"DRA" (space) message & send to 7575

غزہ اور امریکی عزائم

سات اکتوبر 2023ء سے 19جنوری 2025ء تک غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے پیچھے صہیونی قوتوں اور اُن کی پشت پناہی کے اصل عزائم کے بارے میں اگر کسی کو کوئی شبہ تھا تو امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان سے دور ہو گیا جس میں انہوں نے غزہ کے آٹھ لاکھ کے قریب باشندوں کو اُردن اور مصر میں عارضی یا مستقل طور پر آباد ہونے کا مشورہ دیا ہے۔ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرکے یہودیوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ ایک یہودی ریاست قائم کرنے کا خیال بہت پرانا ہے لیکن تمام تر کوششوں‘ سازشوں اور جنگوں کے باوجود اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے حمایتی امریکہ کو منہ کی کھانا پڑی کیونکہ اُردن اور مصر نے اس تجویز کو مسترد کیا ہے اور دنیا میں کسی بھی ملک نے اس کی حمایت نہیں کی حتیٰ کہ جرمنی اور فرانس نے بھی اس تجویز کو ناقابلِ عمل اور ایک خطرناک مثال قرار دے کر مسترد کر دیا۔
انیسویں صدی کی آخری دہائی میں جب آسٹریا کے ایک یہودی صحافی تھیوڈور ہرزل (1860ء تا 1904ء) نے فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کی تجویز پیش کی تھی تو اُس وقت فلسطین کی 90فیصد سے زائد آبادی عرب فلسطینیوں پر مشتمل تھی۔ اس بنا پر بہت سے یہودی رہنماؤں اور دانشوروں نے فلسطین میں یہودی ریاست کا صہیونی منصوبہ مسترد کر دیا مگر ہرزل کا خیال تھا کہ فلسطین میں آباد غریب اور مفلوک الحال فلسطینی باشندوں کو پیسے دے کر کسی اور علاقے میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس کام میں مددکیلئے ہرزل نے اُس وقت کے عثمانی سلطان سے رابطہ کیا اور یہودی ریاست کے قیام کے بدلے عثمانی سلطان کو بہت بڑی رقم کی پیشکش کی گئی مگر سلطنت عثمانیہ نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ ہرزل کی موت کے دس سال بعد جب 1914ء میں پہلی عالمگیر جنگ شروع ہوئی تو صہیونیوں کی عالمی تنظیم ورلڈ جیوش کونسل نے برطانیہ سے رابطہ کیا۔ برطانیہ اُس وقت مصر پر قابض تھا اور اس نے نہر سویز اور اس کے مشرق میں واقع اپنی نوآبادیات کے تحفظ کیلئے مصر میں پورٹ سعید میں ایک بہت بڑا فوجی اڈا قائم کر رکھا تھا‘ مگر مصر میں وفد پارٹی کی قیادت میں ابھرتی ہوئی قوم پرست تحریک کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں کسی مناسب متبادل جگہ کی تلاش میں تھا۔ اس کی نظریں فلسطین پر تھیں۔ پہلی عالمگیر جنگ نے اسے اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہوتے دیکھنے کا موقع فراہم کر دیا کیونکہ ترکی کی عثمانی حکومت نے اس جنگ میں برطانیہ اور فرانس کے خلاف جرمنی کا ساتھ دینے کا اعلان کر دیا تھا لیکن نومبر 1917ء میں جب برطانیہ نے جنگ میں یہودی اعانت کے بدلے فلسطین میں یہودی ''نیشل ہوم‘‘ کے قیام میں مدد دینے کیلئے بالفور ڈیکلیریشن جاری کیا‘ اُس وقت بھی فلسطین میں آباد یہودیوں کی تعداد کُل آبادی کا صرف 10فیصد تھی‘ باقی 90فیصد میں سے 80فیصد عرب مسلم اور 10فیصد عرب مسیحی تھے۔ پہلی عالمی جنگ میں شکست کھانے کے نتیجے میں مشرقِ وسطیٰ میں ترکی کے زیر قبضہ علاقوں کو مغربی طاقتوں خصوصاً فرانس اور برطانیہ نے لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ کے تحت آپس میں بانٹ لیا۔ برطانیہ کی خواہش کے مطابق فلسطین کو برطانیہ کے کنٹرول میں دے دیا گیا جو 1948ء تک جاری رہا۔ فلسطین پر تقریباً 30برس کے برطانوی کنٹرول کے دوران دنیا کے ہر حصے سے یہودی آباد کاروں کیلئے فلسطین کے دروازے کھول دیے گئے۔ ان آباد کاروں نے برطانیہ کی طرف سے پوری سہولت کاری کے ساتھ فلسطین کی آبادی میں یہودیوں کے تناسب میں اضافہ کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جس میں دولت‘ طاقت‘ لالچ اور دہشت گردی شامل تھی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد (نومبر 1947ء)‘ جس کے مطابق فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا‘ کے تحت اپریل 1948ء میں اسرائیل کے قیام سے ایک ماہ قبل بیت المقدس کے قریب فلسطینیوں کے ایک گاؤں دیر یاسین (Deir Yassin) پر دہشت گرد یہودی تنظیموں کا حملہ اور فلسطینیوں کا قتلِ عام اس کی ایک مثال ہے۔ دہشت گردی اور فلسطینیوں کے قتلِ عام کا واحد مقصد فلسطین کی عرب آبادی میں خوف وہراس پھیلانا تھا تاکہ وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر ہمسایہ عرب ممالک میں پناہ لے لیں۔ اس کے باوجود جب مئی 1948ء میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا تو صہیونی ریاست کیلئے الاٹ شدہ علاقوں میں یہودیوں کی تعداد کل آبادی کا ایک تہائی تھی۔ باقی دو تہائی آبادی میں 80فیصد عرب مسلم اور 10فیصد عیسائی تھے۔ مگر تعداد میں کم ہونے کے باوجود یہودی زیادہ منظم‘ تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ اس لیے جب اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی پہلی عرب اسرائیل جنگ (1948-1949ء) چھڑ گئی تو صہیونی فوج نے تقریباً آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو گھر بار چھوڑنے اور ہمسایہ عرب ممالک مثلاً اُردن‘ شام‘ لبنان اور مصر میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ 1948ء میں اپنے وطن سے جبراً بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں کی اولاد 70لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ ان میں سے 63لاکھ کے قریب ہمسایہ عرب ممالک میں مہاجرین کی حیثیت سے رہتے ہیں۔ اسرائیل ان مہاجرین کی اپنے وطن اور گھروں کو واپسی سے صاف انکاری ہے حالانکہ اقوام متحدہ ان فلسطینی مہاجرین کے اپنے گھروں کو واپسی کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ کے 20لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو اپنی سرزمین اور گھروں سے بے دخل کرکے دراصل 1948ء میں اپنے گھروں سے نکالے گئے فلسطینیوں کے انجام سے دوچار کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 80فیصد سے زیادہ فلسطینی غزہ میں بے گھر ہو چکے ہیں کیونکہ اسرائیل نے اس پٹی کا کوئی کونہ نہیں چھوڑا جہاں فضائی حملوں سے تباہی کی داستان رقم نہ کی ہو۔ 15ماہ سے بھی زائد عرصہ کے دوران اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں زندگی کو سپورٹ کرنے والی ہر چیز کی تباہی کے باوجود غزہ کے فلسطینیوں نے اپنے وطن کو چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ 1948ء میں جبراً بے دخلی کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے جس طرح مغربی کنارے پر رہنے والے فلسطینیوں نے 1967ء کی جنگ میں اپنے گھروں کو چھوڑنے سے انکار کر دیا تھا‘ اسی طرح غزہ کے فلسطینیوں اور عرب ممالک نے ٹرمپ کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے کیونکہ غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرانے کے بعد دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور بیت المقدس کے اردگرد رہنے والے فلسطینیوں کو گھروں اور زمینوں سے نکالنے کی باری آئے گی۔
غزہ میں جنگ بندی کے بعد مغربی کنارے پر آباد فلسطینی باشندوں پر یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوج کے حملے‘ جن میں اب تک ایک درجن سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں‘ اس ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے غیرقانونی قرار دیے جانے کے باوجود اسرائیل نے دریائے اُردن کے مغربی کنارے اور دیگر مقبوضہ عرب علاقوں میں سات سے آٹھ لاکھ یہودیوں پر مشتمل بستیاں تعمیر کر رکھی ہیں۔ ان یہودی بستیوں کی تعمیر سے اسرائیل کی سخت گیر دائیں بازو کی حکومت نے فلسطین میں ایک آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کی راہ روکنے کی کوشش کی ہے۔ غزہ کے بعد اب مغربی کنارے میں بھی اسرائیل فلسطینی آبادیوں کو حملوں کو نشانہ بنا رہا ہے تاکہ مغربی کنارے میں بھی غزہ جیسے حالات پیدا کرکے فلسطینیوں کے انخلا کا جواز پیش کیا جا سکے۔ صدر ٹرمپ سے بائیڈن انتظامیہ نے بھی غزہ کے فلسطینیوں کو اُردن منتقل کرنے کا خیال ظاہر کیا تھا اور اُردنی اور قطری حکام کے ساتھ سابق سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن کی ملاقاتوں کے دوران پیش کیا گیا تھا مگر اُردن کے شاہ عبداللہ دوم نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اب بھی اُردن‘ مصر اور قطر نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے فلسطین کے مسئلے کو صرف دو ریاستوں کے فارمولے کی بنیاد پر حل کرنے پر زور دیا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں