"DRA" (space) message & send to 7575

ایران پر اسرائیل نے حملہ کیوں کیا؟

ایران پر اسرائیلی حملے کے بارے میں کئی دنوں سے جو خبریں آ رہی تھیں جمعہ کی صبح کو وہ سچ ثابت ہوئیں۔ اسرائیل کے 200 طیاروں نے اردن اور عراق کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کے اندر 100کے قریب ٹھکانوں کو نشانہ بنایا‘ جن میں ایران کی جوہری تنصیبات‘ ملٹری ہیڈ کوارٹرز اور بیلسٹک میزائل کی فیکٹریاں اور لانچنگ پیڈ وغیرہ شامل ہیں۔اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ایران کے متعدد چوٹی کے ملٹری کمانڈر اور جوہری سائنسدانوں کو بھی شہید کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے ایران پر حملے کے بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ایران کے جوہری پروگرام اور بیلسٹک میزائل سسٹم کے مرکزی مقامات کے علاوہ ایران کی چوٹی کی عسکری قیادت اور سائنسدانوں کو نشانہ بنایا ‘ انہوں نے کہا کہ ایران پر حملے کا ابھی پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے‘ دوسرا مرحلہ جلد شروع کیا جائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ جنگ دو ہفتے تک جاری رہ سکتی ہے‘ اس لیے شہریوں کو راشن اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کا ذخیرہ کرنے کے علاوہ میزائل اور ڈرون حملوں سے بچنے کیلئے پناہ گاہوں کے پاس رہنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیل ایران کے ساتھ ایک طویل جنگ کی تیاری کر چکا ہے۔ اگرچہ ایران کی جوہری تنصیبات اور بیلسٹک میزائل سسٹم کے مراکز پر اسرائیلی حملے کی منصوبہ بندی کی خبریں متواتر گردش کر رہی تھیں مگر عام رائے یہ تھی کہ اسرائیل حملے سے اجتناب کرے گا۔ امریکہ اور ایران کے مابین جوہری سمجھوتے کیلئے بات چیت بھی ہو رہی ہے ‘ جس کے پانچ راؤنڈ ہو چکے ہیں اور چھٹا راؤنڈ اتوار (15جون) کو عمان میں ہونا تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ ایران پر حملہ اسرائیل کا یکطرفہ فیصلہ ہے‘ مگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان ہے کہ اسرائیل نے حملے سے قبل انہیں مطلع کر دیا تھا۔ اس سے بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے ایران پر حملہ امریکی گرین سگنل ملنے کے بعد کیا۔ اگر صدر ٹرمپ چاہتے تو وہ نیتن یاہو کو اس حملے سے باز رکھ سکتے تھے کیونکہ اس سے قبل وہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ ایران کے ساتھ بات چیت کے دوران انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم کو ایران پر حملے سے منع کر دیا تھا۔
ایران پر اسرائیلی حملہ ایک اور پہلو سے بھی حیرت انگیز ہے کہ کچھ عرصہ پیشتر امریکہ نے اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذریعے ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں جو معلومات اکٹھی کی تھیں ان کے مطابق ایران ایٹم بم کی تیاری میں مصروف نہیں تھا۔ البتہ ایران یورینیم کی افزودگی میں مصروف تھا کیونکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے یہ اُس کا حق ہے۔ تاہم امریکہ اور اسرائیل ایران کے یورینیم افزودگی کے پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اس پر فریقین میں اختلاف تھا مگر بات چیت کا سلسلہ معطل نہیں کیا گیا اور امریکی صدر مسلسل یہ کہہ رہے تھے کہ وہ اس مسئلے کو ڈپلومیسی کے ذریعے حل کرنے کو ترجیح دیں گے۔ اس کے باوجود نیتن یاہو نے بات چیت کے حتمی نتیجے کا انتظار کیے بغیر ایران پر حملہ کر دیا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ نیتن یاہو اور اس کی انتہاپسند کابینہ نے ایران پر حملہ غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی پالیسی کے خلاف نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ خود اسرائیل کے اندر تنقید سے بچنے کیلئے کیا ہے۔ سات اکتوبر سے اسرائیل نے جس بے دردی کے ساتھ غزہ میں فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا‘ بالخصوص گزشتہ کئی ہفتوں سے غزہ کے باشندوں کیلئے خوراک‘ دوائیوں اور دیگر ضروریاتِ زندگی کو جس طرح بلاک کر رکھا ہے‘ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں اسرائیل کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔ حتیٰ کہ اسے مالی امداد اور ہتھیار سپلائی کرنے والے یورپی ممالک مثلاً برطانیہ‘ فرانس اور جرمنی بھی اس کی غزہ میں فلسطینیوں کو بھوکا پیاسا مارنے کی پالیسی پر سخت تنقید کر رہے ہیں اور اسے روکنے کیلئے اقدامات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ان ممالک کے عوام کی طرف سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی پر پابندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی نے اسرائیل کو دنیا میں تنہا کر دیا ہے۔بظاہر ایران پر حملہ نہ صرف دنیا بلکہ اسرائیلی عوام کی توجہ غزہ سے ہٹانے کیلئے کیا گیا ہے کیونکہ بین الاقوامی برادری کی طرف سے سخت تنقید کے علاوہ خود اسرائیل کی رائے عامہ بھی تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک حصہ جو انتہا پسند صہیونیوں پر مشتمل ہے‘ فلسطین میں نیتن یاہو کی پالیسی کی حمایت کر رہا ہے جبکہ دوسرا حصہ غزہ میں فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اسرائیل کے کئی سابق ملٹری کمانڈر اور سیاسی رہنما غزہ میں نیتن یاہو کی پالیسیوں کی مخالفت کر چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایران کے بارے میں اسرائیل کے اندر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔ نیتن یاہو نے ایران پر حملہ کر کے اور ایک طویل جنگ کی منصوبہ بندی کر کے اس اتفاقِ رائے کی آڑ میں دنیا اور اپنے عوام کی تنقید سے بچنے کی کوشش کی ہے۔
اسرائیلی حملے کے بعد اہم سوال اب یہ ہے کہ ایران کا جواب کیا ہو گا؟ ایرانی حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ کارروائی کا بھرپور جواب دینے کیلئے تیاریاں کی جا رہی ہیں لیکن صاف ظاہر ہے کہ ایران کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور اس کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہیں کیونکہ اسرائیل نے انتہائی کامیاب منصوبہ بندی اور سبک رفتاری سے نہ صرف ایران کے ملٹری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے بلکہ متعدد ٹاپ ملٹری کمانڈرز کو بھی شہید کر دیا ہے۔ اس کی وجہ سے ایران کی جوابی کارروائی میں تاخیر ہو سکتی ہے لیکن ایرانی حکومت کیلئے اسرائیلی حملے کا جواب دینا لازمی ہے کیونکہ اس نے گزشتہ کئی برسوں سے اپنے عوام کو یہ یقین دلا رکھا ہے کہ وہ اسرائیلی حملے کا بھرپور جواب دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اب ایرانی حکومت کو اپنے عوام کے اعتماد پر پورا اترنا پڑے گا؛ البتہ گزشتہ سال ایران پر اسرائیلی حملوں سے ایران پر واضح ہو چکا کہ نہ صرف اس کی فوجی قیادت اور جوہری سائنسدان بلکہ سیاسی قیادت بھی ایران کے میزائل اور ڈرون حملوں کی پہنچ میں ہے۔ اگر ایران نے اسرائیل پر بھرپور حملہ کیا تو اسرائیل ایران کی سیاسی قیادت کو ٹارگٹ بنائے گا۔ ایرانی سوچ سمجھ کر اور مسئلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد قدم اٹھانے کے عادی ہیں۔ انہوں نے انقلاب کے فوراً بعد عراق کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اس کے علاوہ وہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے غزہ میں اسرائیل کی حکمت عملی اور جنگ کے طریقوں کا بھی بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ سال اپریل اور اکتوبر میں اسرائیل کے ساتھ وہ میزائل اور ڈرون حملوں کے دور سے بھی گزر چکے ہیں۔ ان تجربات سے ایرانیوں کو یقینا اسرائیل کی صلاحیت اور طاقت کا اندازہ ہو چکا ہے۔ اس لیے زیادہ امکان یہ ہے کہ ایران اسرائیل کو جواب تو دے گا مگر اسے ایک بھرپور جواب کی تیاری مکمل کرنے کیلئے وقت چاہیے۔ اس کے علاوہ اہم انٹرنیشنل ایکٹرز‘ جن میں اقوام متحدہ‘ سعودی عرب‘ چین اور خود امریکی صدر شامل ہیں‘ فریقین پر کشیدگی ختم کرنے کیلئے دباؤ ڈالیں گے۔ ایران نے امریکہ کے ساتھ بات چیت کے سلسلے کو ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی بات چیت کے چھٹے راؤنڈ میں شرکت کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ اسرائیلی حملے اور اس کے نتیجے میں بھاری نقصان کے باوجود ایران مزید نقصان سے بچنے اور کچھ عرصہ بعد اسرائیل کو بھرپور جواب دینے کے ارادے کے تحت امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ برقرار رکھے۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ اسرائیلی حملے نے ایران اور امریکہ کے نیو کلیئر سمجھوتے کو مشکل بنا دیا ہے۔ ایران یہ اعلان کر چکا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا تو ایران یورینیم کی افزودگی اور اپنے جوہری پروگرام پر پابندیوں کو ختم کر دے گا۔ امید ہے کہ یہ نوبت نہیں آئے گی اور ڈپلومیسی کو ایک اور موقع دیا جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں