غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے بارے میں نیتن یاہو کہتا ہے کہ یہ تین مقاصد کے حصول تک جاری رہے گی۔بقول اُس کے یہ مقاصد ہیں حماس کا خاتمہ‘ مغوی اسرائیلیوں کی واپسی اور غزہ میں سکیورٹی کے ایسے انتظامات کہ آئندہ اس پٹی کو اسرائیل پر حملے کیلئے استعمال نہ کیا جا سکے۔ تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو شہید کرنے کے بعد نیتن یاہو نے اسرائیلی عوام سے خطاب میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کا حماس کے خاتمے کو مقصد پورا ہوگیا ہے۔اسماعیل ہنیہ کو شہید کرکے اسرائیلی حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے ایک بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ ماضی میں اسرائیل نے فلسطینی تحریک آزادی کو ختم کرنے کیلئے اسکے سرکردہ رہنماؤں کو خفیہ ذرائع سے قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ اس ضمن میں 1970ء اور 1980ء کی دہائی میں بیروت میں رہائش پذیر فلسطینی رہنماؤں کو اسرائیلی چھاپہ مار پارٹیوں کے ذریعے قتل کی وارداتوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ان پے در پے قاتلانہ حملوں کے بعد اسرائیل کی ایک سابقہ وزیراعظم گولڈا میئر نے کہا تھا کہ فلسطینی تحریک آزادی کو ختم کردیا گیا ہے اور جو فلسطینی باشندے باقی بچے ہیں انہیں اُردن چلے جانا چاہیے کیونکہ فلسطین میں ان کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن اسی اسرائیل کو 1993ء کے اوسلو معاہدات کے تحت فلسطینی تنظیمِ آزادی (PLO) کو تمام فلسطینیوں کا نمائندہ تسلیم کرتے ہوئے مذاکرات کرنا پڑے جن کے نتیجے میں مشرقی بیت المقدس‘ دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پر مشتمل فلسطینی اتھارٹی کے قیام پر رضامند ہونا پڑا۔ تہران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس بزدلانہ اور عالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے کیے گئے اقدام سے اگر اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ اس نے حماس کے خاتمے کا مقصد حاصل کر لیا ہے تو یہ اسکی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں نے جس ردِعمل کا اظہار کیا ہے اس کے بعد یہ بات بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کا دعویٰ جھوٹا اور غلط مفروضوں پر مبنی ہے۔
ان دنوں مغربی کنارے پر رہنے والے ایک فلسطینی کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں اسے یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ایک اسماعیل کی شہادت سے حماس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ہزاروں فلسطینی ان کی جگہ لینے کیلئے تیار ہیں۔ غزہ میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اسماعیل ہنیہ ہے۔ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے بہت پہلے مغربی تبصرہ نگار بیان کر رہے تھے کہ غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں وسیع پیمانے پر تباہی اور 40ہزار کے لگ بھگ مردوں‘ خواتین اور بچوں کی ہلاکت کے باوجود فلسطینیوں میں حماس کی مقبولیت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیلی حماس کی قیادت کو جسمانی طور پر تو مٹا سکتے ہیں لیکن فلسطینیوں کے دلوں سے حماس اور اس کے نظریے کو کیسے نکالیں گے؟اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد البتہ فلسطین کا مسئلہ ماضی کے تمام ادوار کے مقابلے میں ایک نئے اور انتہائی اہم دورمیں داخل ہو گیا ہے‘ جس کے ممکنہ نتائج کے بارے میں فی الحال کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ گزشتہ صدی کے اوائل سے جاری عرب اسرائیل تنازع اب صرف اسرائیل اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان تصادم تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کا دائرہ خلیج فارس اور اس سے بھی اگلے خطوں تک پھیل سکتا ہے‘ کیونکہ اسماعیل ہنیہ کو ایران کی سرزمین پر اُس وقت شہید کیا گیا جب وہ ایران کے نومنتخب صدر مسعود پزشکیان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیلئے تہران میں موجود تھے۔ اس لحاظ سے یہ حملہ ایران کے خلاف براہِ راست اشتعال انگیزی کے مترادف ہے۔ اسرائیل کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ایران اس قسم کی اشتعال انگیزی پر خاموش نہیں رہے گا۔ پہلے بھی ایران اس قسم کی اشتعال انگیزی کے خلاف اپنے ردِعمل کا اظہار کر چکا ہے جب اسرائیل نے دمشق میں اس کے سفارت خانے پر فضائی حملہ کرکے ایران کے سینئر فوجی حکام کو شہید کر دیا تھا۔ اس کا جواب دیتے ہوئے ایران نے اسرائیل پر 300کے قریب میزائلوں سے حملہ کیا تھا۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر اسرائیلی حملے کے واقعہ سے کہیں بڑی اشتعال انگیزی ہے ‘اس لیے ایران کی طرف سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی کارروائی کی توقع کرنی چاہیے۔ اسی خدشے کے پیشِ نظر امریکہ‘ جس کی بری‘ بحری اور فضائی افواج پہلے ہی خطے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں‘ نے جدید جنگی جہاز بحیرۂ روم اور خلیج فارس کی طرف روانہ کر دیے ہیں۔ امریکی حکومت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ اگر اسماعیل ہنیہ کے قتل کے خلاف ردِعمل کے طور پر ایران یا کسی اورملک کی طرف سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کی گئی تو امریکہ اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ امریکی حکومت کا خیال ہے کہ اسرائیل کی حمایت پر مبنی اس کے بیان سے ایران یا کسی اور جانب سے اسرائیل پر حملے کی حوصلہ شکنی ہو گی اور یوں خطہ ایک بڑی جنگ سے محفوظ رہے گا۔ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کا ایک بیان‘ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ تہران کے واقعہ کے بعد بھی مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ ناگزیر نہیں ہے اور امریکہ اپنی تمام تر توجہ غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کی کامیابی پر مرکوز رکھے گا‘ مگر بیشتر مبصرین کی رائے میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے کیونکہ اسماعیل ہنیہ ان کوششوں میں براہِ راست ملوث تھے۔ اور ان کے ممکنہ جانشین خالد مشعل اسماعیل ہنیہ کے مقابلے میں اسرائیل کے خلاف زیادہ سخت گیر پالیسی کے حامی ہیں۔
بعض حلقے جن میں امریکی حکام پیش پیش ہیں‘ اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں کہ نیتن یاہو‘ جو اپنے عوام کے سامنے جنگ کے تین مقاصد میں سے ایک‘ یعنی حماس کی اعلیٰ قیادت کا خاتمہ‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں‘ وہ اب عارضی جنگ بندی پر راضی ہو جائیں گے مگر ان کی طرف سے جو شرائط عائد کی گئی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ جنگ بند کرنے کے حق میں نہیں ہیں کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے غزہ میں حماس کا خاتمہ نہیں ہو گا۔ غزہ میں جنگ بندی کا امکان اس لیے کم ہے کہ اسرائیل کے سامنے اب صرف غزہ جنگ کا مسئلہ نہیں بلکہ وہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں میں اضافہ کرکے اور اسے اسرائیل کا حصہ بنا کر فلسطینیوں کیلئے ایک علیحدہ اور آزاد ریاست کے قیام کو ہمیشہ کیلئے خارج از امکان بنا دینا چاہتا ہے۔ ماضی میں ہر جنگ کے بعد اسرائیل نے اپنی سرحدوں کو توسیع دی ہے‘ اور جب سے نیتن یاہو کی قیادت میں ایک مذہبی انتہا پسند اور الٹرا نیشنلسٹ حکومت قائم ہوئی ہے اسرائیل نے اس عمل کو تیز کیا ہے۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اسرائیل کا مستقل حصہ بنانا اسرائیل کی موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے اور غزہ کی جنگ کی آڑ میں ایک طرف نئی یہودی بستیاں آباد کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف اسرائیلی فوج کی مدد سے مسلح یہودی آباد کار فلسطینیوں کو ہراساں کرنے‘ ان کی آمدورفت کو محدود کرنے‘ ان کی جائیدادوں کو نقصان پہنچانے اور ان پر قاتلانہ حملے کرنے میں مصروف ہیں تاکہ وہ مغربی کنارے کو خالی کر دیں۔
اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد غزہ جنگ کے ایک بڑے علاقائی تصادم میں تبدیل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس لیے امریکہ سمیت دوسری بڑی طاقتیں مثلاً روس اور چین بھی خطے میں اپنے اتحادیوں اور دوست ملکوں کے ساتھ رابط پیدا کرکے اس خطرے کو ٹالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن طاقت کے نشے میں چور اور امریکہ کی مکمل غیرمشروط اور غیر محدود جنگی امداد کی یقین دہانی کے بعد اسرائیل سے کسی امن فارمولے پر دستخط کی توقع نہیں کی جا سکتی۔