پی ایم ایل (ن) کی حکومت نے جنوبی پنجاب کے لیے کئی ایک منصوبوں۔۔۔ ملتان میں میٹرو بس سے لے کر بہاولپور میں سولر پاور پلانٹ۔۔۔ کا اعلان کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ منصوبے علاقے، خاص طور پر سرائیکی آبادی کے سیاسی اور سماجی معروضات کو تبدیل کر پائیں گے؟ اس سے بھی اہم یہ کہ کیا ہم اس پسماندہ علاقے میں ترقی کے آثار دیکھیں گے؟
جنوبی پنجاب کی صورت حال خاصے الجھائو کا شکار رہی ہے۔ پی پی پی کو امید تھی کہ گزشتہ انتخابات وہ جنوبی پنجاب میں ایک یا دو نئے صوبوں کے قیام کا نعرہ لگا کر کامیابی حاصل کر لے گی‘ لیکن انتخابی نتائج خاصے حیران کن تھے کیونکہ پی ایم ایل (ن) نے جنوبی پنجاب میں پی پی پی کا تقریباً صفایا کر دیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ انتخابی نتائج سے یہ مراد لینا درست نہ ہو کہ یہاں کے لوگوں نے پی پی پی کو بالکل ہی مسترد کر دیا‘ لیکن ووٹ کے ذریعے ہی عوامی حمایت کا اظہار ہوتا ہے کہ عوام کس کو اقتدار سونپنا چاہتے ہیں۔ پی پی پی کی شکست کا یہ مطلب نہیں کہ سرائیکی عوام نے اپنی ثقافتی شناخت، جس کے ساتھ بہت سے دیگر امکانات بھی وابستہ ہیں، کی خواہش کو بھلا دیا ہے۔
پنجاب کو تقسیم کرتے ہوئے سرائیکی صوبے کا قیام اس وقت ایک افسوس ناک ڈرامے کا روپ دھار چکا ہے۔ اصل ایشو اس خطے میں قیادت کا فقدان ہے۔ یہاں ایسا کوئی سیاسی رہنما دکھائی نہیں دیتا جو عوام کے سامنے واضح تصور پیش کر سکے۔ حال ہی میں، میں نے مختلف سرائیکی پارٹیوں کے اتحاد کا الگ صوبے کے لیے کیا جانے والا احتجاجی مظاہرہ دیکھا۔ اگرچہ یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ نیا صوبہ غیر سرائیکی آبادی کے لیے بھی بہت محفوظ جگہ ہو گی لیکن اس مظاہرے کے شرکا خاصی کنفیوژن کا شکار دکھائی دیتے تھے۔ یہ کوئی متاثر کن تصور نہیں تھا کہ نئے صوبے کے قیام سے سات لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے کیونکہ بالائی پنجاب کے وہ افراد، جو جنوبی پنجاب میں سرکاری عہدوں پر فائز ہیں، یہاںسے چلے جائیں گے اور ان کی چھوڑی ہوئی جگہیں مقامی لوگوںکے لیے دستیاب ہوں گی۔
حقیقت یہ ہے کہ ملک کے دیگر خطوں کی طرح، جنوبی پنجاب پر بھی نسلی اعتبار سے کسی ایک قوم کی اجارہ داری نہیں۔ یہاں بہت سی قومیتیں آباد ہیں اور یہ خطہ ان کے لیے بھی آبائی گھر ہے۔ اس لیے نئے صوبے کے قیام کے لیے کسی وسیع تر تصور کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو باور کرایا جا سکے کہ سرائیکی صوبے کے عنوان تلے انہیں یہ فوائد حاصل ہوں گے اور ان کی ملکیت کی جہت اس طرح راسخ ہو جائے گی؛ تاہم نئے صوبے کے قیام کا تصور اس لیے بھی زیادہ نہ پنپ سکا کہ خطے کی سیاسی اور سماجی معروضات تبدیل ہو چکی ہیں۔ جنوبی پنجاب میں ابھرنے والے نئے خوشحال طبقے خالصتاً سرائیکی نہیں بلکہ اس میں مختلف قومیتیں، جیسا کہ پنجابی، پشتون اور اردو بولنے والے مہاجر بھی شامل ہیں۔ اگر گزشتہ انتخابات کے نتائج پر نگاہ ڈالی جائے تو اندازہ ہو گا کہ راجن پور اور ڈی جی خان کے علاوہ جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی نسلی یکسانیت نہیں۔ یہاں آباد تمام لوگ سرائیکی بولنے والے نہیں‘ نہ ہی سرائیکی آبادی کو تمام خطوں میں سیاسی بالا دستی حاصل ہے۔ تقریباً ہر ضلع سے ایک یا دو غیر سرائیکی افراد قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے ارکان ہیں یا رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ یہاں کی معیشت تقریباً سرائیکی آبادی کے ہاتھ سے نکل کر دیگر قوموں کے پاس چلی گئی ہے۔ چھوٹے یا درمیانے درجے کے کاروبار پنجابیوں یا ہریانہ اور روہتک حصار سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین کے پاس ہیں۔ جنوبی پنجاب میں کراچی سے آنے والے مہاجرین نے بھی بڑی تعداد میں سکونت اختیار کی ہے۔ یہاں ہونے والے بعض پُرتشدد واقعات سے اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ جنوبی پنجاب کے شہروں میں رہنے والے کچھ گروہوں کے کراچی سے روابط ہیں۔
گزشتہ دو عشروں سے جنوبی پنجاب میں کراچی، خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں حتیٰ کہ بلوچستان سے ہجرت کر کے آنے والی پشتون آبادی نے بھی سکونت اختیار کی۔ مثال کے طور پر ملتان میں بہت سی آبادیاں ایسی ہیں جہاں رہنے والے تمام افراد وزیرستان سے آئے ہیں۔ درحقیقت کراچی کے بعد پشتون آباد کاروںکی سب سے بڑی تعداد جنوبی پنجاب کے شہروں میں ہی آباد ہوئی۔ افغانستان اور قبائلی علاقوں میں ہونے والی جنگوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد ملک کے دیگر خطوں کی طرح
یہاں بھی آئے ہیں۔ یقیناً کسی کو بھی اس سے غرض نہیں ہونی چاہیے کہ کوئی شخص ملک کے کس حصے سے آ کر کہاں آباد ہوا، جو لوگ محنت کرکے روزی کماتے ہیں، ان کے پاس حق ہے کہ وہ جہاں چاہے رہیں۔ لیکن اس دوران ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ سرائیکی آبادی خود کو دو حقائق کے درمیان پسا ہوا پاتی ہے۔ ایک طرف پرانے پنجابی اور مہاجر ہیں جن کے ہاتھ میں خطے کی معیشت اور سیاسی طاقت ہے اور دوسری طرف نئے آنے والے محنتی اور جفاکش پشتون مہاجرین ہیں۔ یہ افراد چھوٹے چھوٹے کاروبار کرتے ہوئے ترقی کر رہے ہیں اور اب ان کی نظر سیاسی عوامل پر بھی ہے۔ اس لیے سرائیکی آبادی دیکھتی ہے کہ پہلے تو اعلیٰ ملازمتیں ان کے ہاتھ نہیں آتی تھیں، اب کم تر درجے کی ملازمتوںکے مواقع بھی ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں۔ یہ حقائق پیش کرنے سے یہ مراد نہ لی جائے کہ میں کسی سازش کو ہوا دے رہی ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں، کیونکہ حقائق کو منظر عام پر لانا نہیں بلکہ چھپانا سازش ہوتی ہے۔
سرائیکی آبادی کے بارے میں پھیلنے والے یا پھیلائے جانے والے کچھ مفروضات بھی ان کا منفی تصور ابھارتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سرائیکی افراد فطرتاً سست اور کم کوش ہوتے ہیں لیکن یہ بات حقیقت سے دور ہے۔ کراچی اور ملک کے دیگر شہری علاقوں میں آپ کو سرائیکی مزدور دکھائی دیں گے جو نامساعد حالات میں بھی سخت محنت کرتے ہیں۔ بہرحال ان افراد کے آبائی خطے زراعت سے وابستہ رہے ہیں، اس لیے وہ شہری آبادی جیسی سیماب صفت فطرت نہیں رکھتے ہیں۔ ہاں، جب بھی ان کے پاس تبدیلی کا موقع آتا ہے، وہ اس سے ضرور استفادہ کرتے ہیں۔ اب چاہے یہ حکمرانوں، افراد یا اداروںکا قصور ہو، حقیقت یہ ہے کہ سرائیکی افراد کو بھی کم و بیش اُسی صورت حال کا سامنا ہے جس میں بلوچ خود کو مجبور پاتے ہیں۔ آج یہ معاملہ دبا ہوا ہے، لیکن خدشہ ہے کہ چند سال بعد کوئی نہ کوئی اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔
سرائیکیوںکو سستی اور کسی حد تک کم عقلی کا طعنہ بھی دیا جاتا ہے اور وہ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ریاست بھی دستیاب وسائل کو ان تک پہنچانے میں ناکام رہی اور انہیں سیاسی اور معاشی میدانوں میں واجب حصے سے محروم رکھا گیا۔ ہم سرائیکیوں، بلوچوں یا سندھیوں کو میرٹ پر پورا نہ اترنے پر مورد ِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے کیونکہ ریاست ان علاقوں تعلیمی سرگرمیوںکو فروغ دینے میں ناکام رہی ہے۔ سرائیکی آبادی کا مطالبہ ہے کہ انہیں اپنی شناخت کے اظہار اور قومی وقار کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع مل سکے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر پائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نیا صوبہ ملازمتوں اور ترقی کے نئے مواقع پیدا کرے گا۔ 2013ء کے انتخابات میں پی ایم ایل (ن) کی انتخابی فتح تاریخ کا ایک معمولی سا صفحہ ہے۔ اس خطے کا احساس محرومی دور ہونا چاہیے تاکہ ان امن پسند افراد کو اچھی زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔ یہ ریاست اور اس کے وسائل پر قابض افراد کی سازش ہے کہ وہ اپنی ناقص پالیسیوں کے ذریعے ملک کے مختلف خطوں میں آباد افراد کے دل میں بے چینی پیدا کر دیتے ہیں۔