جمہوریت کا زوال

دوارکانِ پارلیمنٹ کو کراچی سے اسلام آباد جانے والی پی آئی اے کی پرواز سے زبردستی اتارے جانے کی ویڈیو آج کل سوشل میڈیا پر بہت رش لے رہی ہے۔ یہ واقعہ ظاہرکرتا ہے کہ پرانی طرز ِ سیاست سے وابستہ مخصوص اناپرستی اور متکبرانہ رویہ اب چیلنج کیا جائے گا۔ آئندہ شاید ایسا نہ ہو کہ جہاز کسی فنی خرابی کی وجہ سے دوگھنٹے لیٹ ہواور مسافر اس میں پھنس کر رہ جائیں جبکہ اہم شخصیات آرام دہ لائونج میں مزے لیتی رہیں۔ بظاہر ہمیں اس پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے لیکن یہ واقعہ اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ ہماری سیاسی اور سماجی زندگی میںانتہائی ر ویے اپنی جگہ بنارہے ہیں۔ میںیہ نہیں کہہ رہی کہ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے یا منفی، بلکہ میں صرف رونما ہونے والی تبدیلی کی نشاندہی کررہی ہوں۔ 
یہ اپنی طرزکا کوئی منفرد یا واحد واقعہ نہیں ، جو لوگ مذکورہ ویڈیو کا 'مزہ‘ لے رہے ہیں وہ یہ بھی دیکھیں کہ ''نئے پاکستان‘‘ میں مظاہرین پولیس کی کس طرح دھنائی کررہے ہیں۔ اگرچہ ہمیں عمران خان کے ساتھ ہمدردی ہے اور ہم اُن کے اس حق کو تسلیم کرتے ہیں کہ اُنہوں نے سیاسی لہجہ تبدیل کردیا، لیکن بہتر ہوگا کہ ایک لمحے کے لیے وہ رک کر یہ تصورکریں کہ اگر وہ اس ملک کے وزیر ِاعظم بن گئے تو وہ اس جن کو واپس بوتل میں کیسے ڈالیںگے؟وہ اپنا موازنہ بہت حد تک بانی پاکستان محمد علی جناحؒ سے کرتے ہیں لیکن کیا وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ جب ان کی حکمرانی ہوگی تو وہ اس ریاست اور پولیس کا احترام کیسے کرائیں گے؟ جسے اب ان کے کارکن بے رحمی سے مار رہے ہیں۔ کوئی بھی گزشتہ تیس دن سے توہین آمیز ماحول میں فرائض انجام دینے والے پولیس کے تھکے ماندے سپاہیوں کا دکھ اور تکلیف بیان کرنے کی زحمت نہیںکررہا۔ 
بہت سے لوگ خیال کرتے ہیں، چونکہ پولیس بدعنوان ہے اس لیے یہ اس ناروا سلوک کی مستحق ہے، لیکن ہمارے قانون نافذکرنے والے کس ادارے میں فرشتے کام کرتے ہیں؟مسئلہ یہ ہے کہ لوگ اس ادارے کو ٹارگٹ کررہے ہیں جو نسبتاً کمزور ہے۔ اگرچہ انہوں نے ریاست کی وردی پہنی ہوئی ہے لیکن وہ عمران خان کی دھماکہ خیز شخصیت سے مرعوب بھی ہوجاتے ہیں اور پھر اُنہیں یہ احساس بھی ہے کہ اگر اُنہوں نے اپنے سرکاری فرائض انجام دینے کی کوشش کی اور خان صاحب کو زبردستی زیرِ حراست کارکنوں کو تھانوں سے رہا کرانے سے روکا تو ان کی پٹائی کی جائے گی اور پھر ریاستی مشینری بھی ان کا ساتھ نہیں دے گی۔
اس بات کا غور سے جائزہ لیا جانا چاہیے کہ یہ مظاہرین کس لیے لڑ رہے ہیں؟کیا ان کا مدعا ملک میںنیا سیاسی نظام متعارف کرانا ہے جس میں سب فعال اور برابر ہوں یا پھر یہ پرانے اشرافیہ طبقے سے اختیار چھین کر نئے اشراف کو قوم پر مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟ گزشتہ دنوں میں لاہورگئی تو دیکھا کہ ڈیفنس میں پارکوں پر متعین محافظ کوشش کرتے ہیں کہ غریب اور مزدور پیشہ افراد اندر داخل نہ ہوں کیونکہ ان افراد کی موجودگی، اپنی صحت کے بارے میں انتہائی عزت مآب بیگمات کو ناگوار گزرتی ہے۔ آج کل نئے پاکستان کے لیے دیے جانے والے دھرنوں میں ایسی بیگمات ہی وافر تعداد میں دکھائی دیتی ہیں۔ شاید یہی وہ نئی تبدیلی ہے جس میں نئی اشرافیہ نے روایتی اشرافیہ کو ایک کونے میں دھکیل کر اس کی جگہ لینی ہے۔ یقینا یہاں پرانے اور روایتی رویوں کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ اس حقیقت کی تفہیم نہ ہونے کا بھی کوئی جواز نہیں کہ ہجوم کی فعالیت ریاستی اداروںسے زیادہ ہنگامہ خیز ہوتی ہے۔ جب ریاست کمزور ہو اور ہجوم زیادہ طاقت حاصل کرتا جائے تو اشرافیہ بھی ریاست کی بجائے ہجوم کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہے گی۔
اگرچہ تبدیلی کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے لیکن ہمارے ہاں جمہوریت کی بجائے انقلابی تبدیلی کا تصور زیادہ مقبول ہوچکا ہے۔ اس بات سے قطع ِ نظر کہ لوگ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے نہیںہوتے، یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے مقابلے میں روایتی سیاسی جماعتوںنے جمہوریت کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ اسلام آباد میں دیے جانے والے دھرنوں ، لوگوں کی پریشانی ، تکالیف اور حکومت کے وقتی اقدامات کو دیکھتے ہوئے کون جمہوریت پر یقین کرنا چاہے گا؟اب تو ہمارے ہاں یہ کہنا بھی فیشن بن چکا ہے کہ جمہوریت نے عوامی مفاد کے تحفظ کے لیے کچھ نہیںکیا۔ یہ جمہوریت کے سینے پر لگنے والا اتنا گہرا گھائو ہے کہ اگر عمران خان اقتدار میں آجاتے ہیں تو بھی یہ آسانی سے مندمل نہیں ہوگا۔ 
دوسری طرف جمہوریت کی مخالفت کرنے والوں کی بھی کمی نہیں کیونکہ انہیں غیر جمہوری معروضات فائدہ پہنچاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بیرونی دنیا اور پاکستان کو مالی امداد دینے والے ادارے ڈاکٹر طاہرالقادری کو ایک ایسے رہنما کے طور پر دیکھیں جو ملک میں معتدل اسلام کا پرچار کررہے ہیں ، لیکن اس طرزِ سیاست (ہجوم کی مدد سے تبدیلی) کا فائدہ قدرتی طور پر انتہا پسندوں اور مذہبی جماعتوں جیسی جمہوریت مخالفت قوتوںکوہوگا۔ مثال کے طور پر القاعدہ کی نئی قیادت ریاست کے چاروں ستونوں، پارلیمنٹ، عدلیہ، سول بیوروکریسی اور میڈیا کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جمہوریت کی جگہ خلافت کا مطالبہ کرنے والوں میں صرف القاعدہ ہی اکیلی نہیں، حزب التحریر ، داعش اور بہت سے دیگر گروہ بھی ہیں جو جمہوریت اور جدید ریاست کو ختم کرکے قدیم دورکی اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے گروہوں کا کہنا ہے کہ جمہوریت کفرکا نظام ہے، اسلام میں اس کی کوئی گنجائش نہیں، اس لیے اس کو ختم کرکے اسلامی نظام اورخلافت قائم کی جانی چاہیے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کئی سو سال پہلے اسلامی ریاست موجود تھی جو طاقتور تھی اور اس میں قانون (اسلامی ) کی عمل داری تھی۔ سادگی اور مساوات کا یہ عالم تھا کہ خلیفہ ِوقت اپنے کپڑے خود سیتا تھا اور رات کے وقت خود گلیوں میںپہرہ دیتا اور دیکھتا کہ کوئی قانون شکنی تو نہیں کررہا۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان سائنس، آرٹ، فن اور علم و ادب میں ممتاز تھے۔ 
یہ الگ بحث ہے کہ نسل در نسل چلنے والا نظامِ خلافت لوگوں کے لیے کتنا عادل ثابت ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم جمہوری قدروںکو دفن کرتے ہوئے بتدریج اسی اسلامی خلافت کے قیام کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس دیگر آپشن ختم ہوتے جارہے ہیں۔ کئی حوالوں سے نام نہاد لبرل اور انتہاپسندوں میں بہت سی قدریں مشترک ہیں اور وہ مستقبل کی اسلامی خلافت کے قیام کی ذمہ داری رکھتے ہیں۔ لبرل گروہوں کا خیال ہے کہ جمہوریت غیر فعال ہوچکی ہے جبکہ انتہا پسند بھی اسی انتظار میں ہیں کہ جب معاشرے کے لبرل طبقے جمہوریت سے بیزار ہوجائیں تو پھر وہ ان کے سامنے اپنا اسلامی نظام اور خلافت کا تصور رکھیں۔ اس طرح جمہوریت کی موت کی ذمہ داری کسی مخصوص سیاسی جماعت یا طبقے پر نہیں ڈالی جاسکتی، بلکہ ہمارے ہاں یہ مرحلہ بتدریج آیا ہے۔ اب ہم اس انقلاب کو مرحلہ وار آتے ہوئے دیکھیں گے۔ یہ مرحلے طویل بھی ہوں گے اور تکلیف دہ بھی۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے، اگرچہ امکانات کے پیمانے سکڑتے جارہے ہیں، کہ پرانا حکمران طبقہ فی الفور اپنی راسخ عادات کو بدلے اور نئے ابھرتے ہوئے سیاسی کھلاڑی بھی جمہوری انداز اپنائیں۔ بیان بازی کا وقت جاچکا۔ اب انتہا پسند بھی ہتھیار ڈالتے ہوئے معاشرے میں جذب ہورہے ہیںکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ جمہوریت سے بیزار لوگوں کی توجہ حاصل کرسکتے ہیں۔ اس طرح وہ یہ جنگ جیتنے کے قریب ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں