مثالیت پسندی کی بھاری قیمت

اگلے دن میں ایک نوجوان صحافی خاتون سے ''مثالیت پسندی بمقابلہ عملیت پسندی‘‘ کے موضوع پر خیالات کا تبادلہ کر رہی تھی جب اُس نے مجھے بجا طور پر یاد دلایا کہ سیاست، خاص طور پر جیوپالیٹکس میں اخلاقیات کی ایک اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ یقینا حقیقی سیاست کاری کی دنیا میں سیکھنے کے لیے یہ ایک مشکل سبق ہے کیونکہ حالات اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ ہم کچھ معاملات پر ایک دوسرے سے اتفاق نہ کر سکے‘ لیکن اس بحث نے مجھے یہ سوچنے پر ضرور مجبور کر دیا کہ ہماری دنیا میں اخلاقی سیاست کاری کے لیے کیا جگہ بچی ہے۔ ہم سب، جو سوچنے، لکھنے اور آراء تشکیل دینے میں خود کو مصروف رکھے ہوئے ہیں، کسی نہ کسی حوالے سے حقیقی سیاست کے معیار سے بخوبی واقف ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اس رویے کی وجہ اکتاہٹ اور بیزاری ہو یا حد درجہ احتیاط، تاہم میں اُس کے ساتھ اپنا وہ تجربہ شیئر کرنا چاہتی تھی جو مجھے اُس وقت سے ہونا شروع ہو گیا‘ جب میں پالیسی سازوں کے شہر اسلام آباد آئی۔ گزشتہ سولہ برس سے جبکہ میں یہاں ہوں، میں یکے بعد دیگرے مختلف دوستوں کو دیکھتے ہوئے مزید تنہائی کا شکار ہوتی گئی۔ اب مجھے بھی خوف لاحق ہے کہ میں بھی عملیت پسندی کا شکار ہو سکتی ہوں ۔ اسلام آباد ایک بے مثال شہر سہی لیکن غیر معمولی نہیں کیونکہ دیگر شہروں میں بھی یہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔
مثالیت پسندی جادوئی اثر کی حامل ہوتی ہے۔ مجھے وہ بات یاد ہے جو کئی سال پہلے میری والدہ صاحبہ مجھے بتایا کرتی تھیں کہ یہ عملیت پسند نہیں بلکہ دیوانے اور جذباتی لوگ ہیں جو اس دنیا کو جینے کے قابل بناتے ہیں۔ میں اُس نوجوان خاتون کو فون کرکے بتانے ہی لگی تھی کہ میں اپنی سوچ کو اُس کے نظریات کے مطابق ڈھالنے جا رہی ہوں‘ لیکن وہ چلی گئی۔ ہم جتنے بھی دعوے کریں کہ ہم ایک جاندار اور توانا معاشرہ بن چکے ہیں، حقیقت اپنی جگہ پر موجود کہ ریاست پہلے سے زیادہ طاقتور ہوتی جا رہی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہونے والے تشدد اور ناقص گورننس سے ریاست کی کمزوری آشکار ہو، ریاست جان بوجھ کر اُس معاشرے کو نظر انداز کر سکتی ہے جس پر وہ حکومت کرتی ہے۔ عملی طور پر ریاست ایک ماں کی طرح نہیں بلکہ ایک سوتیلے باپ کی طرح برتائو کرتی ہے۔
ریاست میں اتنی تاب ضرور ہوتی ہے کہ وہ درپیش چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے اپنا وجود قائم رکھ سکے۔ میں اُن سے قطعی اتفاق نہیں کرتی جو سوچتے ہیں کہ پاکستان کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ریاست پہلے سے بھی زیادہ توانا ہوئی ہے؛ چنانچہ کیا ہوا اگر کہیں کچھ خوں ریزی ہو گئی۔ عملیت پسندی آپ کو باور کرائے گی کہ ایسا ہر جگہ ہوتا ہے۔ ممکن ہے کسی نے آئی ایس آئی کے سابق چیف کا انٹرویو سنا ہو‘ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کی مستقل اسٹیبلشمنٹ جانی نقصان کو اجتماعی جانی نقصان سمجھ کر برداشت کر سکتی ہے۔
آج ریاست پہلے سے زیادہ پُراعتماد ہے۔ مذکورہ بالا انٹرویو سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا پاکستان سے بات چیت کرنے کی بے حد خواہش مند ہے۔ خطے میں جغرافیائی طور پر اس کی سٹریٹیجک پوزیشن بہت محفوظ دکھائی دیتی ہے۔ افغانستان کی منتخب حکومت راولپنڈی کو خوش کرنے کی کوشش میں پاکستانی سرحد کے نزدیکی علاقوں میں بھارتی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی تیار ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آئندہ ہو نے والے انتظام میں پاکستان کا مفاد ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ داخلی طور پر ریاست کے سامنے بہت کم پریشانیاں ہیں۔ معاشی ترقی ایک اہم مسئلہ تھا‘ لیکن چینی سرمایہ کاری سے یہ حل ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ امید ہے کہ اقتصادی راہداری ملک کا مقدر بدل دے گی۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ بلوچستان بھی ایک مسئلہ ہے تو خاطر جمع رکھیں، یہ بھی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہاں سے آنے والے جھونکے ریاست کی قوت شامہ کو ناگوار گزریں لیکن خطرے کے بادل چھٹ چکے، اس لیے چینی سرمایہ کاری کے لیے راستہ ہموار ہی سمجھیں۔
نسلی اور سیاسی بنیادوں پر منقسم یہ خطہ بہت سی فالٹ لائنز رکھتا ہے، تاہم بلوچ شورش پسند مربوط طاقت نہیں رکھتے، بلکہ اُن کے اپنے اندر انتشار پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی طرف سے تشدد اور خونریزی کا نشانہ صرف مزدور پیشہ افراد ہی بنتے ہیں، یا وہ کہیں کہیں سے پائپ لائنز اُڑا دیتے ہیں۔ ان کے خلاف براہ ِ راست یا بالواسطہ (انتہاپسند گروہوں کو استعمال کرتے ہوئے) طاقت کا استعمال بہت موثر ثابت ہو رہا ہے۔ اب ترقی کے لیے فوری طور پر طاقت کے استعمال سے حالات کو کنٹرول کرنے کا بیانیہ زیادہ تقویت پائے گا۔ اس مقصد کے لیے دکھاوے کی خاطر ایک منتخب شدہ حکومت بھی موجود ہے۔ یقینا یہ دل خوش کن تاثر بھی جائے گا کہ جمہوریت اپنا راستہ بنا رہی ہے۔ امریکی کارپوریشن 'United Fruit'، جس نے وسطی امریکہ کے سیاست دانوں کو رشوت دے کر اور طاقت کا استعمال کر کے تجارت کی، کی طرز پر banana trade (اسی سے بنانا رپبلک کی اصطلاح وجود میں آئی) کا ہمارے ہاں بھی پوٹینشل موجود ہے۔ یہاں بھی حکومت میں شریک سیاست دانوں کے ذاتی مفادات کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے۔ وہ صورت حال کو جوں کا توں رکھنے اور ریاست کی خاطر نعرے بازی کرنے کا فریضہ سرانجام دیتے دکھائی دیںگے۔ ایک اور بات، کولمبیا میں کیلے پیدا ہوتے تھے اور بلوچستان میں تانبا۔
یقینا سول سوسائٹی کی طرف سے شور و غل سنائی دے گا، لیکن اس کی فکر کس کو ہے؟ شور شور ہوتا ہے، اور اسے بہت سے ذرائع سے خاموش کرایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے گلا بھی دبایا جا سکتا ہے اور گولی بھی داغی جا سکتی ہے۔ جسمانی تشدد بہرحال دکھائی دیتا ہے، لیکن پھر ریاست کے پاس نفسیاتی طور پر خائف رکھنے کے بھی طریقے ہوتے ہیں اور فکر اور سوچ کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے۔کسی بیانیے کا گلا گھونٹنے کے فن میں ریاست ماہر ہو چکی ہے۔ بس ناپسندیدہ افراد پر ''این جی اوز سے فنڈ لینے والے، لبرل‘‘ کا لیبل لگا دیں، لوگ ان سے خود ہی نمٹ لیں گے۔ اس کے علاوہ ملا اور انتہا پسندوں کا خوف بھی بہت سوں کو ریاست کے موقف سے ہم آہنگ رکھتا ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو ریاست کو ایک محافظ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
بہرحال ''سب اچھا‘‘ نہیں ہے۔ ایک شیطانی برائی اپنی جگہ پر موجود ہے، اور اس کا نام سوشل میڈیا ہے۔ اس کا بھی جزوی طور پر گلا دبانے کی ضرورت ہے۔ سائبر کرائمز کا قانون استعمال کرتے ہوئے پریشان کن مواد کو روکا جا سکتا ہے۔ خدشہ ہے کہ اسے انتہا پسندوں سے زیادہ سول سوسائٹی کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ اگر مقصد صرف انتہا پسندوںکے مواد کو روکنا تھا تو اس کے لیے پی ٹی اے کے پاس کافی طاقت تھی کہ وہ سوشل میڈیا پر ناپسندیدہ مواد اور دہشت گردوں، جیسا کہ احسان اللہ احسان، کے موقف اور بیانات پر پابندی لگا سکے؛ تاہم میں اب اپنے اصل موضوع کی طرف واپس آتی ہوں کہ مثالیت پسندی اور اخلاقیات کی قیمت بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ قبائلی سوچ رکھنے والی ایک طاقت ور ریاست بہت سے معاملات میں ابہام پیدا کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ آپ کب ریاست کے برداشت کی لکیر، جو واضح نہیں ہوتی، عبور کر بیٹھیں اور کوئی گولی آپ کی پیشانی میں سوراخ کر دے۔
سبین محمود کی ہلاکت کئی ایک حوالوں سے افسوس ناک ہے ۔ سب سے پہلی چیز اس کی موت پر پُراسرار اور گہری خاموشی ہے۔ اس کی تدفین سے خوف و خدشات کے پرچھائیں جاگ اٹھی ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ باغی، انقلابی اور مثالیت پسند کس طرح خود کو تبدیل یا فروخت کر سکتے ہیں؟ اب مجھے احساس ہو گیا ہے کہ ایسا کس طرح ہوتا ہے۔ یہ لوگ یقینا ایک طویل اور تکلیف دہ جنگ نہیں کر سکتے۔ جب تک معاشرے میں تنقیدی سوچ کو شائستگی کے ساتھ برداشت کرنے کی سکت پیدا نہیں ہوتی، عملیت پسندی ہی راج کرے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں