محاورہ ہے :دوملائوں میں مرغی حرام۔ اگر ملا دو سے زیادہ ہوں تو بے چاری مرغی کا جو حشر ہوگا‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بالکل اسی طرح جب کئی ایک انکل اور انٹیاں آپ کی تقریر لکھیںتو آپ کی تقریر کے بال و پر بھی اسی طرح بکھر جائیںگے۔ بلاول کی تقریر میں وہ تمام طاقتور عناصر تھے جو بہت دیر سے پی پی پی کی سیاسی جہت کا خاصہ رہے ہیں... سیاسی طور پر جبر کا نشانہ بننے کے احساس کونسلی اور قوم پرستی کے جذبات میں لپیٹ کر پیش کرنا۔ اس تقریر میں ایک طرف ضیا کی باقیات کے ہاتھوں پارٹی کے مصائب کا ذکر ہوا تو دوسری طرف اُن معاملات کا جو بعض اداروں کو خوش کرتے ہیں یعنی کشمیر اور سوات آپریشن وغیرہ۔ اس سے ایک مرتبہ پھر اس حقیقت کی غمازی ہوتی ہے کہ آپ جی ایچ کیو کی حمایت کے بغیر پاکستان میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ بھٹو بھی، جب مجیب الرحمن اگرتلہ کیس میںقید تھے، اس طرح عالمی دورے کرتے دکھائی دیتے تھے جیسے وہ صرف اور صرف مسئلہ کشمیر کی وکالت کرنے والے سفارت کارہوں ۔ حالیہ دنوں پی پی پی کو جن ریٹائرڈ فوجی افسران کی خدمات حاصل ہوئی ہیں، اُنھوں نے نوجوان بلاول کو نصیحت کی ہوگی کہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا؛ تاہم ایسے سیاسی مشیر نہیں جانتے کہ سیاست نام ہی بڑے رسک لینے کا ہے۔ اس میدان میں آگے آنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے پاس لوگوں کے سامنے رکھنے کے لیے کچھ نیا ہو۔
اس تقریر نے لوگوں کو خوش کردیا۔ لبرل طبقوں نے یہ سن کر سکون کا سانس لیا کہ آخر کار کسی نے تو اقلیتوں کی بات کی۔ کچھ سیاسی پنڈت اس بات پر یقین رکھتے ہیںکہ عمران خان اور نواز شریف کے درمیان پیدا ہونے والے خلا کو شاید ہی پور ا کیا جاسکے۔ بہرحال‘ آسیہ بی بی، بلوچستان اور طالبان مخالف بیانیہ اس بات کا تعین کرے گا کہ ملک کس سمت میں بڑھ رہا ہے۔ یہ کیس دراصل کسی بڑی بیماری کی ظاہری علامتیں ہیں۔ آسیہ بی بی کی کہانی کسی ایک فرد کی ابتلاکی داستان نہیں بلکہ یہ ریاست کی بے بسی کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ ایک فرد کے ساتھ صرف اس وجہ سے انصاف نہیں کرسکتی کیونکہ اس پر انتہا پسندی کے پہرے ہیں۔ اس کی مصیبت کا باعث وہ قانونی نظام ہے جو1970ء کی دہائی میںذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے دور میں بنا اور جس نے ریاست کی نئی جہت کا تعین کردیا۔
اسی طرح پریشانی اور افراتفری کا شکار بلوچستان بھی یہ محسوس کرتا ہے کہ ان کا وفاق ِ پاکستان کے ساتھ معاہدہ ہوا تھا اور وہ اس میں ایک فریق تھے لیکن وہ معاہدہ پورا نہ ہوا۔اب وہا ں کے حالات بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دوغلی پالیسی ترک کرکے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں۔ کیا ناراض بلوچ سابق صدر کی معافی کو اپنے زخموں کا مداوا سمجھیں گے‘ خاص طور پر جب سنیں گے کہ پوتا (بلاول) اپنے نانا(بھٹو) کے نقش ِ قدم پر چلنے کا عزم کررہاہے کہ اگر ریاست کی سکیورٹی کو ملک کے کسی حصے میں خطرہ محسوس ہوا تو ریاستی مشینری پوری طاقت سے حرکت میں آئے گی۔ ہوسکتا ہے‘ کچھ لوگ بلاول کی تقریر کا یہ حصہ سن کر خوش ہوئے ہوں اور کچھ کو ایسا لگا ہوکہ یہ باتیں وہ پہلے بھی سن چکے ہیں۔
جہاں تک طالبان کا تعلق ہے‘ ان کا خاتمہ کرنا صرف اس وجہ سے دشوار نہیں کہ ان کی پنجاب میں توانا موجودگی ہے اور الزام لگایا جاتاہے کہ پنجاب کی موجودہ سیاسی قیادت ان سے ہمدردی رکھتی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ ملک کے ہر کونے میں طالبان اسی طرح اپنی جڑیں مضبوط کرتے جارہے ہیں جیسے پنجاب میں۔ ہو سکتا ہے کہ لاہور کا زیادہ قصور ہو لیکن کیا یہ سوال نہیں اٹھایا جاسکتا کہ پی پی پی کی حکومت نے اُنہیں سندھ میں، اپنی حکومت کی ناک کے نیچے، پھلنے پھولنے اور بہت سے مشکوک مدرسے قائم کرنے کا موقع کیوں دیا؟یا سابق دور میں وزارت ِ داخلہ کا لال مسجد اور مدرسہ حفصہ میں موجود افراد سے رابطہ کیونکر ہوا؟ حیران اور پریشان سندھی دوستوں کی نظروں کے سامنے صوبے کے سماجی خدوخال میں تبدیلی آرہی ہے اور یہ صورت ِحال یہیں تک محدود نہیں بلکہ جنوبی پنجاب بھی تبدیل ہوچکا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ عام لوگ طالبان کا طرزِ فکر اپنارہے ہیں بلکہ یہ کہ انتہا پسند معاشرے میں ا پنی جڑیں مضبوط کررہے ہیں کیونکہ ان کے لیے ماحول سازگار ہے۔ ماحول کو اس نہج پر ڈھالنے کی ذمہ داری غریب عوام کی بجائے طاقت ورطبقوں پر عائد ہوتی ہے جنھوںنے پہلے تو جہادیوںکو اپنے مقاصد کے لیے عارضی پارٹنر کے طور پر استعمال کیا لیکن پھر یہ جہادی ان کی مجبوری بن گئے۔سیاست سے بلند ہوکر یہ بات بلاخوف کہی جاسکتی ہے کہ سندھ بھی جنوبی پنجاب کی طرح تبدیل ہورہاہے۔
اب اُن سوالات کی اہمیت نہیںجو پی پی پی کا جیالا پوچھناچاہتا ہے کیونکہ پی پی پی کے اہم ترین رہنما اس پیش رفت میں اپنی اہمیت کھوچکے ہیں۔ پارٹی ایک نظریہ تھی جسے جیالوںنے اپنی زندگی بنالیا۔ جب وہ پارٹی قیادت سے ناراض ہوتے ہیں تو وہ کسی کو ووٹ نہیں دیتے۔ جو لوگ اس سوچ کو کنٹرول کرتے ہیں، ان کی خوشی کا سامان ہوتا رہتا ہے۔ بلاول کی تقریر بھی ایک عجیب فارمولہ تھی۔ اس کے ایک بڑے حصے میں پارٹی پر ہونے والے ظلم و ستم کو سندھی قوم پرستی کے پس ِ منظر میں اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس کی قیادت پارٹی اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے پنجاب میں جان کی بازی ہارگئی۔ اگر اٹھارہ اکتوبر کو کی جانے والی تقریر کا خالق سید مظفر ٹپی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پی پی پی کی احیا کے لیے سندھ اور پنجاب میں الگ الگ منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ایک منصوبے کے مطابق سندھی قوم پرستی، سیاسی اجارہ داری ، دولت اور طاقت سے اسے سندھ میں جبکہ جمہوریت پسند اور روایتی سندھی قوم پرستوں کی مخالفت کرتے ہوئے وفاق کی علامت کے طور پر پنجاب میں زندہ کیا جائے گا۔
پی پی پی کو پنجاب میں اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ قیادت کا بحران ہے۔ درحقیقت یہاں جادو کی چھڑی سے کم کوئی چیز کام نہیں دے گی۔ اصل میں یہ پی پی پی پنجاب کی قیادت تھی جس نے بے نظیر بھٹو کو غلط مشورہ دیا کہ وہ 1990ء کے انتخابات میںلاہور کو چھوڑدیں حالانکہ وہ 1988ء میں یہ سیٹ جیت چکی تھیں۔ اس کے بعد پارٹی کبھی پنجاب میں اپنی پوزیشن مستحکم نہ کرسکی۔ ہو سکتاہے‘ پی پی پی پنجاب نواز شریف کو ناپسند کرتی ہولیکن وہ ان کی پنجاب میںسیاست کو پسند کرتی ہوگی ۔ وہ قیادت جو1970ء کی دہائی میں پی پی پی سے ابھری یا بھٹوازم کا نعرہ بلند کیا، وہ موجودہ دورکی پی ایم ایل (ن) کی قیادت سے مختلف نہیں۔ جنوبی پنجاب میں پارٹی کی قیادت بھی اپنے مسائل اور سانحات کا شکار ہے‘ اس لیے یہ بات بلاتامل کہی جاسکتی ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پی پی پی کی شکست کی بنیادی وجہ صرف دھاندلی نہیں بلکہ اس کی اپنی نااہلی تھی۔ دراصل پی پی پی کو نظر انداز کرنا، کم از کم ایک کالم نگارکے لیے، مشکل ہے کیونکہ کبھی یہ لوگوں کے تخیلات پر چھائی ہوئی تھی۔ اس کے عروج و زوال میں بہت سے لوگوں کی کہانیاں ہیں اور یہ بات کی جاتی رہنی چاہیے۔