"DRA" (space) message & send to 7575

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے اختلافات

اس وقت عوام اور میڈیا کی توجہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کا حل ڈھونڈنے کیلئے ہونے والے مذاکرات پر مرکوز ہے۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ یوں تو یہ اختلافات عمران خان کے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد سے چلے آ رہے ہیں لیکن فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد سے فریقین کے درمیان کشیدگی کا ایک ایسا ماحول قائم ہے جسے دونوں فریق ملک میں امن‘ سیاسی استحکام اور ترقی کیلئے ختم کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس لیے ساری قوم کی نظریں ان مذاکرات پر لگی ہوئی ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات اور اُن کا بھرملا اظہار اس لیے باعثِ تشویش ہے کیونکہ شہباز حکومت کا انحصار پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد پر ہے۔ جس طرح حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات کے نتیجے کا بے تابی سے انتظار کیا جا رہا ہے‘ اسی طرح مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان جاری لفظی جنگ کے نتائج کے بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں دو سوالات خصوصی طور پر اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک یہ کہ پیپلز پارٹی کی طرف سے ا پنی حلیف پارٹی مسلم لیگ (ن) اور شہباز حکومت پر تنقید کے پیچھے کیا محرکات ہیں؟ دوسرا اس لفظی جنگ اور خاص طور پر پی پی پی کی (ن) لیگ کے ساتھ اپنے سیاسی اتحاد پر نظرثانی کی دھمکیوں کے بعد یہ سوال سنجیدگی سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا موجودہ مخلوط حکومت اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے‘ کیونکہ پی پی پی اگر وفاقی حکومت کے ساتھ تعاون سے ہاتھ کھینچ لے تو اس کا قائم رہنا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ دونوں سوالات کے جواب میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پی پی پی اپنے مطالبات منوانے کیلئے وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتی اور دباؤ ڈالتی ہے۔ ان مطالبات کا تعلق سندھ کے علاوہ پنجاب سے بھی ہے جہاں پی پی پی کے مطابق اس کے صوبائی نمائندوں کو اپنے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے فنڈز مہیا نہیں کیے جاتے اور نہ ان حلقوں میں ووٹرز کو درپیش مسائل حل کرنے میں انتظامیہ مدد کرتی ہے۔ سندھ کے متعلقہ مسائل میں صوبے کے ترقیاتی منصوبوں کیلئے ناکافی فنڈز اور حال ہی میں تیزی سے اہمیت حاصل کرنے والا دریائے سندھ سے اضافی نہریں نکالنے کا مسئلہ ہے‘ جس پر پی پی پی سے زیادہ سندھ کی اپوزیشن اور قوم پرست سیاسی جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں۔
(ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات اور کشمکش کی کہانی بہت پرانی ہے۔ اس ضمن میں 1990ء کی دہائی کی قومی سیاست کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے پیچھے مقتدرہ کا ہاتھ تھا۔ میاں نواز شریف‘ جو اسلامی جمہوری اتحاد کی مدد سے پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تھے‘ انہوں نے جنرل ضیا کے دور میں عملی سیاست میں قدم رکھا تھا اور وہ جنرل ضیا کے بڑے معتقد تھے۔ اُن کی جماعت دائیں بازو کے نظریات کی پیروکار ہے اس لیے میاں نواز شریف کو اُن مذہبی و سیاسی پارٹیوں‘ گروپوں اور دانشوروں کی حمایت حاصل تھی جو پیپلز پارٹی کے لبرل‘ سیکولر اور پروگریسو نظریات کے مخالف تھے۔ اس لیے دونوں کے درمیان اتحاد‘ تعاون یا مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں تھی لیکن نظریاتی اختلافات اور 1988ء کے انتخابات کے دوران ایک دوسرے کے خلاف شدید تنقید اور ذاتی جملے بازی پر مشتمل کمپین سے پیدا شدہ تلخیوں کے باوجود دونوں جماعتوں کے درمیان پُرامن ورکنگ ریلیشن شپ کا امکان بھی تھا مگر پنجاب میں میاں نواز شریف اور وفاق میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی کوششوں کے نتیجے میں دونوں پارٹیوں کے درمیان فاصلے مزید بڑھ گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی پہلی وفاقی حکومت کو پہلے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کرنے کی کوشش کی گئی جب یہ کوشش ناکام رہی تو صدر غلام اسحاق نے آئین کی دفعہ 58(2)(B) کو استعمال کرتے ہوئے اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ نئے انتخابات میں میاں نواز شریف کی پارٹی نے کامیابی حاصل کر لی مگر کچھ ہی عرصہ بعد صدر غلام اسحاق کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے حکومت سے الگ ہونا پڑا۔ 1993ء میں نواز شریف اور صدر غلام اسحاق کے درمیان چپقلش میں پنجاب کے عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ تھیں۔ اگر اس موقع پر پیپلز پارٹی نواز شریف کی حمایت کرتی تو یہ نہ صرف پارلیمانی جمہوریت کے ایک اہم اصول کی پاسداری ہوتی بلکہ اس کی وجہ سے پارٹی پنجابیوں کے دل میں جگہ بنانے میں بھی کامیاب ہو جاتی لیکن محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک منتخب وزیراعظم کے خلاف صدر کا ساتھ دیا جس نے قبل ازیں آئین کی دفعہ 58(2)(B) کو استعمال کرکے اسمبلیاں تحلیل کر دی تھیں۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی مگر غلام اسحاق خان اور نواز شریف کی لڑائی میں پیپلز پارٹی نے اول الذکر کا ساتھ دے کر پنجاب کے عوام کی نظروں میں اپنا مقام کھو دیا۔ یہ مقام ابھی تک بحال نہیں ہو سکا۔ اسے بحال کرنے کیلئے پیپلز پارٹی نے کوئی سنجیدہ کوشش بھی نہیں کی بلکہ طاقتور حلقوں کی حمایت یا جوڑ توڑ کی سیاست پر انحصار کیا ہے۔ البتہ 1988ء کے بعد پہلے 58(2)(B) اور بعد ازاں 1999ء میں مقتدرہ کی براہِ راست مداخلت سے دونوں پارٹیوں کی قانونی اور منتخب حکومتوں کو جس طرح رخصت کیا گیا‘ اس سے ان دونوں پارٹیوں میں مقتدرہ کی چیرہ دستی کا مل کر مقابلہ کرنے کا احساس پیدا ہوا۔ مئی 2006ء میں بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی طرف سے چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط اسی احساس کا نتیجہ ہے۔ 2008ء کے انتخابات کے بعد مرکز میں تشکیل پانے والی پیپلز پارٹی کی حکومت میں مسلم لیگ (ن) کی شرکت کا جمہوری حلقوں کی طرف سے خیرمقدم کیا گیا مگر چند ماہ بعد مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی وفاقی حکومت سے علیحدگی اختیار کر کے ملکی سیاست کو ایک دفعہ پھر 1990ء کی دہائی کی طرف دھکیل دیا۔
یہاں یہ سوال بہت ضروری ہے کہ پھر چارٹر آف ڈیمو کریسی پر عمل درآمد کی ذمہ داری کس کے سر پر ہے؟ اس سوال کے جواب میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتی ہیں مگر پی ٹی آئی کی مقبولیت نے دونوں پارٹیوں کو ایک دفعہ پھر اکٹھا ہونے پر مجبور کر دیا۔لیکن پیپلز پارٹی نے جن توقعات کے ساتھ فروری 2024ء کے انتخابات کے بعد مرکز میں (ن) لیگ کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا‘ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ ان توقعات میں سب سے اہم پنجاب میں سپیس حاصل کرنا تھی۔ پیپلز پارٹی کا حکومت پر تنقید اور اس سے ذرا ہٹ کر چلنے کا تاثر دینے کا صرف ایک مقصد ہے اور وہ ہے پنجاب میں کھویا ہوا مقام حاصل کرنا۔ دوسری وجہ دریائے سندھ میں سے چھ نہروں کی تعمیر پر ہونے والے احتجاج کی قیادت کا اپوزیشن کے ہاتھ میں چلے جانے کا خطرہ ہے۔ اگرچہ اس منصوبے کی حکومتِ سندھ اور پارٹی کی مرکزی قیادت نے مخالفت کی ہے مگر یہ مخالفت نرم الفاظ میں کی گئی ہے۔ سندھ میں احتجاج کرنے والی قوم پرست جماعتوں اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس نے صدر زرداری پر اس منصوبے پر مشروط رضا مندی کا الزام بھی لگایا ہے اور منصوبے کو یکسر مسترد کرنے کے بجائے اسے مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کرنے پر اصرار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کی مخالف جماعتوں نے صدر زرداری پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مقتدرہ کو خوش کرنے کیلئے اس منصوبے پر غور کرنے پر راضی ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے اسے مشترکہ مفادات کی کونسل کی منظوری کے بغیر گرین سگنل دے دیا گیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا کر محض اپوزیشن کے اس الزام سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ ان کا حکومت سے الگ ہونے کا کوئی امکان نہیں کیونکہ دونوں پارٹیوں کو ایک اتحاد میں جوڑنے والے ہاتھ کسی اور طاقت کے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں