وزیراعظم شہباز شریف اور امریکی صدر جو بائیڈن کے درمیان حال ہی میں ہونے والے خطوط کے تبادلے اور ان خطوط کے مندرجات کا اگر غور سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے درمیان مختلف شعبوں میں قریبی تعلقات اور تعاون جاری رہے گا‘ البتہ ماضی سے ہٹ کر اب ایسے شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعاون پر زور دیا جائے گا جن کا تعلق عوام کی فلاح و بہبود‘ معاشی ترقی‘ ماحول کی بہتری عوام کی صحت اور تعلیم‘ توانائی اور آبی ذخائر‘ خوراک کی پیداوار میں خود کفالت اور جمہوری اور بنیادی انسانی حقوق سے ہو گا۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان مضبوط پارٹنر شپ کو نہ صرف دونوں ملکوں کے عوام بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے تحفظ کیلئے ضروری قرار دیتے ہوئے صدر بائیڈن نے وزیراعظم شہباز شریف کو اپنے خط میں یقین دلایا کہ علاقائی اور عالمی سطح پر اُبھرنے والے موجودہ مشکل چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ پاکستان کی حمایت جاری رکھے گا۔ اس کے جواب میں وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر کے نام اپنے خط میں پاک امریکہ تعلقات کو کلیدی اہمیت کا حامل قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان باہمی مفاد پر مبنی بین الاقوامی امن اور علاقائی سلامتی کے قیام کیلئے مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ صدر بائیڈن کی طرح وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ان شعبوں مثلاً توانائی‘ موسمیاتی تغیر‘ زراعت‘ صحت اور تعلیم کا ذکر کیا ہے جن میں پاکستان اور امریکہ تعاون کر رہے ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم کو امریکی صدر کی طرف سے معاشی اور سماجی ترقی کے مختلف منصوبوں کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے استحکام کیلئے تعاون اور اشتراک کی ایک ایسے وقت میں پیشکش کی گئی ہے جب پاکستان کو بدترین معاشی بحران درپیش ہے‘ مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی بنیاد پر اپوزیشن کی طرف سے احتجاجی تحریک کا بھی سامنا ہے اور وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو ایک کمزور مخلوط حکومت قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ اس میں سب سے بڑی پارٹنر کی حیثیت سے شامل پاکستان پیپلز پارٹی نہ صرف وفاقی کابینہ سے باہر ہے بلکہ بہت سے اندرونی اور بیرونی مسائل پر پاکستان مسلم لیگ (ن) سے مختلف نقطۂ نظر کی حامل ہے۔ اس کی وجہ سے وفاقی حکومت کو معاشی صورتحال بہتر بنانے کیلئے مشکل مگر ناگزیر اقدام کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ صدر بائیڈن کی اپنی پارٹی کے متعدد اراکینِ کانگرس کی طرف سے شہباز شریف کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے پر دباؤ کا سامنا تھا‘ اس کے باوجود صدر جو بائیڈن نے خط لکھ کر پاکستان کو درپیش مشکل چیلنجز کا سامنا کرنے میں تعاون اور مدد کی پیشکش کی ہے۔ شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد خط لکھ کر امریکی امداد اور تعاون کی یقین دہانی کرانے کا کیا یہ مطلب نہیں کہ عام قیاس آرائیوں اور پیش گوئیوں کے برعکس صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کو یقین ہے کہ شہباز شریف کی حکومت ملک کو موجودہ معاشی بحران سے نکالنے کیلئے نہ صرف بڑے اور مشکل فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ آئندہ پانچ سال کی آئینی مدت بھی پوری کرے گی۔ پی ٹی آئی کی طرف سے آٹھ فروری کے انتخابی تنازعات کو جواز بنا کر آئی ایم ایف سے ڈیل رکوانے کی پوری کوشش کی گئی‘ مگر آئی ایم ایف نے مارچ میں گزشتہ پروگرام کی تکمیل پر نہ صرف قرضے کی آخری قسط جاری کرنے کی سفارش کی ہے بلکہ اگلے پروگرام پر بھی رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ کیا یہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی طرف سے شہباز شریف حکومت پر اعتماد کا اظہار نہیں؟ بطور وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد پاکستان کے قریبی دوست ملکوں کی طرف سے جس طرح تہنیتی پیغامات موصول ہوئے‘ ان سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اندرونی چیلنجز اور بیرونی مشکلات کے باوجود دنیا کو امید ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت ملک کے سیاسی مسائل اور معاشی مشکلات پر قابو پالے گی۔
وزیراعظم شہباز شریف کو صدر جوبیڈن کی طرف سے موصول ہونے والا خط اس لحاظ سے بھی ایک منفرد اور انوکھا واقعہ ہے کہ اس میں پاکستان کے ساتھ ایک مستقل اور طویل المیعاد شراکت کی بنیاد پر دو طرفہ تعلقات اور تعاون کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے بارے میں افغانستان سے انخلا کے بعد امریکہ کی پالیسی میں جو تبدیلی آئی‘ صدر بائیڈن کا خط اس پالیسی کو منعکس کرتا ہے۔ اس کی طرف پاکستان میں امریکہ کے موجودہ سفیر ڈونلڈ بلوم کچھ عرصہ پہلے بڑی وضاحت سے اشارہ کر چکے ہیں۔ 29 ستمبر2022ء کو اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں امریکی سفیر نے پاک امریکہ تعلقات کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بہت عرصہ تک پاک امریکہ تعلقات کو علاقائی نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ امریکہ اور سابقہ سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ اور کئی دہائیوں پر محیط افغانستان کے مسئلے تک پاک امریکہ تعلقات کے بیانیے پر سکیورٹی سے متعلق امور کی چھاپ رہی ہے۔ اس کی وجہ سے تعلقات کے دیگر اہم پہلوؤں کی طرف توجہ نہیں دی جا سکی۔ ان کی تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ علاقائی اور عالمی سطح پر گزشتہ چند برسوں میں ہونے والی تبدیلیوں کی روشنی میں مستقبل میں پاک امریکہ تعلقات میں سکیورٹی کے ساتھ معاشی ترقی اور عوام کی خوشحالی کو فروغ دینے والے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معاشی ترقی‘ تجارت کے فروغ اور سرمایہ کاری کے علاوہ تعلیم‘ صحت‘ واٹر مینجمنٹ‘ توانائی انفراسٹرکچر کی تعمیر اور قدرتی آفات مثلاً 2005ء کا زلزلہ‘2010 ء اور2022 ء کے سیلاب میں امریکی امداد کا ذکر کرتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا تھا کہ نہ صرف معاشی بلکہ سماجی اور ثقافتی شعبوں میں بھی پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اور تعاون اتنا وسیع اور گہرا ہے کہ ان کی بنیاد پر مزید بڑی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں‘ جن کے نتیجے میں نہ صرف دونوں ملکوں کی عوام بلکہ خطے اور اس طرح دنیا کو فائدہ پہنچے گا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے نام صدر بائیڈن کا خط نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے بارے میں امریکہ کی نئی طویل المیعاد پالیسی بیان کرتا ہے۔ یہ پالیسی کسی مخصوص مدت‘ مخصوص مسئلے یا حکومت تک محدود نہیں بلکہ دونوں ملکوں اور قوموں کے درمیان پہلے سے موجود وسیع اور گہرے تعلقات کی بنیاد پر طویل المیعاد شراکت کاری کی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔ اس لیے اب یہ سوال کہ صدر بائیڈن نے وزیراعظم شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد کیوں نہیں دی‘ غیر متعلقہ ہے۔ خط سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت کو تسلیم کرتا ہے اور علاقائی سلامتی‘ قیامِ امن‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور عوام کی خوشحالی کو فروغ دینے کیلئے اس کے ساتھ مشترکہ اقدامات کیلئے تیار ہے۔ خط میں عوامی سطح پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان روابط کو مزید فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا گیا کیونکہ سیاسی اور حکومتی تبدیلیوں سے قطع نظر عوام کے درمیان قریبی رابطے اور مفاہمت دیرپا اور مضبوط تعلقات اور دوستی کی ضمانت ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے 75 برسوں پر محیط تعلقات میں متعدد اتار چڑھاؤ آئے مگر اس کے باوجود دفاع‘ معیشت‘ تجارت‘ سرمایہ کاری اور سماجی شعبوں مثلاً تعلیم‘ صحت اور ثقافت کے شعبوں میں دونوں ملکوں کے مابین مضبوط تعلقات موجود ہیں۔ صدر جو بائیڈن اور وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خطوط میں ان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی خواہش اور عزم کا اظہار کیا ہے۔ یہ نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ پورے خطے کیلئے ایک اچھی خبر ہے۔