بیروت میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اور اُن کے ساتھیوں کی اسرائیلی بمباری سے شہادت نے غزہ‘ اسرائیل جنگ کو ایک علاقائی جنگ میں تبدیل کر دیا ہے۔ گزشتہ برس اکتوبر میں جب اسرائیل نے حماس کی کارروائیوں کے جواب میں غزہ میں فلسطینی شہریوں کو اپنے وحشیانہ حملوں کا نشانہ بنانا شروع کیا تھا تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سمیت بہت سے حلقوں نے اس خطرے کی نشاندہی کی تھی کہ اگر اسرائیل کے جارحانہ حملوں اور فلسطینیوں کے قتل عام کو نہ روکا گیا تو یہ جنگ غزہ تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی‘ جس کے‘ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن اور سیکرٹری دفاع کے مطابق‘ خوفناک اور ناقابلِ تصور نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مگر اسرائیل کی جارحیت کو نہ صرف روکا نہیں گیا بلکہ امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی اسرائیل کو ہتھیار اور گولہ بارود کی مسلسل سپلائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی جارحیت جاری رہے گی اور اس میں مزید شدت بھی آئے گی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ لبنان کے بعد خطے کے دیگر ممالک بھی اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
لبنان اُن عرب ممالک میں سے ہے جن کی سرحدیں براہِ راست اسرائیل سے ملتی ہیں۔ دیگر ممالک میں شام‘ اردن اور مصر شامل ہیں۔ 1948ء اور 1949ء کی عرب‘ اسرائیل جنگ کے نتیجے میں تقریباً آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ ملکوں میں پناہ لینا پڑی تھی۔ لبنان میں بھی فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد نے پناہ لی‘ جو پناہ گزین کیمپوں میں رہنے لگے۔ اگرچہ پہلی عرب اسرائیل جنگ جنوری 1949ء میں ختم ہو گئی تھی مگر یہ عارضی جنگ بندی تھی۔ عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا اور فریقین حالتِ جنگ میں رہ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی تحریک مزاحمت کے کارکنوں کی جانب سے ہمسایہ ممالک سے اسرائیل پر حملے جاری رہے۔ اردن میں سابق حکمران شاہ حسین کے دور میں فلسطینی جنگجوؤں کے خلاف 1971ء میں باقاعدہ کارروائی بھی کی گئی۔ چوتھی عرب اسرائیل جنگ (1973-1974ء) کے بعد مصر اور اسرائیل کے مابین ایک معاہدۂ امن پر دستخط ہوئے‘ جس سے اس کی سرحد اسرائیل کے لیے محفوظ ہو گئی مگر شام اور لبنان میں فلسطینی کیمپ اسرائیل کے خلاف جدوجہد کا مرکز بنے رہے۔ خصوصاً لبنان‘ جس کی جنوبی سرحد اسرائیل کے شمالی علاقوں سے ملتی ہے‘ میں فلسطینی مہاجرین کے کیمپ اسرائیل کے خلاف تحریکِ مزاحمت کے اہم مراکز بن کر ابھرے۔
1967ء کی جنگ میں شام کے علاقہ سطح مرتفع گولان‘ دریائے اردن کے مغربی کنارے‘ بیت المقدس اور غزہ پر اسرائیلی قبضے کے نتیجے میں فلسطینی تحریک مزاحمت نے نیا رخ اختیار کیا۔ 1948ء کے برعکس 1967ء میں دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ میں رہنے والے فلسطینیوں نے اسرائیلی قبضے کے باوجود اپنے گھر بار چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک میں پناہ نہیں لی‘ اس لیے فلسطینی تحریک مزاحمت کی حکمت عملی میں بھی تبدیلی آ گئی۔ اب اسرائیل کو نہ صرف سرحد پار فلسطینی مجاہدین کی طرف سے راکٹ اور میزائل حملوں کا سامنا تھا بلکہ مقبوضہ عرب علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا تھا۔ اسرائیل نے ان دونوں محاذوں پر مقابلہ کرنے کے لیے نہ صرف لبنان اور شام میں فلسطینی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا بلکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے بیت المقدس‘ اس کے اردگرد فلسطینی اکثریت والے علاقوں اور غزہ میں فلسطینی آبادی کے خلاف انتہائی جابرانہ اقدامات کیے۔ موجودہ اسرائیلی وحشیانہ کارروائی انہی اقدامات کے سلسلے کا حصہ ہے۔
گزشتہ سات دہائیوں سے زائد عرصہ کے دوران مسئلہ فلسطین میں جو نئی پیچیدگیاں پیدا ہو چکی ہیں‘ ان کے پیش نظر یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اسرائیل کی یہ کارروائیاں نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ ان کا دائرہ وسیع تر ہوتا جائے گا۔ نہ صرف علاقائی عرب ممالک بلکہ ایران اور ترکیہ بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غزہ میں حملوں میں شدت لانے اور ان کا ایران اور لبنان تک دائرہ وسیع کرنے کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو غزہ میں اپنے جنگی اہداف سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ بہت سے تبصرہ کاروں کے مطابق اسرائیل غزہ میں جنگ ہار چکا ہے کیونکہ ایک سال گزرنے کے باوجود اسرائیل نہ تو اپنے اغوا شدہ شہریوں کو حماس کی قید سے چھڑا سکا ‘ نہ حماس کو ختم کر سکا ہے اور نہ ہی غزہ کو اپنے لیے محفوظ بنا سکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل جتنا اس وقت غیر محفوظ ہے‘ اتنا اپنی پوری تاریخ میں نہ تھا۔ زیادہ سے زیادہ سکیورٹی کی تلاش میں اسرائیل مزید غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کیفیت اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں مزید ممالک کے خلاف جارحیت کے ارتکاب پر مجبور کر دے گی جس کی وجہ سے لبنان‘ شام‘ عراق اور یمن کے بعد مصر اور اردن کے جنگ میں ملوث ہونے کا خدشہ ہے۔
اردن کے فرمانروا شاہ عبداللہ دوم نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل اور اس کے حمایتی مغربی ملکوں کو تنبیہ کی ہے کہ فلسطینی آبادی کو جنگ اور تشدد سے خوف زدہ کر کے اردن میں دھکیلنے اور اُدھر آباد کرنے کی کوششوں کی سختی سے مزاحمت کی جائیگی۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے جنگی عزائم یہ ہیں کہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو اردن میں دھکیل کر مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کر لیا جائے اور غزہ کے فلسطینیوں کو مصر میں دھکیل کر وہاں یہودی آباد کاروں کی بستیاں تعمیر کر کے ''گریٹر اسرائیل‘‘ کا صہیونی خواب پورا کیا جائے۔ نیتن یاہو کے اس مبینہ منصوبے کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں جن عرب ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں اور جو امریکہ کے بھی قریب ہیں‘ مثلاً بحرین‘ مصر‘ عرب امارات اور مراکش وغیرہ‘ شنید ہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ میں اپنے دوروں کے دوران اس منصوبے پر ان سے بھی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی مگر کسی ملک نے بھی اس منصوبے کی حمایت نہیں کی۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ جب تک فلسطینیوں کی الگ ریاست قائم نہیں ہوتی‘ سعودی عرب اور اسرائیل کے مابین تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔ اس بیان نے مجوزہ اسرائیلی منصوبے کے غبارے میں سے رہی سہی ہوا بھی نکال دی ہے۔ اردن کے شاہ عبداللہ دوم کا بیان اسی تناظر میں تھا۔
لبنان پر اسرائیل کے فضائی حملوں میں شدت کے علاوہ جنوبی لبنان پر اسرائیل کے قبضے کا بھی خدشہ ہے کیونکہ اطلاعات کے مطابق‘ لبنان کیساتھ ملنے والی اسرائیلی سرحد پر اس کی فوجیں جمع ہیں۔ اگر اسرائیل کے شمالی علاقوں پر حزب اللہ کے راکٹ حملے جاری رہے تو اسرائیل جنوبی لبنان پر ایک دفعہ پھر قبضہ کر سکتا ہے تاکہ اپنے شمالی علاقوں کا تحفظ یقینی بنا سکے۔ دوسری طرف امریکہ نے بھی بحر احمر میں اپنے بحری جہازوں پر یمن کے حوثی قبائل کے میزائل حملوں کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے مناسب کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ امریکہ اپنے فضائی حملوں سے یمن کے حوثی قبائل کے اڈوں اور راکٹ میزائل لانچ کرنے والے پلیٹ فارمز کو پہلے بھی نشانہ بنا چکا ہے۔ بحر احمر میں امریکہ کے تین جنگی جہازوں پر حملہ سنگین مضمرات کی حامل کارروائی ہے کیونکہ اس علاقے میں‘ جو بحر احمر سے خلیج فارس اور بحیرہ عرب تک پھیلا ہوا ہے‘ امریکہ کی کثیر عسکری موجودگی ہے۔ بحر احمر امریکیوں کی آمد ورفت اور ڈپلائمنٹ کیلئے کلیدی حیثیت حاصل رکھتا ہے۔ لہٰذا امریکہ اپنے بحری جہازوں پر حوثی حملوں پر خاموش نہیں رہے گا۔ اس وقت جب دنیا کی کوئی طاقت امریکہ کی عسکری قوت کا سامنا کرنے کو تیار نہیں‘ امریکی اشیرباد سے اسرائیل کی طرف سے جنگ کا دائرہ وسیع کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی تاکہ وہ اپنے مذموم جنگی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔