دہشت گردی کی ابھرتی ہوئی لہرنہ صرف امن و امان بلکہ وسیع تر قومی سلامتی کے مفادات کے تناظر میں قوم کو درپیش چیلنجز میں اس وقت سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ امن و امان اور فرد کی جان‘ مال اور عزت کا تحفظ ہر ریاست کی اولین اور بنیادی ذمہ داری ہے اور جو ریاست ان بنیادی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے میں ناکام رہے‘ وہ اپنی بقا کا جواز کھو بیٹھتی ہے۔ اس وقت پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ ملک کے دو مغربی صوبے خیبر پختونخوا اور بلوچستان پوری طرح اس کی لپیٹ میں ہیں مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ باقی دو صوبے اور وفاق کے دیگر حصے اس کے اثرات سے محفوظ ہیں۔ ہماری پولیس‘ فوج اور نیم فوجی اداروں کے بہادر جوان کسی قربانی سے دریغ نہیں کررہے لیکن حالات قابو میں آنے کے بجائے کنٹرول سے باہر ہو رہے ہیں۔ پہلے دہشت گردی کے واقعات کی اکثریت صوبہ خیبر پختونخوا میں دیکھنے کو ملتی تھی مگر اب ان کادائرہ بلوچستان تک پھیل چکا ہے اور ان کی تعداد اور ہلاکت خیزی میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ پہلے دہشت گردی کی وارداتیں انفرادی خود کش حملوں‘ ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں اور سڑک کنارے نصب دیسی ساختہ بم حملوں یا سکیورٹی فورسز کی گشت کرنے والی گاڑیوں پر حملوں کی صورت میں ہوتی تھیں مگر اب جدید ترین ہتھیاروں سے لیس‘ بیسیوں مسلح تربیت یافتہ دہشت گرد ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کیساتھ چوکیوں اور چھاؤنیوں پر حملہ آور ہورہے ہیں۔ اگرچہ ہمارے جوان ان میں سے بیشتر حملوں کو ناکام بنادیتے ہیں مگر ان کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکنے کے لیے ہمیں جانی نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے اور اس جنگ کو جیتنے کے لیے جو وسائل خرچ کرنا پڑ رہے ہیں‘ پاکستان جیسے ملک کیلئے‘ جس کی معیشت پہلے ہی سنگین چیلنجز کی شکار ہے‘ یہ لمبے عرصے تک برداشت کرنا مشکل ہے۔
اس ضمن میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دہشت گردی اور ریاست کے مابین اس جنگ میں موخر الذکر انیشی ایٹو کھو چکی ہے۔ دہشت گرد جب چاہیں‘ جہاں چاہیں حملہ کر دیتے ہیں جبکہ ریاست کی کارروائیاں مدافعانہ ہیں جن کے اثرات دیر پا نہیں ہوتے بلکہ 'کائونٹر پروڈکٹو‘ ہوتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی بلکہ بنیادی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مہم کو ایک جنگ تسلیم کرنے کے باوجود اسے اُن اصولوں اور حکمت عملی کے تحت نہیں لڑا جا رہا جن کی روشنی میں دنیا کے مشہور ماہرینِ حرب نے جنگ کی تعریف کی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے مشہور جرمن ماہرِ حرب اور سٹرٹیجک تھنکر کارل وان (Carl Von Clausewitz) نے کہا تھا: جنگ دراصل سیاست کا ہی تسلسل ہے‘ فرق صرف یہ ہے کہ جنگ میں سیاست سے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں۔ جنگ کی اسی تعریف کی بنیاد پر فرانس کے مدبر سیاستدان جارج کلیمنشو (Georges Clemenceau)‘ جو دو دفعہ فرانس کے وزیراعظم بھی رہے‘ نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا ''جنگ ایک ایسا سنجیدہ مسئلہ ہے جسے صرف جرنیلوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑا جا سکتا‘‘۔ جنگ اور سیاست کے اس گہرے تعلق کی بنیاد روس کے سوشلسٹ انقلاب کے رہنما اور مارکسسٹ دانشور وی آئی لینن نے اپنے مضمون ''جنگ اور انقلاب‘‘ میں بھی بیان کی کہ ''جنگ کوئی بھی ہو اس کا اُس سیاسی نظام سے گہرا تعلق ہے جو اسے پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے‘‘۔ لینن کے اسی نظریے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ماؤزے تنگ نے جنگ اور سیاست کے باہمی تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ''سیاسی اقتدار بندوق کی نالی سے نکلتا ہے‘‘۔ ان تمام افکار کو اجتماعی طور پر اگر ایک فقرے میں بیان کیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہر جنگ خواہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو‘ کا ایک سیاسی مقصد اور نصب العین ہوتا ہے بلکہ اصل اہمیت تو نصب العین ہی کی ہوتی ہے‘ جنگ تو اسے حاصل کرنے کے پُرتشدد طریقے کا نام ہے۔ اس لیے حتمی فتح اسی فریق کی ہو گی جس کا مقصد‘ نصب العین یا بیانیہ برتر ہوگا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ریاست کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہر طرح کے انسانی اور مالی وسائل جھونک دینے کے باوجود دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حال ہی میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی کی مذموم کارروائیوں سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق‘ نئے سال کے پہلے مہینے یعنی جنوری 2025ء میں صرف بلوچستان میں 24 دہشت گردی کی کارروائیاں رپورٹ ہوئیں‘ جن میں 17 افراد شہید ہوئے۔ شہید ہونے والوں میں چھ سویلین اور 11 سکیورٹی فورسز اہلکار تھے۔ خیبر پختونخوا کے بارے میں مختلف سیاسی رہنماؤں نے جو دعوے کیے‘ اُن کے مطابق صوبے کے کئی اضلاع میں ریاست کی رِٹ عملاً ختم ہو چکی ہے۔ مسلح دہشت گرد دن ڈھلنے کے بعد نہ صرف شہروں‘ قصبوں اور دیہات کی گلیوں‘ محلوں میں دندناتے پھرتے ہیں بلکہ بڑی شاہراہوں اور سڑکوں پر ان کی اجازت کے بغیر کوئی سفر بھی نہیں کر سکتا۔ ضلع کُرم میں گزشتہ ماہ عمائدین کے طویل اجلاس کے بعد طے پانے والے سمجھوتے کے باوجود‘ سرکاری اہلکاروں اور اشیائے ضروریہ لے جانے والے قافلوں پر حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گرد قابو سے باہر ہو چکے ہیں۔
ہمارے حکام ابھی تک بلوچستان میں منظم دہشت گردی کو لاء اینڈ آرڈر کا ایک مسئلہ سمجھتے ہیں جسے ان کے خیال میں حل کرنے کیلئے ایک ایس ایچ او ہی کافی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان ہو یا خیبر پختونخوا دہشت گردی لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ ہماری ریاست کی سالمیت اور آزادی کے ساتھ اپنی مرضی سے چنے ہوئے نظام کیلئے ایک چیلنج ہے۔ دہشت گردی ایک مائنڈ سیٹ ہے جسے انتہائی چالاکی اور مکاری کے ساتھ پروان چڑھایا گیا اور اب یہ پوری قوم کیلئے سنگین چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ایک ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جس میں طاقت کے استعمال کے علاوہ دیگر عناصر کو بھی شامل کیا جائے۔ سب سے زیادہ اہم عوام ہیں کیونکہ طاقت اور پروپیگنڈا کے ملے جلے ہتھیار سے دہشت گردوں نے عوام کے کچھ طبقوں کو گمراہ کر رکھا ہے اور وہ ان کی تائید اور ہمدردی پر انحصار کرتے ہوئے اپنے مذموم عزائم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردوں کے بیانیے کے مقابلے میں متبادل بیانیہ تیار کرتے وقت سب سے زیادہ اور سب سے پہلے جس اقدام کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اس جنگ کی عوامی اونر شپ قائم کی جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس جنگ کو جیتنے کیلئے حکمت عملی تیار کرتے وقت عوام کے صحیح نمائندوں کی رائے بھی شامل کی جائے۔ دونوں صوبوں میں بہت سے طبقے ایسے ہیں جو نہ صرف دہشت گردی کے خلاف ہیں بلکہ خود اس کا شکار ہیں۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ اُنہیں اس جنگ سے دور رکھا گیا ہے بلکہ اُنہیں دہشت گرد قرار دے کر اُن کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ اُن کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے ہیں اور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے ازالے کیلئے احتجاج کرتے ہیں۔ اختلافِ رائے کو وطن دشمنی اور دہشت گردی قرار دینا کسی طور بھی فائدہ مند نہیں بلکہ اس سے دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کو نقصان پہنچتا ہے۔ دہشت گردی کا مسئلہ اب مقامی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے جس میں پوری قوم دہشت گردی کے مکمل خاتمے پر متحد ہے۔ مگر یہ مقصد تبھی حاصل ہو سکتا ہے جب پوری قوم اور قوم کے حقیقی منتخب نمائندوں کو آن بورڈ لے کر ان مسائل کی نشاندہی کر کے انہیں قومی اتفاقِ رائے کے ذریعے حل کیا جائے‘ جن کی وجہ سے عوام میں عدم وابستگی کی فضا پائی جاتی ہے۔ اس عدم وابستگی‘ عدم دلچسپی اور مایوسی کی فضا کو ختم کرنا ازحد ضروری ہے کیونکہ ایسی فضا دہشت گردی کی افزائش میں وہی کردار ادا کرتی ہے جو مچھلی کو زندہ رکھنے کیلئے پانی ادا کرتا ہے۔