مشرف کیس

آج کل جنرل مشرف کے کیس کے حوالے سے ملک میں ہنگامہ سا بپا ہے جبکہ کچھ لوگ اس کیس کو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے حوالے سے اہم سنگِ میل قرار دے رہے ہیں کیونکہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ ایک آرمی چیف کو کسی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی پاداش میں مقدمے کا سامنا کرنا پڑاہو۔ تاہم اس شور میں ایسی آواز خال خال ہی سنائی دیتی ہے جو اس کیس کے نتیجہ خیز ہونے کے حوالے سے کوئی دلیل پیش کررہی ہو۔کہا جارہا ہے کہ ایک جمہوری حکومت کو نواز شریف کی انا کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے۔ کچھ ماہرین ماضی میں نواز شریف کے فوج کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی تاریخ کویاد کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ وزیر ِ اعظم کو اس راہ پر چلنے سے احتراز کرنا چاہیے جو جی ایچ کیو کے اشتعال کا باعث بنے۔نئے آرمی چیف، جو اب تک ایک مختلف قسم کے فوجی افسر دکھائی دیتے تھے، کے تازہ بیان کے مطابق سیاسی حکومت کووہ لائن عبور نہیںکرنی چاہیے جس سے فوجی جوانوں کی عزتِ نفس کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ درحقیقت زیدحامد جیسے بہت سے گھاگ سوشل میڈیا پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ 
جنرل راحیل شریف صاحب کو یقینا علم ہو گاکہ ایک سیاسی حکومت کی طرف سے عوامی سیاست کرتے ہوئے بعض اوقات ناروا بیانات بھی سرزد ہوجاتے ہیں‘ ایسے بیانات جن میں اشتعال انگیزی کی جھلک ملتی ہے لیکن اسے صرف جذباتی بیانیہ ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ یہ سب کو پتہ ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزا، پھانسی یا قید، ملنے کاکوئی امکان نہیں اور نہ ہی کوئی اور جنرل احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہوتا دکھائی دیتا ہے۔پہلی بات یہ ہے کہ جنرل مشرف بھی انہی کے پسندیدہ ہیں جنھوںنے نواز شریف کی جان بچائی اور کچھ دیگر احسانات بھی کیے۔ آج کل ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک عرب ملک کی ایک ملحقہ کالونی بن چکا ہو جہاں محل کی طر ف سے سرمایہ کاری کرتے ہوئے اپنی پسندکی حکومت قائم کرنے اور اسے تقویت دینے کا کامیاب تجریہ کیا جارہاہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ آرمی چیف اس ''اسٹرٹیجک تعلق‘‘ کا حصہ نہیں، اگرچہ دنیا کے ہمارے حصے میںطاقتور حلقوںکویہ دیکھ کر الجھن ہوگی کہ عرب ملک کی توجہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان بٹ کررہ گئی ہے۔ دراصل اسٹرٹیجک پارٹنر یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ طاقت کا محور کہاں ہے۔
وزیراعظم نواز شریف اتنے عقل مند ضرور ہیں کہ وہ اس حقیقت سے باخبر ہوں کہ ہمارے ہاں بھاری اکثریت سے انتخابات جیتنے سے بھی معروضات تبدیل نہیںہوتے۔ اگر وہ مشرف کیس کو آگے بڑھاتے دکھائی دیتے ہیں تو اس کا مطلب ایک طرف ہنگامے سے گھر کی رونق بحال رکھنا مقصود ہوگا تو دوسری طرف یہ دیکھنا کہ فوجی قیادت ایک جمہوری حکومت کو کس حد تک قدم آگے بڑھانے دے گی۔ فی الحال وزیر ِ اعظم نے عسکری اداروں کی مرضی کے مطابق سیاسی جماعتوںکی بھرپور مخالفت کے باجود تحفظ ِ پاکستان بل منظور کرلیا ہے۔ یہ بل دفاعی اور خفیہ اداروں کووسیع تراختیارات دے گا۔ دوسری طرف تمام تر دعوئوں کے باوجود موجودہ حکومت نے بھارت کے ساتھ تعلقات سے قدم پیچھے ہٹالیا کیونکہ وہ فوج کو ہر حال میں خوش رکھنا چاہتی تھی۔ حال ہی میں ایک پریس بریفنگ میں نوجوان کامرس منسٹر کو کچھ صحافیوں نے آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کے حوالے سے فوج کی زبان بول رہے ہیں۔ 
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دیگر معاملات پر وزیر ِ اعظم عسکری قیادت کو خوش کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں تو مشرف کیس میں کیونکر محاذآرائی پر اتر آئیںگے؟ہو سکتا ہے کہ ان کی جماعت کے کچھ اہم افراد ، جن کا فوجی جنرلوں سے بھی رابطہ رہتا ہے، نے انہیں مشورہ دیا ہو کہ اس کیس میں وہ سابق آمر پر دبائو ڈال سکتے ہیں اور یہ کہ اُنہیں '' ادھر ‘‘ سے کوئی خدشہ نہیںہونا چاہیے۔ تاہم سابق تجربات بتاتے ہیں کہ ایسی صورت ِ حال میں بعض اوقات ''پیغام ‘‘ سمجھنے میں غلطی یا دیر ہوجاتی ہے۔ اس سے پہلے 1999ء میںبھی یہی کچھ ہوا تھا جب حکومت کے کچھ ''اندرونی ہاتھ ‘‘ صورت ِ حال کا ادراک کرنے میں ناکام ہوگئے۔ 
تاہم ایک لمحے کے لیے فرض کرلیتے ہیں کہ شریف حکومت اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتی ہے، تو پھر یہ دکھائی دیتا ہے کہ اس نے اپنا ہوم ورک اچھی طرح نہیںکیا۔ پارلیمنٹ میںخواجہ آصف کی جذباتی تقریر ، جس کے مضمرات مستقبل قریب میں ان کے سامنے آجائیںگے، کے علاوہ حکومت نے اس اہم مسئلے پر اتفاقِ رائے حاصل کرنے کے لیے کسی مکالمے کی زحمت نہیں کی۔ درحقیقت اس وقت پاکستانی سول سوسائٹی کے زیادہ تر حلقے اور لبرل افراد اور ان کے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے دوست جنرل مشرف کو سزا ملنے کے حق میں نہیں کیونکہ یہ تاثر گہراہوتا جارہا ہے کہ مشرف کو سزا دے کر دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے نواز شریف مضبوط ہو کر سول آمرکا روپ دھار لیںگے۔ لوگ اس بات پر بھی حیران ہیں کہ اس سے پہلے لگائے جانے والے مارشل لاء کو چیلنج کیوں نہیںکیا گیا‘ یا یہ کہ 2007ء کے واقعے میں مشرف اکیلے ہی شامل یا ذمہ دار نہ تھے‘ اس لیے اگر انہیںمقدمے کا سامنا ہے تو انصاف کا تقاضاہے کہ دیگر ذمہ داروںکے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ ایک اور تفہیم ابھررہی ہے کہ ملک میں مذہبی عناصر، بشمول طالبان، سابق آمر کو سخت سزا پاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے پیشِ نظر جمہوریت سے محبت نہیں بلکہ وہ مشرف کو اس لیے سزا پاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں کہ اُنھوںنے طالبان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا۔ 
درحقیقت پاکستان میں صیحح او ر غلط کا کوئی پیمانہ نہیں، فرق صرف اس سے پڑتا ہے کہ آپ کس طرف سے کھیل رہے ہیں۔ اس وقت بہت سی باتوںکے جواب آنا باقی ہیں لیکن ایک بات تقریباً طے ہے کہ سابق آرمی چیف کو سزا نہیں ملے گی۔ مقدمے کوجب تک چلانا چاہیں چلاتے رہیں لیکن فوج اتنی طاقتور ضرور ہے کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرسکے۔ دراصل پاکستانی جمہوریت ابھی تبدیلی کے عمل سے گزررہی ہے، اس مرحلے پر دفاعی ادارے ہی طاقتور ہیں۔ اس وقت فوج بلوچستان میں جیسے چاہتی ہے کارروائی کررہی ہے۔ فی الحال مستقبل میں بھی صورت ِ حال کے تبدیل ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ سول حکومت کو اچھی کارکردگی دکھانی چاہیے تاکہ اس کے ہاتھ مضبوط ہوں اور یہ دفاعی اداروں پر بالا دستی حاصل کر سکے، لیکن یہ بات کہنا آسان، کرنا مشکل ہے۔ دراصل شخصیت پرستی پر مبنی سیاست میں حکومت خود کواتنا مضبوط سمجھتی ہے کہ جب تک حقیقی خطرہ سامنے نہیں آجاتا، وہ خود کو ہر لحاظ سے محفوظ سمجھتی ہے۔ اگر عالمی حالات پر نظر ڈالیں، جہاں فوج نے اپنے اختیار کو ختم کرکے سول حکومت کی بالا دستی تسلیم کر لی ، جیسا کہ لاطینی امریکہ میں، تو ہمیں دکھائی دے گا کہ اس کے لیے ضروری ہے فوج کی حوصلہ افزائی کی جائے ، خاص طور پر جب ملک پر بیرونی عوامل کی طرف سے دبائو کاسامنا ہو ۔ اس کے علاوہ فوج کو یہ بھی علم ہو کہ شب خون مارنے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ فی الحال پاکستان میں ایسی صورت ِ حال موجود نہیں، ا س لیے خاطر جمع رکھیں، کچھ نہیںہونے جارہا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں