قیمت کا کھیل

عقل حیران ہے کہ خواجہ آصف کی 2006ء کی تقریر کوکس نے اور کیوں ڈھونڈ نکالا اور نشر کردیا ؟اس تقریر میں دفاعی اداروںپر تنقید کسی نجی کمرے میں نہیں بلکہ اسمبلی کے فلور پر، جو ایسی بحث کے لیے مناسب جگہ ہے، کی گئی تھی۔ یہاں اس بات سے قطع ِ نظر کہ وزیرِ موصوف نے کیا کہا یا ان کا اصل مطلب کیا تھا، جس طرح اُنہیں اُس تقریر کو جواز بنا کر تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ، بلکہ اُنہیں وزارت ِ دفاع کے عہدے سے ہٹائے جانے کی افواہیں بھی گردش میں ہیں، یہ یقینا لائق ِ تشویش ہے۔ 
بہت سے ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسران، جن میں سے کچھ سول شعبوں میں سول ملٹری امور کے ماہرین کے فرائض سرانجام دے رہے ہیںیا جمہور مخالف ٹولہ ان '' کج فہم سول رہنمائوں کو‘‘، جن کا کہنا تھا کہ سول اور فوجی قیادت ایک پیج پر ہی ہے، آڑے ہاتھوں لے رہا ہے۔ جس مستعدی سے دفاعی اداروںکے ہمدرد میدان میںکود پڑے ہیں ، اس سے یہ تاثرتقویت پاتا ہے کہ اس ملک میں ابھی بھی جی ایچ کیوایسے معاملات میں بہت طاقتور ہے۔ درحقیقت آئی ایس پی آر کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایک پیغام بھی گردش میں تھا کہ جو بھی فوج کے بارے میں تضحیک آمیز پیغام پھیلانے کا ارتکاب کرے، اس کی اطلاع دی جائے۔ کہا گیا کہ فوج ایسے افراد سے خود ہی نمٹ لے گی۔ تاہم ایسے پیغامات کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی چیز کو توہین آمیز قرار دے سکتے ہیں۔۔۔ بلوچستان اور سندھ میں مخصوص شہریوں کوہدف بنانے یا کیے گئے بہت سے فوجی آپریشنز میں ہونے والے جانی نقصان کی بات کرنا بھی تضحیک آمیز سمجھا جاسکتا ہے۔ مجھے ایک حاضر سروس فوجی افسر کی گفتگو یاد ہے ۔ اُنھوںنے قائد ِ اعظم یونیورسٹی میں ماسٹر ز ڈگری کے پروگرام میں داخلہ لیا تھا۔ ان کا کہنا تھا صرف وہ سویلین ہی فوج کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں جو اس کے مستحق ہوتے ہیں کیونکہ وہ ریاست کے مخالف ہوتے ہیں۔ جب میںنے ان سے دریافت کیا کہ اس کا فیصلہ کون کرتا ہے کہ کوئی شخص ریاست کے خلاف ہے یا نہیں تو ان کے پاس کا کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔ کیا فیصلہ وہ کرتا ہے جس کے ہاتھ میں بندوق ہے یا قلم؟
ہمارے ملک میںانتخابات کے ذریعے پرامن انتقال اقتدار کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ موجودہ اور سابق حکومتیں اچھی کارکردگی کا مظاہر ہ کرنے میں ناکام رہیں بلکہ دفاعی اداروں کے ایجنٹوں کا نیٹ ورک بہت پھیل گیا ہے۔ غیر جمہوری عناصراور مخصوص نظریاتی سوچ سے جنم لینے والے گروہوں کی طرف سے پھیلایا جانے والا پراپیگنڈا بہت گہرا اور موثر ہے۔ میڈیا بھی، جو ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کا تحفظ کرتا چلا آیا، اس کھیل میں شریک ہوچکا ہے۔ یہ جس کو چاہتا ہے ہدف بنا تا ہے۔ اگرچہ ہرکوئی خواجہ آصف کو غدار قرار دینے پر تلا ہواہے لیکن وکلا تحریک کے دوران حامد خان کی شعلہ بیانی کسی کویاد نہیں۔ہوسکتا ہے جب کسی کو ضرورت محسوس ہو تو وہ آتشیں تقاریر بھی منظر ِ عام پر آجائیں۔ 
یہ پراپیگنڈا مشین اتنی موثر ہے کہ جب بھی مسلح افواج کے بارے میں منفی تاثر پھیلنے کا خدشہ ہو تو اسے زائل کرنے کے لیے یہ اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر فعال ہوجاتی ہے۔ اس کی فعالیت ایبٹ آباد آپریشن کے دوران اُس وقت دیکھنے میں آئی جب اسامہ بن لادن کی پاکستانی سرزمین پر موجودگی پر سوال اٹھایا جارہا تھا تو اس پراپیگنڈا مشین نے نہایت چابکدستی سے عوامی جذبات کا رخ امریکہ کی طر ف سے ہماری خودمختاری کی پامالی کی طرف موڑ دیا۔ مہران سکینڈل اور مشرف کیس میں بھی اسی ''کارکردگی‘‘ کا تسلسل پایا جاتا ہے۔ پہلے کیس (مہران بنک اسکینڈل) میں بہت ہوشیاری سے دو فوجی جنرلوںسے توجہ ہٹا کر سیاست دانوں پر مرکوز کردی گئی جبکہ دوسرے کیس (مشرف ٹرائل) میں ہمیں بڑے منظم طریقے سے باور کرایا جارہا ہے کہ جب تک ملک میں سے تمام خرابیوں کا قلع قمع نہیں ہو جاتا، لوگ پرویز مشرف کو اس کے جرائم کی سزاملنے کا نہ سوچیں۔ اب لوگوں کو سابق آمر کے وسیع و عریض گھر کے گرد سکیورٹی کی غرض سے دیوار بنائے جانے کا خرچہ بھی برداشت کرنا پڑے گا۔میڈیا میںسے کوئی بھی یہ سوال نہیں اٹھارہا ہے کہ ایک ریٹائرڈ جنرل کے گھر کے گرد، جسے وطن واپسی پر یہ زعم تھا کہ اس کے فیس بک کے لاکھوں حامی اس کے لیے چشم براہ ہوں گے اور ان کی سیاسی جماعت انتخابات میں کامیابی کی ایک تاریخ رقم کردے گی، ہونے والی اس تعمیر سے قرب وجوار میں رہنے والے افرادکو کس کوفت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ 
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کوئی فوج کو اس بات پر کیسے قائل کرے کہ وہ اب ہوا کے گھوڑے سے نیچے اتر آئے۔ اگرچہ ہمارے ہاں یہ بات کی جاتی ہے کہ جب تک سول حکمران خلفائے راشدینؓ جیسی مثالی حکومت قائم نہیں کریں گے، کچھ بھی تبدیل نہیںہو سکتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوج کی طرف سے کی جانے والی مداخلت کااتنا فائدہ نہیںہوتا جتنا نقصان ہوجاتا ہے۔ جب فوج اقتدار سے ہٹتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کیا کیا خرابیاں واقع ہوچکی ہیں۔ سیاست کرنے والی افواج کوبھی آئین کی پشت پناہی کی اتنی ہی ضرورت رہتی ہے جتنی کسی بھی سیاسی نظام کو۔ یقینا بہتر حکومتی نظم ایک حکومت کو نسبتاً آئینی جواز فراہم کردیتا ہے لیکن اگر ایسا نہ ہو، یعنی حکومت اچھی گورننس کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہتی ہے ، تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے پاس حکومت کرنے کاکوئی حق نہیں ؟جمہوریت سے متنفر طاقتور گروہ ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایک کمزور سیاسی نظام طاقتور اور منظم فوجی نظام کا نعم البدل نہیں ہوتا۔ 
ہمارے ہاں جمہوری عمل ابھی پختگی کے مراحل سے گزر رہا ہے، سیاسی اسٹیبلشمنٹ گھات لگائے ہوئے ہے اور جب چاہتی ہے منتخب شدہ حکومت کو ڈرادھمکا کر زبان بند کردی جاتی ہے۔ زیادہ تر رہنمائوں کا خیال ہے کہ اہم ترین فوجی جنرلوں سے، جو پرکشش سودوں میں ان کے پارٹنر ہوتے ہیں، انہیں کوئی خطرہ نہیںہوگا۔سیاست دانوںکو یہ خوش گمانی بھی ہوتی ہے کہ ان کا اقتدار فوجی مداخلت سے محفوظ ہے کیونکہ دفاعی اداروںکو ایسا کرنے کی اس وقت بھاری قیمت چکانی پڑے گی جب غیر ملکی ریاستیں ان کے اقتدار کو منظور نہیںکریں گی اور اُنہیں عالمی مالیاتی اداروںسے رقوم حاصل کرنے میں بھی دشوار ی پیش آئے گی۔ سیاست دان فوجی قیادت کے ساتھ اپنے رابطوں کے حوالے سے بھی مغالطے کا شکار ہوجاتے ہیں(نواز شریف کو ماضی میں اس کا تلخ تجربہ ہوا تھا)۔ 
سیاسی سٹیک ہولڈرز اس حقیقت کی تفہیم میں ناکام ہوجاتے ہیں کہ ایسے اقدامات کی، جن میں جمہوری اداروں کا تختہ الٹ دیا جائے، پاداش میں آمروںکو سزا ملنا لازمی ہوجاتا ہے تاکہ آئندہ کے لیے ایسے واقعات کا تدارک ہوسکے۔ جب دفاعی ادارے دیکھیں گے کہ اُنہیں اپنے اقدامات کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے تو وہ آئند ہ ایسا کرنے سے پہلے کئی بار سوچیںگے۔ مثال کے طور پر لاطینی امریکہ میں، جہاں ابھی تک جمہوری عمل تکمیل کے مراحل سے گزرہا ہے اور جہاں ابھی تک مختلف علاقوں میں موقع پاتے ہی افواج اقتدار پر قابض ہوجاتی ہیں، علاقائی سٹیک ہولڈرز کے ہتھیار اٹھالینے کے عزم نے ہی وہاں کی افواج کو قدم پیچھے ہٹانے پر مجبور کیا۔ دوسری مثال انتہا پسندوںکی طرف سے سامنے آنے والا مہیب خطرہ ہے۔ سوات اور وزیرستان کے کچھ حصوں میں کیے جانے والے آپریشن کے سوا ، فوج انتہا پسندوں کے خلاف کسی بھی بڑے آپریشن کے لیے راضی نہ ہوئی۔ اس کی بجائے ، اس نے سیاسی حکومت کی ساکھ کو دائو پر لگاتے ہوئے اس کی گردن مذاکرات کے شکنجے میں پھنسادی۔ آپ ایک منٹ کے لیے خواجہ آصف کی جگہ مولانا عبدالعزیز یا فضل الرحمن خلیل یا دیگر انتہاپسند مولویوں کو، جو اسلام آباد اور ملک کے کونے کونے میں دندناتے پھرتے ہیں، فرض کرلیں اور دیکھیں کہ کیا آئی ایس پی آر کی طرف سے انہیں بھی کسی ایسی دھمکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ درحقیقت مجھے سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کا جرمن میگزین ''Der Spiegel‘‘ کو دیا گیا وہ انٹرویو یاد آرہا ہے جس میں جنرل صاحب نے بیت اﷲ محسود کے ساتھ ہمدردی کااظہار کرتے ہوئے اسے محب ِ وطن قرار دیا تھا۔ اس کے علاوہ جنرل پاشا نے ان انتہا پسندوں کے بیانات دینے کے حق کو بھی تسلیم کیا تھا۔ ا س سے یہ گمان ہوتا ہے کہ یا تو یہ انتہا پسند سٹرٹیجک طور پر اہم اثاثے ہیں، یا پھر یہ جنرل ان سے اتنے خائف ہیں کہ وہ دم سادھ کر وقت گزارنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ سیاسی طاقتیں بھی منقسم اور کمزور ہیں۔ دراصل ہم وقتی فوائد کے پیچھے اس طرح بھاگ کھڑے ہوتے ہیں کہ ہم اس تفہیم سے قاصر دکھائی دیتے ہیں کہ اس ملک کو بچانے کا نسخہ فوج کی چاپلوسی کی بجائے اس کے عوام کی تکریم کرنا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں