حسینہ واجد کے مستعفی ہونے کے تین دن بعد بنگلہ دیش میں عبوری حکومت نے حلف اٹھا لیا ہے۔ اس عبوری حکومت کے سربراہ نوبیل انعام یافتہ سابقہ بینکر اور پروفیسر ڈاکٹر محمد یونس ہیں جنہیں گرامین بینک قائم کرنے اور ملک میں غریب طبقات خصوصاً دیہات میں رہنے والی عورتوں کو چھوٹی رقم کے قرضے فراہم کرنے کی 'مائیکرو فنانس سکیم‘ متعارف کرانے پر عالمی شہرت حاصل ہوئی۔ اس سکیم کی وجہ سے بنگلہ دیش کی غربت میں نمایاں کمی آئی۔ بنگلہ دیش کو دنیا میں تیز ترین ترقی کرنے والے ممالک کی صف میں کھڑا ہونے کا جو اعزاز حاصل ہوا ‘ اس میں ڈاکٹر محمد یونس کی مائیکرو فنانس سکیم کا بہت بڑا ہاتھ ہے‘ اس لیے انہیں بنگلہ دیش میں انتہائی عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں کوٹہ تحریک کی قیادت کرنے والی طلبہ تنظیم Students Against Discrimination's liaison committee نے اس عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔ ڈاکٹر محمد یونس کی اعانت کے لیے جس 16 رکنی ''ایڈوائزری کونسل‘‘ کا اعلان کیا گیا ہے‘ اس کے بیشتر اراکین نے آٹھ اگست کو حلف اٹھا لیا ہے۔ اسے کابینہ کے بجائے ایڈوائزری کونسل اور اس کے اراکین کو وزیر کے بجائے ''ایڈوائزر‘‘ اس لیے کہا جا رہا ہے کیونکہ بنگلہ دیش کے آئین میں عبوری کابینہ اور عبوری وزیراعظم کی گنجائش نہیں۔ اس سے بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے بعد اقتدار سنبھالنے والوں کو درپیش آئینی اور قانونی مشکلات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر بنگلہ دیش اس وقت غیرمعمولی حالات اور مسائل سے دوچار ہے جن پر قابو پانے کے لیے بنگلہ دیش کے ایک معروف قانونی اور آئینی ماہر کے مطابق ماورائے آئین اقدامات کرنا پڑیں گے۔ ان مسائل میں سب سے اہم اور فوری کارروائی کا مستحق امن و امان کی ابتر صورتحال ہے۔ بنگلہ دیش تقریباً گزشتہ ایک ہفتے سے انارکی کا شکار ہے۔ پولیس نہ صرف اپنی ڈیوٹی بلکہ تھانوں سے بھی غائب ہے۔ پولیس کی عدم موجودگی میں طلبہ نے ڈھاکہ میں ٹریفک کنٹرول کرنے کی ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں طلبہ اور فوج مل کر ہنگاموں‘ لوٹ مار‘ سابقہ حکومت کے اہلکاروں کے گھروں اور اقلیتوں کی املاک اور عبادت گاہوں (مندروں) پر حملوں کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن پولیس کی عدم موجودگی میں انہیں اس کام کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ڈاکٹر محمد یونس نے بھی ملک میں امن و امان کے قیام کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے اور قوم کو صاف بتا دیا ہے کہ اس کے بغیر ملک کو دوبارہ شاہراہِ ترقی پر گامزن نہیں کیا جا سکتا۔
عبوری حکومت کے قیام کے باوجود بنگلہ دیش میں اب بھی غیر یقینی کی صورتحال ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ حالات آئندہ کیا رُخ اختیار کریں گے‘ تاہم عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس کا یہ بیان خوش آئند ہے کہ وہ آئین کا احترام کریں گے اور امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتے ہی نئے انتخابات کروا دیے جائیں گے۔ جنوری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات یکطرفہ تھے۔ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی بی این پی نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ ایک اور اہم پارٹی‘ جماعت اسلامی کو حسینہ واجد کی حکومت نے انتخابات کے لیے نااہل قرار دیا تھا ‘اسی لیے پارلیمنٹ کی دو تہائی سیٹوں پر عوامی لیگ ہی کا قبضہ تھا۔ اس لیے عبوری حکومت کی طرف سے نئے انتخابات کے اعلان کا سیاسی پارٹیوں کی طرف سے خیر مقدم کیا جائے گا۔ دوسری طرف ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف تحریک کی قیادت کرنے والے طلبہ کا مستقبل کی سیاست میں کیا کردار ہو گا۔ کیا وہ اپنی الگ سیاسی پارٹی بنا کر پارلیمانی سیاست میں حصہ لیں گے یا ایک پریشر گروپ کی حیثیت سے کام کریں گے؟ عبوری حکومت کے قیام سے قبل طلبہ کمیٹی کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ طلبہ نے قربانیاں دے کر جو کامیابی حاصل کی ہے‘ کسی پارٹی‘ فرد یا گروپ کو اس کا ثمرحاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور عبوری حکومت کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس کا کام طلبہ کے جذبات اور احساسات کے مطابق عملی اقدامات کرنا ہے۔ موجودہ حالات میں طلبہ کے کردار خصوصاً امن و امان کے قیام میں ان کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے طلبہ کے دو نمائندوں ناہد اسلام اور آصف محمود کو عبوری حکومت میں بطور ایڈوائزر شامل کیا گیا ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے ان طلبہ نے اپنے دیگر ساتھیوں سے مل کر حسینہ واجد کی حکومت کے خلاف تحریک کو جاری رکھنے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ دونوں افراد اس کمیٹی کے بھی رکن ہیں جسے عبوری حکومت نے سول سوسائٹی اور طلبہ کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کے لیے تشکیل دیا ہے۔ اس کمیٹی کی طرف سے ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بات چیت اور مشاورت کی روشنی میں تیار کردہ سفارشات عبوری حکومت کو پیش کی جائیں گی۔
دیکھا جائے تو بنگلہ دیش کی عبوری حکومت میں ابھی تک سب سے زیادہ اثر و رسوخ کے مالک طلبہ ہی ہیں اور اب تک کیے جانے والے تمام فیصلوں میں ان کی رائے کو ترجیح دی گئی ہے۔ ان میں ڈاکٹر محمد یونس کا بطور چیف ایڈوائزر تقرر اور پارلیمنٹ کی تحلیل بھی شامل ہے لیکن پارلیمانی انتخابات میں اور ان انتخابات کے بعد طلبہ کا کیا کردار ہوگا‘ اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اور سوال عوامی لیگ کے مستقبل کے بارے میں ہے۔ عبوری حکومت میں عوامی لیگ کو شامل نہیں کیا گیا۔ کیا آئندہ سیٹ اَپ سے بھی عوامی لیگ کو باہر رکھا جائے گا؟ اس کے لیے قانونی اور آئینی جواز کی ضرورت ہو گی اور اگر عبوری حکومت اس جھنجھٹ میں پڑ گئی تو نہ صرف آئندہ انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ غیرسیاسی اور سماج دشمن عناصر کو بھی تقویت حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔
اگرچہ بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت ختم کر دی گئی ہے اور حسینہ واجد فرار ہو گئی ہیں‘ مگر عوامی لیگ ابھی باقی ہے اور اسے بآسانی ختم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ماضی میں اس پارٹی نے متحدہ پاکستان اور بعد ازاں 1971ء میں بہت سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بانی حسین شہید سہروردی نے 1956ء کے آئین کی تشکیل اور اس پر مشرقی پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں کو راضی کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ 1968ء‘ 1969ء کی ایوب مخالف تحریک میں بھی عوامی لیگ کا بہت اہم کردارتھا۔ عوامی لیگ کی سیاست کا محور شروع سے ہی مشرقی بنگال (جسے 1955ء کے بعد مشرقی پاکستان کا نام دیا گیا تھا) رہا۔ ملک کو درپیش اہم مسائل مثلاً قومی زبان‘ صوبائی خود مختاری‘ طریقۂ انتخاب‘ ریاست اور مذہب کے تعلقات پر اس کا مؤقف مسلم لیگ اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف تھا۔ مگر بنگالیوں کی اکثریت اس کی حامی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف 1954ء کے صوبائی انتخابات بلکہ 1970ء کے عام انتخابات میں بھی عوامی لیگ کو مشرقی پاکستان میں دیگر تمام سیاسی پارٹیوں پر سبقت حاصل ہوئی۔ مشرقی پاکستان میں دیگر سیاسی پارٹیوں کے مقابلے میں عوامی لیگ کو نہ صرف سب سے زیادہ پاپولر بلکہ ایک منظم پارٹی سمجھا جاتا تھا۔ آج بھی اس کے حامیوں میں زیادہ تر شہری علاقوں کے لوگ شامل ہیں۔ یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ نچلے اور متوسط طبقات کے مفادات اور سوچ کی نمائندہ اور بنگالی قوم پرستی میں یقین رکھنے والی سیاسی جماعت ہے۔ جب تک بنگلہ دیش میں اس سوچ کے حامل لوگ موجود ہیں‘ عوامی لیگ باقی رہے گی۔ شاید اسی لیے حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد‘ جو اس وقت ملک سے باہر ہیں‘ نے کہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں عوامی لیگ بھرپور حصہ لے گی بلکہ اگر ضرورت پڑی تو وہ خود بھی سیاست میں حصہ لیں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا بنگلہ دیش کی عبوری حکومت عوامی لیگ کو آئندہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے گی؟