آئی بی اے (IBA) کے تعلیم یافتہ نوجوان کی گرفتاری اور اُس کے صفورا گوٹھ خونریزی اور سبین محمود قتل کے اعتراف پر لکھے جانے والے مواد سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ مضمون نگاروںکے نزدیک اس طرح کے تعلیم یافتہ دہشت گرد پاکستان میں دہشت گردی کی نئی کہانی کا پہلا باب ہیں۔ اس حقیقت سے قطع نظر کہ پولیس کے سامنے کیے گئے اعتراف سے ایک عام فہم لطیفہ یاد آتا ہے جس میں پولیس ایک گدھے سے بھی اعتراف کرالیتی ہے کہ وہی ملکہ الزبتھ کا گم شدہ کتا ہے،مجھے محسوس ہوتا ہے کہ لوگ ( حتیٰ کہ صحافی بھی)زیادہ مطالعے کی عادت نہیں رکھتے‘ ورنہ وہ مڈل کلاس اور اپرمڈل کلاس کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے انتہاپسندی کی طرف مائل ہونے پر شائع ہونے والی رپوٹیں ضرور پڑھتے۔ معاشرے کے بالائی طبقے سے تعلق رکھنے والے جہادیوں کے حوالے سے رپورٹس شائع کی گئی تھیں، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں کتابیں شائع کرنے اور پڑھنے کی شرح افسوس ناک حد تک کم ہے، مجھے اس بات پر حیرت کیوں ہوگی کہ لوگوں کی اکثریت نے ایسی رپورٹیں نہیں پڑھیں۔
درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ لڑکوں کا انتہاپسندگروہوں میں شمولیت اختیار کرناکوئی نئی بات نہیں۔ اس سے پہلے بھی ایسا ہوچکا ہے۔ مثال کے طور پر 2009ء میں پریڈلائن حملے میں انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کا ایک طالب علم ملوث تھا۔اسلام آباد میں لشکر ِ طیبہ کا ایک اہم عہدیدار نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کا طالب علم ہے۔2012ء میں شمالی وزیرستان میں ہونے والے ایک ڈرون حملے میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ایک لیڈر، جوNED انجینئرنگ کا گریجویٹ تھا، ہلاک ہوگیا ۔ مشرف کے دور ِ اقتدار میں ایک وفاقی وزیر کا بیٹا جہاد پر روانہ ہوا۔ یہ بات بھی فراموش نہ کی جائے کہ دو ایٹمی سائنسدانوں نے افغانستان جا کر اسامہ بن لادن سے ملاقات کی۔
مخصوص تجزیہ نگاری ظاہر کرتی ہے کہ جدید تعلیم یافتہ نوجوان یک لخت نئے رجحان کی طرف مائل ہوگئے اور اس سے پہلے ان کا کسی انتہا پسند تنظیم سے کوئی رابطہ نہ تھا اور یہ کہ وہ محض نظریاتی وجوہ کی بنا پر دہشت گردوں کی صفوں میں شامل ہوئے؛ تاہم ایسا تجزیہ پیش کرتے ہوئے مصنف شاید یہ بھول جاتے ہیںکہ عمر شیخ کا تعلق القاعدہ اور جیش ِ محمد ، دونوںسے تھا۔ پی اے ایف کے ایک ایئرمارشل کا بیٹا، فیصل شہزاد بھی انتہا پسندگروہوںسے تعلق رکھتا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ ہم بھول گئے ہوں، یا بھول جانا چاہیں، ممبئی حملوں میں کردار ادا کرنے کے لیے ڈیوڈ ہیڈلی کو لشکر ِ طیبہ نے تیار کیا اور تربیت دی۔تبصرہ کرنے والے ایک مضمون نگار نے لکھا ہے کہ یہ تعلیم یافتہ دہشت گرد جند اﷲ کی پیداوار ہیں۔ مت بھولیں کہ ہمارے شہری علاقوں ، خاص طور پر کراچی میں جہاد کی ترویج کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا، سلمان تاثیر کی یاد منانے والے انسانی حقوق کے کارکنوں پر بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے حملہ کیا تھا۔
بہت سی جہادی تنظیمیں،خاص طور پر وہ جو ریاست کی پراکسی کے طور پر کام کرتی ہیں، شہری علاقے میں واقع تعلیمی اداروں، جیسا کہ پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بہت توانا موجودگی رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی میں NED انجینئرنگ یونیورسٹی اور ڈائو میڈیکل کالج ماضی میں جہادی تنظیموں کے مراکز تھے۔ جیشِ محمد اور لشکر ِ طیبہ جیسے گروہوں نے مدرسوں سے تربیت یافتہ طلبہ کی بجائے زیادہ تعلیم یافتہ طلبہ کی طرف توجہ مرکوز کرلی ۔ یہ تنظیمیںزیادہ منظم ہونے اور بہتر ڈھانچے رکھنے کی وجہ سے تعلیم یافتہ افراد کے لیے پرکشش ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر لشکر طیبہ، ڈاکٹروں، انجینئروں، کسانوں اور فیکٹری مزدوروں کی ایسوسی ایشنز سے گہری وابستگی رکھتی ہے۔ چند ماہ پہلےT2F(دی سیکنڈ فلور) میں ایک فرانسیسی مصنفLaurant Gayer نے حاضرین کو بتایا کہ کراچی کی مزدور یونینوں میں اہل ِ سنت و الجماعت بہت طاقتور موجودگی رکھتی ہے۔
عطیات دینے والی طبیعت رکھتے ہوئے ہم سوچتے ہیں کہ غربت، جہالت اور ناقص حکمرانی کی وجہ سے انتہاپسندی اور جہاد ی کلچر فروغ پارہا ہے۔ اسلام آباد میں سرگرم ایک تھنک ٹینک میں یہ بات بھی کہی گئی کہ دہشت گردی کے پیچھے خوراک کی کمی کا مسئلہ کارفرما ہے۔ تاہم جن تعلیم یافتہ لڑکوں کی ہم بات کررہے ہیں وہ غربت اور فاقہ کشی کا شکار نہ تھے، بلکہ ان میں اکثر خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے والدین یا خاندان کا کوئی باثر شخص یاتو انتہا پسند سوچ کا حامل تھا یاوہ جہادی تنظیموں کی مالی سرپرستی کرتا تھا۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی جہادی فنانسنگ‘ پھیلتے ہوئے درمیانی طبقے کی نشاندہی کرتی ہے۔ تاجر اور دکانداربالعموم انتہا پسندی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ تاریخی طور پر ،یہ طبقہ ہمیشہ سے دائیں بازو، جیسا کہ 1977ء کی نظامِ مصطفی اور پھر قادیانی مخالف تحریکوں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ یہ لوگ نہ تو جاہل ہیں اور نہ ہی فاقہ کشی کا شکار ۔ ان کے بچے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ درحقیقت ہمارے ہاں نئے ابھرنے والے اشرافیہ طبقے کاجھکائو مجموعی طور پرمذہبی انتہا پسندی کی طرف ہی ہے۔ باریک بینی سے جائزہ لینے پر پتہ چلے گا کہ کراچی کے اہم مدرسے،جیسا کہ مدرسہ بنوریہ اور بہت سے دوسرے، صرف غریبوں کے بچوںکے لیے نہیں بلکہ خوشحال درمیانی طبقے کے لیے بھی ہیں۔ ایک اور حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ایسے مدرسوں میں مذہبی اور روایتی تعلیم (انگریزی، سائنسز اور کمپیوٹر وغیرہ) دونوں دی جاتی ہیں۔ اس طرح یہ مدرسے ملک کے تعلیم یافتہ اور خوشحال افراد کے لیے بہت پرکشش بن جاتے ہیں۔ بہت سے افراد جو بیرونی ممالک میں کام کرتے ہیں، وہ اپنے بچوں کو ایسے مدرسوں کے ہاسٹلز میں بھیج دیتے ہیں۔
غریب(نہ کہ غربت) سے نفرت کرتے ہوئے ہم اس بات پر توجہ دینے کی زحمت نہیں کرتے کہ مخصوص قسم کے انگلش میڈیم سکول بھی اعلیٰ درجے کے مدرسوںکے سوا کچھ نہیں ۔ ایسے سکول اپرمڈل کلاس اور بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کے بچوں کا اعتماد حاصل کرلیتے ہیں۔ حال ہی میں مشہور مصنف حسین حقانی نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے ان اقدامات کا ذکر کیا جن کی مدد سے پاکستان میں تبدیلی برپا کرتے ہوئے اسے ایک فعال اور بہتر قوم بنایا جاسکتا ہے۔ اُنھوں نے ہمارے ہاں پرانے دقیانوسی نظریات ترک کرتے ہوئے موضوعات کو منطق سے زیر ِ بحث لانے اور معقول رویے اپنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ میں اس بات کو آگے بڑھانا پسند کرتی اور اُن سے سوال کرتی کہ جو معاشرے اور ریاستیں اپنے اندر خاموش یا فعال انتہا پسندی رکھتی ہوں ، وہاں تبدیلی کیسے ممکن ہے؟
اس مقام پر ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہماری قوم پرستی اور انتہا پسندی باہم مربوط ہوچکے ہیں۔ معاشرے میںانتہا پسندتنظیموں اور ان کے رہنمائوں کے خلاف بہت کم مزاحمت باقی ہے۔ دیکھا جاسکتا ہے کہ انتہا پسندرہنما ٹیلی ویژن، سوشل میڈیا، اخبارات کو انٹرویوز اور بنایات دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کے لیے آزاد ہیں کہ وہ ریاست اور اس کے مذہبی نظریات کے محافظ ہیں۔ اس طریقے سے انتہا پسند معاشرے تک اپنا موقف پہنچا کر اُسے اپنے نظریات سے ہم آہنگ کر لیتے ہیں۔ ایک حوالے سے انتہا پسندی اور جہادی تصورات ہمارے خون میں بھی شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد مذہب کی طرف مائل ہورہی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے تمام نوجوان جہادی تنظیموں کی صفوں میں شامل ہوکر جہاد شروع کردیںگے، لیکن جب معاشرے میں ایسے افراد کی موجودگی بڑھ جائے گی جو جہادی نظریات کے حامی ہیں تو کیا یہ بات قابل ِ تشویش نہیں ہوگی؟ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہمارا نظام ِ تعلیم انتہا پسندی کی طرف راغب کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔