بنگلہ دیش کی وزیراعظم اور عوامی لیگ کی رہنما شیخ حسینہ واجد کو گزشتہ چار دہائیوں سے زائد عرصہ پر محیط اپنے سیاسی کیریئر میں سیاسی حریفوں کی جانب سے بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا مگر جولائی کے تیسرے ہفتے میں ڈھاکہ اور چٹاگانگ سمیت کئی شہروں میں طلبہ کے مظاہروں (بعد ازاں جن میں عام شہری اور سیاسی کارکن بھی شامل ہو گئے) نے ان کی حکومت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ طلبہ کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں پُرامن مظاہروں کا اہتمام کیا تھا لیکن یہ مظاہرے پُرتشدد اور خونریز ہونے میں دیر نہیں لگی۔ طلبہ کی طرف سے اس کی ذمہ داری حکومت پر ڈالی جا رہی ہے جس نے ضرورت سے زیادہ طاقت استعمال کر کے مظاہروں کو کچلنے کی کوشش کی۔ مبصرین کے مطابق تشدد دونوں طرف سے ہوا کیونکہ زخمی ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد پولیس اہلکاروں کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق تقریباً سات دن تک جاری رہنے والے ان مظاہروں کے دوران 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے مگر حسینہ واجد حکومت کے لیے سب سے حیران کن اور صدمہ پہنچانے والا اقدام مظاہرین کا ڈھاکہ میں سرکاری ٹی وی کی عمارت کو نذرِ آتش کرنا اور عمارت کے کئی حصوں کو تہس نہس کرنا تھا۔ خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق دارالحکومت ڈھاکہ میں تباہ حال سرکاری ٹی وی کی عمارت کے فرش پر جا بجا بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کے ہیرو اور وزیراعظم حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمن کی مسخ شدہ تصویریں بکھری ہوئی تھیں۔
شیخ مجیب الرحمن‘ جنہوں نے عوامی لیگ کے بانی حسین شہید سہروردی کی وفات پر پارٹی کی قیادت سنبھالی تھی‘ نے 1971ء میں بنگالیوں کی تحریکِ مزاحمت کی قیادت کی تھی۔ پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش کی آزادی کے حامیوں کی نظر میں شیخ مجیب الرحمن کو ایک ہیرو کی حیثیت حاصل ہے۔ انہیں بنگلہ دیش کے قیام کے صرف تین سال بعد اگست 1975ء میں فوج کے ایک گروپ نے فیملی کے دیگر ارکان سمیت قتل کر دیا تھا۔ ان کی بیٹی حسینہ واجد اس لیے بچ گئیں کہ وہ ملک سے باہر تھیں۔ واپس آ کر انہوں نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور جون 1996ء میں وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔ اس کے بعد 2009ء سے اب تک‘ وہ متواتر چار بار وزیراعظم کی حیثیت سے برسرِ اقتدار چلی آ رہی ہیں۔ اپنے اقتدار کے اس طویل دور میں وزیراعظم حسینہ واجد نے بنگلہ دیش کو ون پارٹی سٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہے کیونکہ انہوں نے مخالف سیاسی قوتوں خصوصاً بیگم خالدہ ضیا‘ جو بنگلہ دیش کے قیام میں حصہ لینے والے ایک اور ہیرو جنرل ضیا الرحمان کی بیوہ اور ملک کی سابق وزیراعظم ہیں‘ کی ہر احتجاجی تحریک کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی۔ اس کی ایک حالیہ مثال جنوری 2024ء کے پارلیمانی انتخابات سے قبل اپوزیشن بالخصوص بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی جانب سے انتخابات کو ایک غیر جانبدار نگران حکومت کے زیر اہتمام کرانے کے حق میں چلائی جانے والی پُرامن تحریک ہے‘ جسے حکومت کی جانب سے کچل دیا گیا جبکہ انتخابات سے قبل جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر اسے انتخابی دوڑ سے ہی باہر کر دیا گیا۔ اپوزیشن کی بیشتر جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔
وزیراعظم حسینہ واجد اور ان کی پارٹی عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمان کو ہیرو بلکہ ایک دیوتا کی حیثیت سے اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے اور ملک کو صرف اپنی پارٹی کے سیاسی فلسفے اور سوچ کے سانچے میں ڈھالنے پر توجہ دی حالانکہ 1948ء میں عوامی لیگ کے قیام سے عوامی لیگ اپنی بعض پالیسیوں اور اقدامات کی وجہ سے متنازع رہی ہے۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں اس کے سب سے بڑے حریف نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما مولانا بھاشانی تھے جنہوں نے 1954ء کے صوبائی انتخابات میں مشرقی بنگال میں سہروردی کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کو شکست دی تھی بلکہ 1956ء میں انہوں نے وزیراعظم سہروردی کی جانب سے سویز بحران میں مصر پر برطانوی اور فرانسیسی حملوں کی حمایت کرنے کے عمل کی سخت مذمت بھی کی تھی اور حکومت کی مغرب نواز خارجہ پالیسی کے خلاف احتجاجی جلوس نکالے تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں بھی شیخ مجیب الرحمن کا مقابلہ کرنے والوں میں مولانا بھاشانی شامل تھے۔ اگرچہ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے 160 پر عوامی لیگ کامیاب ہوگئی تھی لیکن اس کامیابی میں عوامی لیگ کے سیاسی فلسفے یا شیخ مجیب الرحمان کی شخصیت سے زیادہ مغربی پاکستان کی سیاسی غلطیوں کا کردار زیادہ تھا‘ ورنہ ایک ہی رنگ‘ نسل اور ایک ہی زبان بولنے والے 91 فیصد سے زیادہ مسلم بنگالی ون پارٹی رول کے بجائے پولیٹیکل پلورل ازم اور سیکولر ازم کے حامی تھے۔ اس کا ایک ثبوت مشرقی پاکستان کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں کا مخلوط طریقہ انتخاب پر اتفاقِ رائے ہے جبکہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی بیشتر سیاسی پارٹیاں جداگانہ طریقہ انتخاب کی حامی رہی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی طرح بنگلہ دیش کو بھی انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے مسائل کا سامنا ہے مگر بنگلہ عوام کی بھاری اکثریت اسلام کی سخت پیروکار ہونے کے باوجود انتہا پسندی کے خلاف ہے اور مختلف نظریات اور سوچ رکھنے والی سیاسی قوتوں کے ملک کی سیاست میں آزادانہ اور بغیر کسی خطرے کے حصہ لینے کے حق کی حمایت کرتی ہے۔ اس ماحول میں بنگلہ دیشی عوام بھلا ون پارٹی راج اور فسطائی حربے کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ حسینہ واجد اور ان کی پارٹی عوامی لیگ جنوبی ایشیا کی دیگر سیاسی پارٹیوں مثلاً نیپال کی نیپالی کانگرس‘ بھارت کی آل انڈیا کانگرس اور پاکستان کی مسلم لیگ کی طرح ابھی تک اپنے ماضی کے کارناموں میں کھوئی ہوئی ہے اور انہی کی بنیاد پر اپنے سیاسی اقتدار کی عمارت کھڑی کرنا چاہتی ہے‘ مگر 1972ء سے اب تک دریائے گنگا اور دریائے میگھنا کا پانی بہت زیادہ مقدار میں ہمالیہ سے چل کر خلیج بنگال میں گر چکا ہے‘ اس دوران بنگلہ دیش میں تین‘ چار نسلیں جوان ہو چکی ہیں جنہیں ماضی کے بجائے اپنے مستقبل کی زیادہ فکر ہے۔
خطے میں تیز ترین معاشی ترقی کا اعزاز حاصل کرنے کے باوجود بنگلہ دیش میں مہنگائی اور پڑھے لکھے نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت اس کی وجہ کورونا کی عالمی وبا اور دو سال سے زائد عرصے سے جاری یوکرین جنگ کو قرار دیتی ہے مگر بنگلہ دیشی اپوزیشن کی نظر میں اس بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال میں حکومتی حلقوں کی بڑھتی کرپشن اور اقربا پروری کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ اس کی ایک مثال 1972ء کا اعلان کردہ اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ سسٹم ہے۔ اس سسٹم کے تحت ان ملازمتوں کا 30 فیصد حصہ 1971ء کی تحریک آزادی میں شہید ہونے والوں کے بچوں اور ان کے بچوں‘ یعنی گرینڈ چلڈرن کے لیے مختص کیا گیا۔ کچھ نشستیں عورتوں‘ اقلیتوں اور معذوروں کے لیے مختص ہیں۔ کوٹہ سسٹم کے تحت مختص ملازمتوں کی تعداد میرٹ پر ملازمتوں کی کُل تعداد سے بھی زائد ہو جاتی تھی۔ طلبہ کے لیے یہ صورتحال ناقابلِ قبول تھی کیونکہ میرٹ پر مختص ملازمتوں کی تعداد محدود ہونے کی وجہ سے سخت محنت کرنے والے طلبہ بھی ملازمت کے حصول میں ناکام رہتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم حسینہ واجد نے 2018ء میں خود اس کوٹہ سسٹم کو ختم کیا مگر گزشتہ ماہ ہائیکورٹ نے اسے پھر نافذ کر دیا۔ طلبہ اس فیصلے کے خلاف تھے اور وہ حکومت سے اس کی تنسیخ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ طلبہ احتجاج کے بعد بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے اس کوٹہ سسٹم میں ترمیم کر کے ''جنگ آزادی‘‘ کے شہدا کی اولاد کیلئے مختص ملازمتوں کا کوٹہ پانچ فیصد اور خواتین اور معذوروں کا کوٹہ ایک ایک فیصد کر دیا ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی طلبہ کے مظاہروں کا سلسلہ وقتی طور پر تھم گیا ہے مگر ان مظاہروں کے دوران وسیع پیمانے پر جانی اور مالی نقصان میں نہ صرف بنگلہ دیش کی معاشی صحت بلکہ وزیراعظم حسینہ واجد کی حکومت کی بقا پر بھی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔