مودی پر ذمہ داری کا بوجھ

کیا بھارت کے 17ویں وزیر ِاعظم بننے والے نریندرمودی سے کوئی رشک محسوس کرسکتا ہے؟ شاید اس کا جواب نفی میں ہوگا کیونکہ بھارت کی دگرگوں معیشت کو سنبھالا دینے کی ذمہ داری کسی بھی اور وزیر ِ اعظم سے زیادہ مودی کے کندھوںپر ہے اور اُنھوںنے ایسا کرتے ہوئے اپنے انتخاب کو درست ثابت کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اُنھوںنے سیاست میں فرقہ واریت کی حدت کو کم کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان کی داخلی اور خارجہ پالیسی سے کہیں خطے میں کشیدگی کا الائو نہ بھڑک اٹھے۔ 
دراصل گجرات میں ہونے والی معاشی ترقی مودی کی کارکردگی کی مثال کے طور پر پیش کی گئی۔ بہت سے افراد کے نزدیک، جن میں پاکستان کے کاروباری حلقے بھی شامل ہیں، نریندر مودی بھارت کی معیشت میں معجزانہ تبدیلی لانے کے علاوہ پاک بھارت تجارتی تعلقات کی بہتری کے لیے درکار کچھ سخت فیصلے بھی کرسکتے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بہت سے افرادکے خیال میں گجرات میں ہونے والی ترقی اور اس مقصد کے لیے تجارتی سیکٹر کو دی جانے والی رعایت کا احتساب کرنا چاہیے، چنانچہ توقعات اور خدشات کے اس عالم میں نئے وزیر ِ اعظم کے لیے اپنی اہلیت ثابت کرنا بہت بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ اس مقصد کے لیے دولت مند اورمزید دولت کی ہوس رکھنے والے کاروباری طبقے اور ابھرتے ہوئے درمیانے طبقے کے درمیان ایک توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھارت کے کروڑوں غریب افراد کی بہتری کے لیے کچھ کرسکیں۔ 
یہ معاملات اُس وقت مزید گمبھیر ہوجاتے ہیں جب ہندو اکثریت کی سیاست میں اقلیتی گروہوں کے لیے جگہ پیدا کرنے کی ضرورت محسوس ہو۔بھارت کے کثیر مذہبی معاشرے میں کوئی حکومت بھی، چاہے اس کے مذہبی نظریات جو بھی ہوں، فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتی۔ اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ 2002ء میں گجرات میںہونے والے فسادات میں مودی بے قصور تھے تو بھی اُن کو اور ان کی جماعت کو مذہبی طور پر برداشت اور رواداری کا حامل نہیں سمجھا جاتا جیسا کہ ان کی حریف کانگرس کو سمجھا جاتا ہے، اگرچہ یہ تاثر قطعی انداز میں درست نہیں ۔ اس ضمن میں کانگرس کے لیے تاریخ کی شہادت مثبت بھی ہے اور منفی بھی۔ نہرو کے بعد کی کانگرس کے دامن پر‘ مذہبی بنیادوں پر بہائے جانے والے خون کے بہت سے دھبے ہیں، لیکن اس نے طویل عرصہ تک اپنے لبرل نظریات کا بھرم قائم رکھا۔ تاہم مودی کی بی جے پی کے پاس ایسی کوئی تاریخی گواہی نہیں۔ اگرچہ اس نے کئی ایک مسلمانوں کو اپنے پلیٹ فارم پر لاکر اپنے مسلم مخالف ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی۔ لیکن زیادہ تر مسلمان اوربھارت کی دیگر اقلیتیں خائف ہیں کہ بی جے پی کی قوت کا راز انتہا پسند ہندو اکثریت میں مضمر ہے اور ان کے نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ 
مجھے حال ہی میں برطانیہ کی ایک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹی میں زیر تعلیم قدیم مسلمان نواب گھرانے کے ایک فرد سے ملاقات کرنے کا اتفاق ہوا۔ کانگرس کے پلیٹ فارم سے سیاست میں آنے کے امکانات پر غور کرتے ہوئے ان کے پیش ِ نظر یہ سوال تھا کہ بھارت میں رہنے والے کتنے مسلمان خود کو بھارتی نظریے سے ہم آہنگ کرچکے ہیں؛ تاہم میرا خیا ل تھا کہ گزشتہ کئی برسوںسے مختلف مسائل کی وجہ سے معاشرے کے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اُس معاشرے سے ہم آہنگی میں قدرے کمی آچکی ہے۔یقینا وہ ایک اور پاکستان نہیںبنانا چاہیں گے کیونکہ ان کے نزدیک وہ ریاست نہ تو اچھی مثال قائم کرسکی اور نہ ہی اس نے اپنا یا اپنے شہریوںکے تحفظ کا فریضہ نبھایا ، لیکن وہ داخلی طور پر کسی کے بل بوتے پر پرتشدد طریقے اپناتے ہوئے ریاستی دبائو کا مقابلہ کرنے کی خواہش اپنے دل میں پال سکتے ہیں۔ مجھے یادہے کہ اسّی اور نوے کی دہائی میں بھارت سے پاکستان آنے والے مسلمان مسافر بہت مطمئن تھے کہ وہ بھارت کے شہری ہیں، لیکن آج کے بھارت میں جب آپ مسلمانوں کو ملیں تو ان کے چہرے سے اس طمانیت کے تاثرات غائب ہوچکے ہیں۔ 
زیادہ افسوس ناک بات (بلکہ اسے ایک سانحہ قرار دیا جانا چاہیے) یہ ہے کہ اس طبقے کے اپنی حکومت اور ریاست کے ساتھ تعلق پر دہلی کا اسلام آباد کے ساتھ تعلق اثر انداز ہوتا رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم یہ کہیں کہ پاکستان کا بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ لیکن یہ خطرہ اپنی جگہ پر موجود ہے کہ مودی سرکار ان مسلمانوں کو اسلام آباد کا ایجنٹ سمجھے گی؛ چنانچہ ریاستی 
ادارے، جیسا کہ فوج، انٹیلی جنس ایجنسیاں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان پر کڑی نظر رکھیںگے۔ اس سیاسی صورت ِ حال میں مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ پاکستانی وزیر ِ اعظم نواز شریف خواہش کے باوجود بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بہتربنانے کا موقع ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔ وہ دو بھارتی صحافیوں کے ویزے کی مدت بھی نہیں بڑھاپائے جو ماضی میں بغیر کسی تحریری معاہدے کے تین سال تک اسلام آباد میں کام کرسکتے تھے۔ دراصل کچھ بااثر صحافیوںنے ان کے ویزے کی مدت نہ بڑھا نے کا مشورہ دے کر اس بات کا حساب کتاب برابر کرنے کی کوشش کی کہ بھارتی سرکار نے بھی کچھ پاکستانی صحافیوںکو ویزہ دینے سے انکار کردیا تھا۔تاہم ایسا کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ ان دونوں مواقع پر صورت ِ حال یکساں نہ تھی۔ اگر کچھ پاکستانی صحافی دہلی نہیں جاسکے تھے تواسلام آباد یا راولپنڈی کو اس کا انتقام ان بھارتی صحافیوں سے نہیں لیناچاہیے تھا کیونکہ اگر دونوں ریاستیں صحافتی روابط منقطع کردیںگی تو سرحد کے آر پار رہنے والے افراد ایک دوسرے کے معاشرے کی تفہیم نہیں کر پائیںگے۔ یادرہے کہ فولادی پردے تاننے سے امن یا استحکام نہیں آتا، صرف غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ 
ایک اہم حقیقت کی تفہیم کیا جانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ پاکستان اور بھارت‘ دونوں ہی اپنے سیاسی اور سماجی معروضات کا ازسرِ نو تعین کرنے کے نازک مرحلے سے گزررہے ہیں۔ جس دوران بھارت کی شناخت یک مذہبی معاشرے کے طور پر مستحکم ہورہی ہے، پاکستان میں مختلف نظریات رکھنے والے انتہا پسند تقویت پاتے ہوئے سماجی اور سیاسی، حتیٰ کہ خارجہ پالیسی کے امور پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں۔ اس صورت میں ان دونوں ممالک میں تصادم کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو پاکستان کو شمالی کوریا جیسی ریاست بناتے ہوئے مودی کے بھارت کو چیلنج کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ چونکہ مودی کٹر ہندو رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں ، اس لیے ایسی قوتوںکواپنے نظریات کا پرچار کرنے کاجواز مل جائے گا۔سرحدوں پر کشیدگی یا کسی جھڑپ کی ذمہ داری براہ ِ راست مودی کے کندھوں پر ہی ڈالی جائے گی۔ 
عالمی برادری یقینا اب مودی کو ویزہ جاری کردے گی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس پر نظر بھی رکھی جائے گی کہ کیا وہ ان توقعات کو درست ثابت کرتے ہیںیا غلط۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تواس کے کچھ حلقے خطے کی ترقی چاہیںگے جبکہ کچھ اپنے اپنے ایجنڈوں کی خاطر اسے ماضی میں دھکیلنے کی کوشش کریںگے۔ اس ریاست نے بھی یہ عادت پختہ کرلی ہے کہ اسے جن مسائل کا بھی سامنا ہو، اس میں اسے بیرونی دنیا کا ہاتھ ہی دکھائی دیتا ہے۔ ہمارے پالیسی ساز شمال میں عبداﷲ عبداﷲ اور مشرق میں مودی کو اقتدار میں دیکھ کر بے چینی محسوس کررہے ہیں۔ کچھ ''اثاثوں‘‘ نے ان دونوں کے خلاف پراپیگنڈہ مہم کا آغاز کردیا ہے۔ درحقیقت بھارتی وزیرِاعظم کو اس تمام صورت ِ حال کا بہت محتاط طریقے سے جائزہ لیتے اور تمام تر نتائج پر نگاہ رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ ہو سکتا کہ یہ بات اُنہیں پسند نہ آئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو اپنے پیش رو کی نسبت زیادہ پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہے کیونکہ ان کے پاس اکثریت ہوتو ہو، زیادہ لچک یا گنجائش نہیںہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں