہباز شریف نے 13سیاسی جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کی قیادت سنبھالی تھی۔ اس وقت بھی ملک سنگین خطرات میں گھرا ہوا تھا۔ بانی پی ٹی آئی نے پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف جلسوں جلوسوں اور لانگ مارچ کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا تھا جن میں وہ ملک میں فوری عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔ حکومتی اتحاد کی طرف سے دعوے کیے جا رہے تھے کہ پاکستان ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا ہے اور فوری الیکشن کی صورت میں سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا‘ لیکن نہ ملک کو ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑا اور نہ ہی سری لنکا سی صورتحال سے گزرنا پڑا۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کو درپیش تمام معاشی مسائل حل کر لیے تھے یا بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پا لیا تھا لیکن ملک کے مستقبل کی جو بھیانک تصویر پیش کی جا رہی تھی‘ شہباز شریف نے اسے حقیقت کے روپ میں ڈھلنے نہیں دیا تھا۔ آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی‘ چین کا اعتماد جیتنا‘ امریکہ کے ساتھ روابط کو دوبارہ بحال کرنا اور سب سے بڑھ کر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بگڑے تعلقات کو درست کرنا شہباز حکومت کی اہم کامیابیاں قرار دی جا سکتی ہیں۔ 2022ء کے موسم گرما کی بارشوں سے پاکستان کے بیشتر علاقوں کو سیلابی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا‘ اس کا شہباز حکومت نے جس محنت اور حوصلے سے مقابلہ کیا‘ اسے بین الاقوامی برادری اور مالیاتی اداروں نے بہت سراہا اور غالباً یہی وجہ ہے کہ دوسری دفعہ حلف لینے کے ساتھ ہی نہ صرف ہمارے دیرینہ اتحادی ممالک مثلاً چین‘ سعودی عرب‘ ایران اور ترکیہ کی طرف سے تہنیتی پیغامات آنا شروع ہو گئے بلکہ بین الاقوامی برادری کے اہم رکن ممالک اور اداروں کی طرف سے بھی ان کو مبارکباد اور نیک تمناؤں پر مشتمل پیغامات بھیجے جا رہے ہیں۔
شہباز شریف کے حلف اٹھانے پر پاکستان سٹاک ایکسچینج نے جس مثبت ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ قومی معیشت کو نئے سیاسی سیٹ اَپ پر نہ صرف اعتماد ہے بلکہ اس سے اہم توقعات بھی وابستہ ہیں البتہ کئی لحاظ سے وزیراعظم شہباز شریف کی دوسری ٹرم میں پیش آنے والے مسائل پہلے کے مقابلے میں زیادہ سنگین اور پیچیدہ ہیں حالانکہ چھ ماہ تک اقتدار میں رہنے والی نگران حکومت قومی معیشت کو مستحکم کرنے میں کافی حد تک کامیاب رہی ہے اور اس کا آئی ایم ایف نے بھی اعتراف کیا ہے مگر نگران حکومت کے دور میں محدود معاشی استحکام بیرونی قرضوں اور اندرونِ ملک تیل و گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام پر بوجھ ڈالنے سے حاصل کیا گیا۔ جس کی وجہ سے اندرونِ ملک مہنگائی میں اضافہ ہوا اور بیرونی قرضوں کے انبار لگ گئے۔ اگر بیرونی قرضوں کا بوجھ ہلکا نہ کیا گیا اور اندرونِ ملک عوام کو کمر توڑ مہنگائی سے نجات نہ دلائی گئی تو اس سے نہ صرف بیرونی ادائیگیوں کے سنگین مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ معیشت کو شدید مالی خسارہ درپیش ہو گا۔ اس کا واحد علاج قومی معیشت اور پیداوار کی بحالی ہے تاکہ ایک طرف درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں اضافہ کرکے ادائیگیوں کے توازن کو بہتر کیا جا سکے اور دوسری طرف بیروزگاری ختم کرکے لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ کیا جا سکے‘ مگر اس عمل کو شروع کرنے کے لیے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کی ضرورت ہے جو سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لیے نئی حکومت کے سامنے صرف معاشی ہی نہیں بلکہ سیاسی مسائل بھی درپیش ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ویسے تو ملک گزشتہ چھ برس سے مسلسل سیاسی بحران سے دوچار ہے مگر فروری2024 ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات نے اس میں ایک نئی جہت کا اضافہ کر دیا ہے۔ ماضی میں بھی انتخابات کے بعد دھاندلیوں کے الزامات عائد کیے جاتے رہے لیکن یہ عام طور پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین ایک سیاسی جنگ ہوتے تھے۔ اس دفعہ ایک بڑی پارٹی نے نہ صرف حکومت پر دھاندلی کے ذریعے درجنوں انتخابی حلقوں میں اسے ہرانے کا الزام عائد کیا بلکہ بعض چھوٹی اور علاقائی پارٹیوں نے بھی دھاندلی کے الزامات کی توثیق کی ہے۔ ان الزامات کی بنیاد پر پاکستان تحریک انصاف‘ جس کے منتخب نمائندوں نے آزاد حیثیت میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی ہے‘ نے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت میں یہ تحریک پارلیمنٹ کے اندر اور باہر‘ دونوں جگہ چلائی جائے گی۔ پارلیمنٹ کے اندر پی ٹی آئی کے احتجاج کی کیا شکل ہو گی‘ اس کی ایک ہلکی سی جھلک چار مارچ کو قومی اسمبلی کے اُس اجلاس میں دیکھنے کو مل چکی جس سے شہباز شریف نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد خطاب کیا تھا۔
قومی اسمبلی میں اس وقت جو پارٹی پوزیشن ہے‘ اس کی روشنی میں وزیراعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے خلاف کسی عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں‘ غالباً اسی لیے پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر شور شرابہ اور ہنگامہ کر کے اور ایوان سے باہر سڑکوں پر احتجاجی جلوسوں کے ذریعے حکومت کو مفلوج کرے گی۔ پی ٹی آئی کی اس احتجاجی تحریک سے حکومت جزوی طور پر مفلوج تو ہو سکتی ہے لیکن نہ تو اس کا تختہ اُلٹایا جا سکتا ہے اور نہ اسے پی ٹی آئی کے مطالبات کو منظور کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ ماضی میں پی ٹی آئی کی جلسے‘ جلوسوں اور دھرنوں کی صورت میں احتجاجی تحریک کے انجام سے یہی سبق ملتا ہے مگر اس احتجاجی تحریک سے ملک میں غیریقینی اور سیاسی عدم استحکام کی جو فضا پیدا ہو گی‘ وہ حکومت کے کاموں خصوصاً معاشی شعبے کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ پیدا کر سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو احتجاجی تحریک تیز کرنے کی ہدایت کی ہے‘ اس کے نتیجے میں ملک میں سیاسی درجہ حرارت تیز ہو گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اس چیلنج سے کس طرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔ ان کی حکومت کی کامیابی کا انحصار اس چیلنج سے پُرامن طور پر نبرد آزما ہونے پر ہے کیونکہ ملک مزید خلفشار‘ محاذ آرائی اور تصادم برداشت نہیں کر سکتا۔ موجودہ صورتحال‘ جو کہ روز بروز پیچیدہ شکل اختیار کرتی جا رہی ہے‘ سے قوم کو نکالنے کی بنیادی ذمہ داری نئی حکومت ہی کی ہے۔