ملالہ یوسفزئی کو امن کا نوبل انعام کا حقدار قرار پانے کا اعلان کیا ہوا، ہم میں سے کچھ کے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور اُنہوں نے تنقیدکی توپوں کے دہانے وا کردیے۔ ایک خبطی شخص نے گفتگو کے ایک مقبول پروگرام میں سوال اٹھایا کہ اُس نوجوان لڑکی کا بطور مذہب ، اسلام اور شریعت کی پاسداری کا معیارکیا ہے۔ ایسا کہتے ہوئے وہ بھول گیا کہ پڑھنا اور علم حاصل کرنا وہ دو بنیادی اصول ہیں جن سے اسلام کا آغاز ہوا۔ اس کے علاوہ انسانیت اور مذہب ( اس سے مراد ملائیت نہیں)کو ہم آہنگ کرنے کا بنیادی مقصد انسانی زندگی کو بہتری کی طرف گامزن کرنا ہے۔ یہ مقصد تعلیم کے بغیر پورا نہیںہوسکتا۔ بہت سے لوگ اس لیے بھی پریشان ہیں کہ عبدالستارایدھی جیسے افراد کی بجائے ملالہ کو امن کے نوبل انعام کا حقدارکیوںکر ٹھہرایا جاسکتا ہے۔کوئی جواب نہ بن پاتے ہوئے وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ سترہ سالہ نوجوان لڑکی ضرور غیر ملکی سازش کی ایک کڑی ہے۔کچھ تو یہاں تک بات کرتے ہیں کہ جب وہ انعام اپنی گرد ن میں ڈالے وطن لوٹے گی تو پاکستان میں مغربی ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
اس گتھی کو سلجھانے کے لیے قارئین کو بتانا چاہتی ہوںکہ امن کا نوبل انعام اور اسی طرح کے دیگر انعامات میں سیاسی حکمتِ عملی ہوتی ہے اور اس کا مقصد ایسے افراد کے کارناموں کی پذیرائی ہوتی ہے جو دنیاوی متاع کو نظر اندازکرتے ہوئے دنیا کے لیے اہم خدمات سرانجام دیں۔ ان انعامات کا مقصد اُس پوری قوم یا اُس معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کوکوئی ممتازحیثیت دینا نہیں ہوتا۔ ناروے کے اس انعام کا فیصلہ کرنے والی پانچ رکنی کمیٹی کے ارکان کو ملالہ کی قربانی اور تعلیم کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوںنے اُسی طرح متاثرکیا جس طرح دنیا کے لاکھوں لوگوںکو۔ ایک مقصد کے لیے کی جانے والے جدوجہد نے جہاں ملالہ کو عالمی شہرت دلادی وہیںاُس سے اُس کا بچپن بھی چھین لیا۔ دکھی انسانیت کے لیے عبدالستار ایدھی کی خدمات بھی ناقابل ِ فراموش ہیں؛ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے ایک لڑکی جو پورے حوصلے اور عزم کے ساتھ تاریکی کی قوتوںکے سامنے کھڑی رہی، کو نہ سراہا جائے۔ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب پوری مغربی دنیا اُس کے ساتھ کھڑی ہے تو انتہا پسندوں کی مخالفت میںدلیری والی کیا بات ہے؟ یقیناً مغربی دنیا ملالہ کے ساتھ کھڑی ہے کیونکہ وہ ملالہ کے ذریعے لڑکیوں کو تعلیم کے مواقع فراہم کرنے کا ایک راستہ دیکھ رہے ہیں (اور یہ کوئی بری بات نہیں) لیکن شاید یہ کوئی نہیں جانتا کہ اُس بچی کے دل پر کیا گزررہی تھی جب اُسے اپنا وطن چھوڑنا پڑا، اس کی زندگی خطرے میں رہی اور وہ تنہائی کا شکار ہوئی اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا، اس سے بچپن چھن گیا۔
اس کے علاوہ ملالہ کے انعام پر چراغ پاہونے والے یہ بھی سوچیں کہ اُنہیں یا باقی دنیا کو عبدالستار ایدھی یا دوسروںکے لیے جان قربان کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اُنہیں انعامات سے نوازنے سے کس نے روکا ہے؟انعام چھوڑیں، بہتر ہوتا اگر ہم عبدالستار ایدھی اور ان کے اہل ِ خانہ کو خوفزدہ کرکے ملک چھوڑ جانے پر مجبور نہ کرتے(چند سال پہلے اُنہیں اپنی جان کے خطرے کے پیشِ نظر ملک چھوڑ کر کہیں اور پناہ لینی پڑی تھی۔) بہرحال ، ہماری طرف سے ملالہ پر الزام تراشی کی وجہ ملالہ نہیں بلکہ ہمارا غلامانہ طرزِ فکرہے جو اس کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچ سکتاکہ چونکہ ہمیں خدمات کا کوئی صلہ نہیں ملا، اس لیے اگر کسی اورکو انعام دیا جارہاہے تو یہ یقیناً ''مالکوں‘‘ کی کوئی چال ہوگی۔ دورِ غلامی میں پروان چڑھنے والی سوچ کئی نسلوں تک نہیں جاتی۔ یہ خدشہ بھی ہماری راتوںکی نیند حرام کر دیتا ہے کہ ایک دن وہ سترہ سالہ لڑکی کسی طلسمی جہاز پر پرواز کرتے ہوئے آئے گی اور ہمارے جوہری اثاثے اچک کرلے جائے گی۔ اس کے علاوہ مغربی طاقتوںکی طرف سے اُسے انعامات سے نوازکر سامنے لانے کی ضرورت کیا تھی؟
یہ ہے ہماری بیمار اورمنقسم ذہنیت! ایک طرف ہم مغربی ممالک سے زیادہ سے زیادہ مالی امداد کے لیے مرے جارہے ہیںاور دوسری طرف اگر وہ انفرادی طور پرکسی خوبی کی وجہ سے کسی فرد کی پذیرائی کریں تو ہمیں ہول آنے لگتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اُن افرادکی کمی نہیں جو ملالہ کو ملنے والے نوبل انعام کو ڈاکٹر عبدالسلام کی فزکس کے میدان میں کی گئی تحقیق پر ملنے والے انعام کی طرح برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں کیونکہ ایسے لوگ ڈاکٹر صاحب کے عقیدے سے متفق نہیں ۔ میں ایک خاتون کو جانتی ہوں جو بلاتکان بولتی جاتی ہیں کہ ڈاکٹر عطاء الرحمن کو نوبل انعام کا حق دار کیوںنہ گرداناگیا۔ اس دوران وہ یہ بھی سوچنے کی زحمت نہیں کرتیں کہ عطاء الرحمن اب تک سائنسی دنیا میںکون سی انقلاب آفرین پیش رفت لاپائے ہیں؟
یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے دلائل کے پیچھے وہ قومی سوچ کارفرما ہو جوملک میں ایسے افراد کو انعامات حاصل کرتے دیکھتی ہے جن کے کریڈٹ پر اس کے کچھ نہیں ہوتا کہ اُنہیں اہم حلقوںکی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔ جہاں تک ایدھی صاحب کا تعلق ہے تو کیا ہم اُنہیں کسی اور طریقے سے انعام سے نہیں نواز سکتے تھے؟میرا خیال ہے، نہیں۔۔۔۔ کیونکہ پھر سماجی خدمات سرانجام دینے والوں کی لائن لگ جاتی اور یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا کہ کیا ایدھی صاحب کی خدمات زیادہ قابلِ تحسین ہیں یا کچھ مذہبی رہنمائوں کی جن کے کارناموں پر ریاست بھی خوش ہے۔ ایدھی صاحب کی طرح بعض جماعتوں نے بھی بے سہارا بچوں کو گود لینے کا منصوبہ شروع کردیا ہے۔ میں ایک عورت کو جانتی ہوں جسے تعلیم سے دور دور تک کوئی دلچسپی نہیں، وہ اپنے اہل ِخانہ کو ملالہ کی کتاب پڑھنے سے روکتی ہے ۔ وہ ملالہ کو اس لیے دشمن سمجھتی ہے کہ وہ بیرون ِ ملک رہتی ہے؛ تاہم یہی عورت اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ِ ملک بھجوانے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ملالہ پر تنقید کرتے ہوئے یہ بھی بھلا دیا جاتا ہے کہ اس نوجوان لڑکی نے شہرت کی بلندی کے باوجود اپنی قومی اور ثقافتی شناخت کو نہیں اتار پھینکا۔ وہ اکثر پاکستان کی سکیورٹی کے پسِ منظر میں بیان دیتے ہوئے مغربی ممالک پر زور دیتی ہے کہ وہ اس کی سرزمین پر ڈرون حملے نہ کریں ؛ حالانکہ اُسے خوش ہونا چاہیے کہ ڈرون ان طالبان کو ہدف بنارہے ہیں جنہوں نے اُس کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔
اگرچہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہمارا مذہب ہمیںانسان دوستی کا درس دیتا ہے لیکن ہم نوجوان لڑکی کو خود سے آگے نکلتے دیکھ کر چراغ پا ہو رہے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنھوں نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ؟ کتنے والدین، چاہے اُنہیں کتنا بڑا معاوضہ کیوں نہ دیا جائے، اپنی اولاد کو کسی مقصد کی خاطر ایسے امتحان میں ڈالنے کی جرأت کرسکتے ہیں؟اس دوران ہمیں کم از کم یہ بات فراموش نہیںکرنی چاہیے کہ ہمارے بڑے بڑے جہادی رہنما، جنہیں بہت سے ممالک سے بھاری رقوم عطیہ کی جاتی ہیں، اپنے بچوں کو خود کش حملے کرنے نہیں بھیجتے ۔
''گل مکئی‘‘ ضیاء الدین یوسفزئی کی لالچی دنیا نہیں، جیتی جاگتی محبت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں محبت اور انسانیت کی زبان سمجھنے والوں کی کمی ہے۔ اس لیے ہمارے معاشرے میں اس بات کی تفہیم دشوار سے دشوار تر ہوتی جارہی ہے کہ سوات میں رہنے والا ایک والدکس طرح اپنی بیٹی کو محض عالمی شہرت کے لیے طالبان دشمنی کے مہیب خطرے سے دوچارکرسکتا ہے۔ ہو سکتا ہے ، کچھ لوگ ملالہ کا انعام پسند نہ کریں لیکن یہ انعام ایک باپ اور ایک بیٹی کو ایک دوسرے سے محبت کا انعام بھی ہے اور اظہار بھی کہ کس طرح کسی مقصد کی خاطر لڑنے سے انسان اوجِ کمال تک پہنچ سکتاہے۔