سری لنکا میں حالیہ انتخابات کے نتیجے میں ایک ایسی تبدیلی آئی ہے جو اپنی نوعیت کا سری لنکا کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے‘ جس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر بھی محسوس کیے جائیں گے۔ جے وی پی (Janatha Vimukthi Peramuna) کے مارکسسٹ نظریات کے حامی انورا کمارا ڈسا نائیکے‘ جنہیں سری لنکا میں AKD کے پاپولر نام سے جانا جاتا ہے‘ سری لنکا کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔اس طرح نیپال کے بعد سری لنکا جنوبی ایشیا کا دوسرا ملک ہے جہاں ایک کمیونسٹ برسراقتدار آیا ہے۔ نیپال میں 2008ء میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد سے شدت پسند کمیونسٹ ماؤ نواز پارٹی کے سربراہ پشپا کمال دہل عرف پرا چندا تین دفعہ نیپال کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ دونوں پارٹیاں اپنے اپنے ملک میں مسلح جدوجہد کے ذریعے کمیونسٹ انقلاب لانے کی کوشش کر چکی ہیں‘ اور اپنے اپنے ملک کی مین سٹریم پالیٹکس میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ سری لنکا نے 1948ء میں برطانوی نوآبادیاتی تسلط سے آزادی حاصل کی تھی اور آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان کی طرح پارلیمانی نظام سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا تھا مگر 1978ء میں یونائیٹڈ نیشنل پارٹی (UNP) کے دور میں صدارتی نظام اختیار کر لیا۔ 1984ء میں سری لنکا میں پہلے صدارتی انتخابات ہوئے جس میں یو این پی کے سربراہ جے آر جے وردنے صدر منتخب ہوئے۔
سری لنکا میں 22 ستمبر 2024ء کو ہونے والے انتخابات سری لنکا کے نویں صدارتی انتخابات ہیں۔ اس میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تعداد 38 تھی مگر اصل مقابلہ تین امیدواروں‘ موجودہ صدر رانیل وکرما سنگھے‘ ساجید پریم داس اور انورا کمارا ڈسا نائیکے کے درمیان تھا۔ رانیل وکرما سنگھے اس سے پہلے بھی صدر اور وزیراعظم کے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں جبکہ ساجید پریم داس سابق صدر رانا سنگھے پریم داس کے بیٹے ہیں جو 1993ء میں ایل ٹی ٹی ای کی دہشت گردی کا شکار ہو گئے تھے۔
انتخاب کے پہلے راؤنڈ میں ان تینوں میں سے کوئی امیدوار بھی آئینی لحاظ سے لازمی‘ 50فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ دوسرے راؤنڈ میں ترجیحی ووٹوں کی گنتی کے بعد انورا کمارا کو منتخب قرار دے دیا گیا۔ انورا کمارا کی کامیابی محض اس لیے خصوصی اہمیت کی حامل نہیں کہ وہ سری لنکا کے پہلے مارکسسٹ صدر ہیں بلکہ اُن کا انتخاب ایسے ملک میں کیا گیا ہے جو نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بڑی طاقتوں کے درمیان جیو پولیٹکل محاذ آرائی کا محور ہے۔ سری لنکا کی یہ اہمیت اس کی جغرافیائی لوکیشن کی وجہ سے ہے۔ بحرِ ہند کے عین وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے سری لنکا کو ایک طرف مشرق میں آبنائے ملاکا کے راستے جنوب مشرقی ایشیا‘ مشرقِ بعید (کوریا‘ جاپان اور تائیوان) اور چین اور دوسری طرف مغرب میں بحیرہ احمر کو بحر ہند سے ملانے والی آبنائے باب المندب کے راستے مشرقِ وسطیٰ‘ فلسطین اور مصر سے آگے بحیرہ روم کے پار یورپ کے درمیان قدیم زمانے میں قائم تجارتی راستوں کی وجہ سے اہمیت حاصل ہے۔ قدیم زمانے میں مسالا جات کی تجارت بحر ہند سے گزرنے والی اسی آبی گزرگاہ کے ذریعے ہوتی تھی۔ مگر بحر ہند اور اس کے مشرق میں واقع جزائر مثلاً نکوبار اور اَنڈمان اور وسطی حصے میں سیلون اور مالدیپ اور شمالی مغربی حصے میں ماریشیس اور جبوتی کو خاص اہمیت حاصل تھی مگر عالمی سطح پر اس حصے کی اہمیت پندرہویں صدی کے آخر میں تجارت کی غرض سے یورپی قوموں کی آمد کے بعد نمایاں ہوئی۔ بحر ہند کے خطے میں داخل ہونے والی پہلی یورپی قوم پرتگیزی تھے جنہوں نے آبنائے ملاکا سے خلیج فارس تک کے حصے پر ایک عرصہ تک حکومت کی۔ اس سلطنت کی دفاعی حکمت عملی میں سری لنکا کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ پرتگیزیوں کے بعد دیگر یورپی قوموں مثلاً ولندیزیوں‘ فرانسیسیوں اور انگریزوں نے بحر ہند کا رخ کیا۔ اس کے نتیجے میں یورپ کی ان قوموں کے درمیان علاقے پر بالادستی کیلئے طویل عرصے تک جنگ جاری رہی جس میں بالآخر انگریز کامیاب رہے۔ انگریزوں کی اس کامیابی میں سری لنکا نے بہت اہم کردار ادا کیا جس پر انہوں نے انیسویں صدی کے شروع میں قبضہ کیا تھا۔
سری لنکا کو بھارت اور چین کے درمیان بحر ہند پر بالادستی قائم کرنے کی کشمکش میں کلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ سری لنکا کو بھارت سے جدا کرنے والی تنگ آبی گزرگاہ جسے پالک سٹریٹ (Palk Strait) کہا جاتا ہے‘ کی چوڑائی صرف 64 سے 137 کلو میٹر ہے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں چین نے سری لنکا‘ جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارتی‘ معاشی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں شرکت کر کے جو اثر و رسوخ حاصل کیا ہے‘ بھارت کو اس پر بہت تشویش ہے۔ سری لنکا میں ہر سیاسی تبدیلی پر بھارت کی توجہ مرکوز رہی ہے۔ اس لیے بھارت اب انورا کمارا کی کامیابی کو اپنے سیاسی‘ معاشی اور دفاعی مفادات کے تناظر میں دیکھ رہا ہے‘ کیونکہ نئے صدر کی پارٹی جے وی پی سری لنکا میں بھارت کی مداخلت کی سخت مخالف رہی ہے۔ جولائی 1987ء میں جب یو این پی کے سابق صدر جے آر جے وردنے نے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کے ساتھ بھارتی ''امن فوج‘‘ معاہدے پر دستخط کیے تھے تو جے وی پی نے صدر وردنے کی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کا اعلان کر دیا تھا۔ نئے صدر ڈسا نائیکے کو جہاں اندرونی طور پر لوگوں کو درپیش مہنگائی‘ بے روزگاری اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا وہیں خارجہ محاذ پر بھارت کے ساتھ بھی معاملات کو ٹھنڈا رکھنا پڑے گا۔
شمال میں نیپال میں ماؤ نواز حکومتوں کے دور میں چینی اثر و رسوخ میں اضافے کے بعد جنوب میں سری لنکا میں ایک کمیونسٹ اور بھارتی مداخلت کے سخت مخالف صدر کا انتخاب نئی دہلی کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں۔تجارت‘ سرمایہ کاری اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کیلئے بھارت نے بھی بھاری قرضوں کی شکل میں سری لنکا میں ایک اہم سٹیک ہولڈر کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔ صدر ڈسانائیکے بھی اس موڑ پر‘ جب سری لنکا کی معیشت بدستور خطرات سے گھری ہوئی ہے‘ بھارت کے ساتھ تعلقات کو تناؤ سے آزاد رکھنے کی کوشش کریں گے۔
سری لنکا کے عوام‘ سول سوسائٹی‘ دانشور‘ سیاسی پارٹیاں اور سیاستدان بھی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ 1983ء سے 2009ء تک‘ 25 سال سے زیادہ عرصہ تک تامل باغیوں اور مختلف حکومتوں کے درمیان خون ریز خانہ جنگی‘ جس میں ایک اندازے کے مطابق 70 ہزار سے ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے‘ سری لنکا میں جمہوریت کو پٹڑی سے نہیں اترنے دیا گیا۔ باقاعدگی سے انتخابات ہوتے رہے‘ لوگوں کو آئین کے مطابق حکومتوں کے انتخاب اور اقتدار سے الگ کرنے کا اختیار حاصل رہا۔ آئینی‘ سیاسی اور سکیورٹی کے ادارے طے شدہ دائروں میں کام کرتے رہے۔ دہشت گردی اور حکومتی اراکین و سیاستدانوں پر قاتلانہ حملوں کے باوجود سری لنکا میں ایک دفعہ بھی فوج نے بغاوت کر کے اقتدار پر قبضہ نہیں کیا۔ اگرچہ اس دور میں فوج پر تامل باغیوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور حکومتوں پر تامل باشندوں‘ جو سری لنکا کی آبادی کے 11 فیصد سے زیادہ حصے پر مشتمل ہیں‘ کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھنے کی بنا پر بین الاقوامی حلقوں میں تنقید ہوتی رہی ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سری لنکا میں جمہوری عمل تسلسل سے جاری رہنے کے نتیجے میں ملک کے انتظامی‘ سیاسی اور قانونی ادارے مضبوط ہوئے ہیں۔ بہت سے حلقوں کے نزدیک 2022ء کے معاشی اور سیاسی بحران کے بعد سری لنکا میں صرف دو برس میں معاشی بحالی میں نمایاں کامیابی میں ملک کے ان مضبوط اداروں کا بہت اہم حصہ ہے حالانکہ سری لنکا کو ڈیفالٹ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔