اسلام آباد میں چین اور روس سمیت وسطی‘ شمالی اور جنوبی ایشیا کے ممالک پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا سربراہی اجلاس 15اور 16اکتوبر کو منعقد ہو رہا ہے۔ 2001ء میں اپنے قیام سے اب تک تیزی سے ترقی کرتی ہوئی اس تنظیم کا یہ 23واں سربراہی اجلاس ہے۔ ابتدا میں اس تنظیم کو شنگھائی فائیو کے نام سے پکارا جاتا تھا کیونکہ تب یہ تنظیم صرف پانچ ممالک (روس‘ چین‘ قازقستان‘ کرغزستان اور تاجکستان) پر مشتمل تھی‘ مگر گزشتہ 23برسوں کے دوران نہ صرف اس کے اراکین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اس کے اغراض و مقاصد میں سکیورٹی کے علاوہ دیگر مسائل مثلاً باہمی تجارت‘ توانائی‘ علاقائی روابط اور سرمایہ کاری کے فروغ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس تنظیم میں پاکستان اور بھارت کی شمولیت کو ایک اہم موڑ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس تنظیم نے ایک عرصہ تک اپنی رکنیت کو محدود رکھنے اور نئے اراکین کو شامل نہ کرنے کی پالیسی اختیار کیے رکھی‘ حالانکہ بہت سے ممالک اس میں شمولیت کے خواہاں تھے‘ مگر شنگھائی تعاون تنظیم کے بانی اراکین نے فیصلہ کر رکھا تھا کہ پہلے تنظیم کو مستحکم اور اس کی کارروائیوں کو منظم کر لیا جائے‘ اس کے بعد نئے ممالک کو شامل کیا جائے۔ پاکستان اور بھارت کی شمولیت پر تنظیم کے بانی اراکین کو تحفظات تھے۔ انہیں خدشہ تھا کہ یہ دونوں ممالک اپنے باہمی تنازعات کو اس تنظیم میں لے آئیں گے اور اس طرح اصل مقاصد کی طرف سے تنظیم کی توجہ ہٹ جائے گی۔دراصل تنظیم کے بانی اراکین کے سامنے ''سارک‘‘ کی مثال موجود تھی جسے پاکستان‘ بھارت کے علاوہ جنوبی ایشیا کے پانچ دیگر ممالک کے ساتھ 1985ء میں اس توقع کے ساتھ لانچ کیا گیا تھا کہ اس کے فریم ورک میں رہتے ہوئے رکن ممالک کے درمیان غیرسیاسی شعبوں مثلاً تجارت‘ سرمایہ کاری‘ تعلیم‘ صحت‘ سیاحت‘ عوامی رابطوں اور قدرتی آفات کے خلاف جنگ میں تعاون‘ سیاسی تنازعات (خصوصاً پاک بھارت تنازعات) کے حل کی طرف پیش قدمی کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن تقریباً چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی اور دو دہائیوں سے ساؤتھ ایشیا فری ٹریڈ ایریا (سافٹا) قائم ہونے کے باوجودسارک کے رکن ممالک کے درمیان باہمی تجارت کی سطح چھ فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی۔جنوبی ایشیا کے چھوٹے ممالک سارک کی اس ناکامی کی ذمہ داری پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعات پر ڈالتے ہیں۔
اسی طرح کی دوسری مثال جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا آسیان ریجنل فورم ہے۔ اس فورم کا مقصدآسیان کے مستقل اراکین کے علاوہ خطے سے باہر دیگر اہم ممالک پر مشتمل ایک پلیٹ فارم قائم کر کے اراکین ممالک میں امن‘ سلامتی‘ تعاون اور خیر سگالی کا ماحول پیدا کرنا تھا تاکہ آسیان کی ترقی اور کامیابی سے دیگر ممالک بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فورم میں شمولیت کے لیے پاکستان کی درخواست کی بھارت نے بھی حمایت کی تھی مگر اس فورم پر بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت آسیان کی وسیع تجارتی اور سرمایہ کاری مارکیٹ سے فائدہ اٹھاتا رہا لیکن پاکستان اس سے محروم رہا۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا کے علاوہ آسیان کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ پاکستان کے دوطرفہ تعلقات استعداد سے بہت کم ہیں۔ اگرچہ شنگھائی تعاون نتظیم نے ایک عرصہ تک دیگر ممالک کے لیے اپنی مستقل رکنیت کے دروازے بند کیے رکھے مگر پاکستان اور بھارت کی ایس سی او میں شمولیت میں بانی اراکین خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ اس کی تین وجوہات تھیں۔
روس اور چین کے علاوہ تنظیم کے باقی تینوں رکن ممالک ہر طرف سے خشکی سے گھرے ہونے کی وجہ سے اپنی تجارت اور دیگر شعبوں میں رابطے کے لیے چین اور روس کے محتاج تھے۔پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے ایس سی او کی بحر ہند اور بحیرۂ عرب تک توسیع نہ صرف وسطی ایشیا کے خشکی سے گھرے ممالک کو سمندر پار افریقی اور جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک تک رسائی مہیا کرتی ہے بلکہ روس اور چین کو بھی وسطی ایشیا اور افغانستان کے راستے بحیرۂ عرب کے پار مشرقِ وسطیٰ‘ مشرقی افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا تک رسائی ملتی ہے۔ سب سے بڑھ کر روس‘ چین اور وسطی ایشیا کے ممالک کو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے ملک بھارت کی ایک بہت بڑی مارکیٹ سے استفادہ کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کی شمولیت سے ایس سی او کو چار ایٹمی طاقتوں (روس‘ چین‘ پاکستان اور بھارت) کے بطور رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کی شمولیت سے ایس سی او کو رقبے کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی اور دنیا کی 40فیصد آبادی کی تنظیم ہونے کا اعزاز حاصل ہو جاتا ہے۔ پچھلے سال کے اعداد و شمار کے مطابق ایس سی او کے تمام رکن ممالک کے جی ڈی پی کو جمع کیا جائے تو یہ دنیا کے کل جی ڈی پی کا 35فیصد بنتا ہے۔
ان وجوہات کی بنا پر ایس سی او کا رکن ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں تجارت‘ سرمایہ کاری اور تعاون کی بنیاد پر ایک مفید تنظیم بن جاتی ہے۔ اس کا انحصار مگر رکن ممالک کے درمیان قریبی تعاون اور بھائی چارے کی فضا پر ہے۔ اس تناظر میں پاکستان اور بھارت کے علاوہ تنظیم کے باقی تمام ممالک نے باہمی تعاون اور مصالحت کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے ایس سی او کے پروگرام کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ ایس سی او کی تقریباً تمام سربراہی کانفرنسوں کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں علاقائی روابط کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے فروغ پر زور دیا گیا۔ اس سلسلے میں ایس سی او کے تحت علاقائی روابط کے متعدد منصوبے لانچ کیے گئے لیکن ان منصوبوں کا مقصد روس اور چین کے وسطی ایشیائی ریاستوں کے روابط میں اضافے کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کے راستے گوادر بندرگاہ کے ذریعے تجارت کو فروغ دینا ہے۔ جہاں تک ایس سی او کے Coreممالک یعنی قازقستان‘ کرغزستان‘ تاجکستان اور ازبکستان کا تعلق ہے‘ انہیں بھارت کے ساتھ پاکستان کے راستے براہِ راست تجارت کی سہولت میسر نہیں اور اس کا سبب پاک بھارت کشیدگی ہے۔
افغانستان کوبھی واہگہ کے راستے بھارت کے ساتھ دوطرفہ تجارت کی سہولت حاصل نہیں حالانکہ افغانستان سارک کا رکن اور 2006ء سے سافٹا میں بھی شامل ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر ایس سی او کی ترقی اور کامیابی مقصود ہے تو اسے جیو پولیٹکل کے بجائے جیو اکنامک تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ ورنہ وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان تجارت‘ توانائی اور دیگر شعبوں میں تعاون کے فروغ سے جو فوائد حاصل ہو سکتے ہیں‘ وہ حاصل نہیں ہوں گے اور ایس سی او اپنے پوری استعداد کے ساتھ کام نہیں کر سکے گی۔ افغانستان اور پاکستان کے راستے ترکمانستان کی گیس پائپ لائن بھارت تک لے جانے کا ایک منصوبہ 2006ء میں شروع کیا گیا تھا‘ مگر ایشیائی ترقیاتی بینک کی طرف سے مالی اور تکنیکی امداد حاصل ہونے کے باوجود اس کی تکمیل اور فعال ہونے کے دور دور تک آثار نظر نہیں آتے۔
ایس سی او کے قیام سے ہر رکن ملک کو اپنی معیشت‘ بیرونی تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبے میں مدد حاصل ہوئی ہے مگر جو ممالک اس تنظیم سے سب سے زیادہ مستفید ہو سکتے ہیں وہ پاکستان اور بھارت ہیں لیکن باہمی تنازعات تعاون کی راہیں مسدود کر رکھی ہیں۔ جب 2017ء میں پاکستان اور بھارت کی ایس سی او میں شمولیت کا اعلان کیا گیا تھا تو اس موقع پر چین کی وزارتِ خارجہ کے ایک بیان میں اس توقع کا اظہار کیا گیا تھا کہ پاکستان اور بھارت کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت سے جنوبی ایشیا کے امن خصوصاً دونوں ملکوں کے مابین خیر سگالی اور تعاون پر مبنی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا‘ مگر افسوس ایسا نہ ہو سکا۔