اجتماعی خودکشی

اتوار 2نومبر کو لاہور میں واہگہ بارڈر پر ہونے والے خودکش حملے میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ جنداﷲ اورتحریک ِ طالبان پاکستان نے فوراً ہی اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ۔ یہ سنتے ہی ہم نتیجہ اخذکرتے ہوئے چین کی نیند سوسکتے ہیں کہ یہ وزیرستان سے تعلق رکھنے والی کچھ سرپھری قوتیں ہیں اورہم شمالی علاقوں میں فوجی آپریشن کے ذریعے ان کا قلع قمع کرسکتے ہیں۔ لیکن کیا اس سانحے کے تانے بانے شمال کے ساتھ وابستہ کرکے ہم سکون کا سانس لے سکتے ہیں جب اس کا تعلق لاہور کے نزدیک کوٹ رادھا کشن میں پیش آنے والے ایک واقعے سے بھی ہو سکتا ہو؟ کوٹ رادھا کشن میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے عیسائی جوڑے پر توہین کے الزام میں تشددکیا گیا اور پھر اُنہیں بھٹے کی دہکتی آگ میں پھینک دیا گیا۔ 
عیسائی اقلیت کے بیشتر افراد زیادہ تر سماجی اور معاشی اعتبار سے نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر ہم ایک لمحے کے لیے الزام کی صداقت پر یقین کرلیں تو کیا وہ عیسائی جوڑا پاگل تھا یا خودکشی پر تلاہوا تھا جو اُنھوں نے یہ حرکت کردی؟ ایک ایسے ملک میں ، جہاں مشتعل ہجوم ہی مدعی، منصف اور جلاد ہو تو کوئی باہوش ایسی جسارت کر سکتا ہے؟ 
خود کش حملہ آور اور کوٹ رادھا کشن میں تشدد کرکے زندہ جلا دینے والے ہجوم کی سوچ ایک سی محسوس ہوتی ہے۔ دونوں واقعات میں کارفرما عامل قوت ایک نظریہ ہے جو طاقت حاصل کرنے کے لیے کسی عقیدے کو استعمال کرتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ دوسری مثال اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ لوگ بے گناہ افراد کوہلاک کرنے کسی اور علاقے سے نہیں آئے تھے۔ ایسے لوگ ہمارے اردگرد موجود ہیں۔ 
جند اﷲ اور ٹی ٹی پی دراصل وہ نام ہیں جو عام لوگوں کو کنفیوژن کا شکار کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کے روابط ، جو خطے میں بھی ہیں خطے سے باہر بھی ، عوام کی نگاہوںسے پوشیدہ رہتے ہیں۔ا ن کے نام اُ ن کی اُس درجہ بندی کوظاہر کرتے ہیں جو ان کی تفصیل کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چاہے یہ جنداﷲ ہو یا تحریک ِطالبان پاکستان، ان کی بنیاد ایک ہی گروہ ہے۔ تاریخی طور پران گروہوں کی خصوصی مہارتوں اور اہداف کی وجہ سے ان کی تقسیم دیکھنے میں آئی۔ جس طرح جنداﷲ ایران کے خلاف یا بلوچستان میں کارروائیاں کرتی ہے‘ دوسرے گروہوں کے نظریات بھی یہی ہیں لیکن ان کی کارروائیوں کا فوکس کوئی اور ہے۔ 
القاعدہ کی رقم سے جیشِ محمد 2000ء کے اوائل میں وجود میں آئی۔ اس کا بنیادی ٹھکانا پنجاب اور سندھ کے شہری علاقے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسے گروہ اپنے دائرہِ عمل سے باہر پائوں نہیں رکھتے لیکن یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ اُن سب کے کوئی نہ کوئی خصوصی اہداف ضرور ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ اور نظریاتی گروہ بھی میدان میں ہیں، جن کا خصوصی میدان بھارت اور کشمیر ہے اور ان کے تنظیمی نشانات، نعرے، علامتیں اور تقریریں نوجوانوں کو جہاد کی طرف راغب کرتی ہیں۔ 
واہگہ بارڈر پر حملہ‘ ہو سکتا ہے کہ ضرب ِعضب کا ردِ عمل نہ ہو کیونکہ اس کا ہدف شمال میں ہلا ک ہونے والے انتہا پسندوں کے انتقام سے کہیں بڑھ کر پاک بھارت تعلقات کو مزید خراب کرنا تھا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پنجاب میںانتہا پسندوں کی اتنی طاقتور موجودگی ہے کہ اگر وہ چاہیں تو پنجاب کی ہر گلی میں خون کی ندیاں بہہ سکتی ہیں۔ تاہم حکمت ِعملی یہ دکھائی دیتی ہے کہ ان کا ہدف ایک مخصو ص مقصد کو حاصل کرنا تھا(حال ہی میں لیفٹیننٹ خالد ربانی نے کہا تھاکہ اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو پنجاب میں انتہا پسندوں کے نیٹ ورکس کو ختم کرنا ہوگا)۔ اس طرح اس کا ہدف سیاسی حکومت بھی ہوسکتی ہے جس نے ابھی تک بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کے خیال کو ترک نہیں کیا۔ اس سے بھی اہم یہ کہ اس سے پنجاب کے تاجروں، دکانداروں اور حتیٰ کہ کسانوں کو بھی ایک پیغام دینا مقصود ہوسکتا ہے ۔ یہ افراد بھی بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضرروت محسوس کررہے ہیں کہ اس میں پاکستان اور خود اُن کی اپنی بہتری ہے۔ 
گزشتہ ایک دو برسوں سے بھارت اور پاکستان کی حکومتوں نے اہم تاجروں، صنعت کاروں اور زرعی شعبے کے بڑے ناموں کو بھی باہم مذاکرات کے عمل میں شامل کیا ۔ اس طرح زرعی شعبے کی طرف سے کیا جانے والا ابتدائی اعتراض دور ہوتا جارہا تھا۔ واہگہ اٹاری پر کھڑے ٹرکوں کی طویل قطار ظاہر کرتی ہے کہ ان دونوں ہمسایہ ممالک میں مسائل کے انبار کے باوجود تجارت کا پوٹینشل موجود ہے۔ پاکستانی تاجر اور کاشت کار برادری کی خواہش ہے کہ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان بھی تجارتی روابط استوار ہوں۔ اگرچہ پاکستانی تاجر برادری اس خیال سے دستبردار نہیں ہوئی لیکن یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اسے فی الحال پسِ پشت ڈال کر پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی معاشی حالت کو بہتر بنائے۔ ایسا بھارت کے ساتھ تجارت کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔جب پوچھا کہ تجارت اور مسئلہ کشمیر کے حل کی بابت کیا خیال ہے تو بہت سے تاجروں ، کاروباری افراد اور کاشت کاروںنے کہا کہ میں اُن سے سیاسی سوالات نہ کروں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سیاسی تنازعات کو ایک طرف رکھ کر دوطرفہ تعلقات میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔اس میں دلچسپی کی بات یہ ہے کہ نظریاتی وابستگی رکھنے والے تاجر اور کسان ہی بھارت کے ساتھ تجارت کی سخت مخالفت کررہے ہیں۔ 
حالیہ تاریخ سے ایک مثال۔۔۔ صرف ایک مرتبہ بیت اﷲ اور حکیم اﷲ محسود کی قیادت میں تحریکِ طالبان پاکستان نے بھارت کو آنکھیں دکھائیںاور ایسا کرتے ہوئے وہ ہمارے سرکاری موقف کے قریب دکھائی دیے تو اُس وقت اُنہیں محب ِ وطن قرار دیا گیا تھا۔ اس سے اُنہیں یہ سبق حاصل ہوا کہ جب تک ریاست کے ساتھ روابط ہیں، اُنہیںکوئی اور محاذ کھولنے کی کیا ضرورت ہے۔ اب واہگہ بارڈر حملے کی تمام تر ذمہ دار ٹی ٹی پی اور جند اﷲ پر ڈال کراصل مسئلے کی طرف سے نظریں چرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ مسئلہ ملک کے دو اہم ترین صوبوں، پنجاب اور سندھ ، میں پوری شدت سے موجود ہے۔ کچھ چھوٹے چھوٹے گروہوں کی سرکوبی کی جاسکتی ہے، اُنہیں ختم کیا جاسکتا ہے یا ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے لیکن کوئی بھی ان غیر ریاستی عناصر کو ہمیشہ کے لیے اپنا مطیع نہیں بنا سکتا۔ صرف ایک صورت باقی ہے۔۔۔ ریاست ان غیر ریاستی عناصر سے دست بردار ہوجائے، لیکن اس کے لیے مکمل ذہنیت کی تبدیلی درکارہوگی۔ اگر ایسا نہیں تو پھر ایسی ریاست خود کشی کے راستے پر ہی گامزن سمجھی جائے گی۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں