بالی ووڈ کی حالیہ دنوں ریلیز کردہ فلم، بجرنگی بھائی جان پر امریکہ میں مقیم ایک بھارتی تارک ِوطن کی تنقید سننے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ دراصل لوگ وہی کچھ دیکھتے ہیں اور اُنہیں وہی کچھ نظر آتا ہے جو وہ دیکھنے کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ وہ صاحب، جو بھارتی کالم نگار ہیں، اس بات پرغصے میں تھے کہ فلم میں پاکستانیوں اور بھارتیوںکو ایک جیسا دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بے شک گزشتہ 68 برسوں کے دوران مختلف سیاسی تاریخ رکھنے اورنظریات کو پروان چڑھانے کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے مختلف ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری قیادتوں نے بھی ہمارے ارد گرد عدم تحفظ کا احساس پھیلاکر فولادی پردے تعمیر کردیئے۔ تاہم یہ معروضات فلم کا موضوع نہیں۔ درحقیقت، اس میں سرحد وں کا احترام دکھایا گیا ہے۔ فلم کے آخری سین میں پاکستانی کشمیر کے لوگ زبردستی بارڈر گیٹ کھول دیتے ہیں تاکہ ایک چھ سالہ بچی کو اس کے والدین تک پہنچانے کے لیے اس طرف آنے والا ہیرو واپس جاسکے۔ مجموعی طور پر لوگوں کی وابستگی اپنے اپنے علاقے کے ساتھ ہی ہے۔ وہ کوئی ''دیوار ِ برلن‘‘ نہیں گرانے جارہے۔
یہ فلم بجرنگی بھائی جان، جو ایک نیک دل اور سادہ شخص جو ہندو دیوتا ہنومان کا عقیدت مند ہے، کے بارے میں بتاتی ہے۔ وہ قوت ِ گویائی سے محروم ایک چھ سالہ لڑکی، جو بھارت میں اپنے والدین سے حادثاتی طور پر بچھڑ گئی تھی، کو اُس کے والدین تک پہنچانے کے لیے غیر قانونی طریقے سے پاکستانی علاقے میں آجاتاہے۔بھارتی نقاد کا خیال ہے کہ یہ فلم غیر حقیقی صورت ِحال کو بیان کرتی ہے کیونکہ ایک بھارتی، جو پاکستانی علاقے میں بھی اپنی ہندو شناخت کو نہیں چھپاتا، کس طرح بارڈ ر پار کرکے پاکستانی علاقے میں جا کر زندہ بچ کر واپس آسکتا ہے؟یہ تنقید اپنی جگہ پر لیکن ہم حقیقی زندگی نہیں بلکہ کمرشل بنیادوں پر بننے والی ایک ہندی سینما فلم کی بات کررہے ہیں۔ بالی ووڈ کی فلمیںدیکھنے والے جانتے ہیں کہ ان میں کس قسم کی دیومالائی اور غیر حقیقی صورت ِحال پیش کی جاتی ہے۔
تاہم مشکل ترین باتیں کہنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اُنہیں سادہ ترین طریقے سے کہا جائے۔ بجرنگی بھائی جان یقینا جنوبی ایشیا کے سخت گیر سیاسی حقائق،جہاں تباہی کے امکانات ہمہ وقت اعصاب کو چٹخنے کی حد تک کشیدہ رکھتے ہیں،کا احاطہ کرنے کے لیے نہیں بنائی گئی۔ نہ ہی فلم یہ کہتی ہے کہ ہم ایک ہیں۔ ہاں، یہ ہمیں جغرافیائی قربت کا احساس ضرور دلاتی ہے اور یہ قربت گزشتہ کئی عشروںسے باعث تنازع رہی ہے۔ پاکستان کا بہترین دوست تو چین ہے لیکن کیا کیا جائے، پاکستان کے لوگ چینی فلموں کی بجائے بالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں۔ اس کے باوجود زیادہ ترافراد ایک دوسرے کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے بارے میں یا تو فلموں میں دکھائے جانے والے دیومالائی واقعات سے اخذکردہ رائے رکھتے ہیں یاہمہ وقت غصے سے بھرے رہنے والے اینکرز کے پھیلائے ہوئے خبط سے آلودہ سوچ سے۔ اس پس ِ منظر میں فلم صرف یہ کہتی ہے کہ ہوسکتا ہے کہ عام لوگ ایسے غیرمرئی مسائل کا شکار رہوںجن کے حل کے لیے عشروں سے حائل بیوروکریٹک سوچ کو شکست دینے کے لیے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دوٹوک اور بے کیف قوم پرستی کی بجائے جذباتی انسان دوستی اورباہمی احترام کو پروان چڑھانا ہوگا۔
کوئی شخص بھی آرام سے بیٹھ کر ان چیزوں کی فہرست تیار کرسکتا ہے جو اس کے نزدیک اس فلم میں حقیقت سے بعید ہیں۔ فلم میں ہیرو ، سلمان خان، ہندوتوا کی نمائندگی کرتا ہے جو کہ پاکستان کے تصور کے خلاف ہے۔ کیا ہم نے نہیں جانتے کہ بھارت میں دائیں بازو کے ہندو وں کے دبائو کی وجہ سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے کتنے فنکاروں کے شوز ملتوی کرنے پڑے؟تاہم اس ضمن میں یہ فلم ایک تخیلاتی تجربہ قرار دی جاسکتی ہے۔ اس نے بھارت اور پاکستان، دونوں ممالک میں دائیں بازو کی سوچ کونرم کرنے کی کوشش کی ۔ فلم کا ہیرو پاون چاترودی(سلمان خان) قوتِ گویائی سے محروم چھ سالہ بچی کو لاچار حالت میں دیکھتا ہے۔ اُسے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک پاکستانی مسلمان ہے۔ اسی طرح جب وہ بچی کو اُس کے والدین کے پاس چھوڑنے کے لیے پاکستانی علاقے میں آتا ہے توپولیس کی گرفتاری سے بچنے کے لیے ایک مسجد میں چھپ جاتا ہے جہاں کا مولوی اُس کے لیے دروازہ بند نہیں کرتا بلکہ اُسے چھپنے اور پھر فرار ہونے میں مدد دیتا ہے۔
ادب کی طرح فلم بھی فکشن ہوتی ہے جو ہمارے تخیل کی اُن امکانات تک رسائی میں مدددیتی ہے جو حقیقی زندگی میں ممکن نہیں ہوتے ۔ بجرنگی بھائی جان نہ صرف بھارت اور پاکستان کی کہانی ہے بلکہ یہ دونوں آزاد ریاستوں کے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے سماجی حقائق پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔ یہ ہندو انتہا پسندی کو آشکار کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ اس کا نظریاتی دھارا کس طرح بھارت میں رہنے والے مسلمانوںکو متاثر کرتا ہے۔ کرینہ کپور کے والد کا کردار ادا کرنے والا شرات سکسینا مسلمانوں کو اُسی طرح مقامات کرائے پر نہیں دیتا جس طرح حقیقی زندگی میں مہاراشٹراکے علاوہ دہلی میں بھی ایک معمول ہے۔اس طرح یہ فلم ہندو قوم پرستی کے ساتھ ایک مکالمہ کرتے ہوئے اسے اپنے سخت گیر نظریات تبدیل کرنے کا کہتی ہے۔ فلم کی ہیروئین، راسیکا(کرینہ کپور)ہیرو کو احساس دلا کر اپنے سخت گیر والد کو ہلا کر رکھ دیتی ہے کہ اُنہیں ایک چھ سالہ بچی کو سخت گیرمذہبی آئینے کی بجائے لچک دار انسانی قدروں کی روح کے مطابق دیکھنا ہوگا ۔شاہدہ نامی اُس بچی کا کردار ہارشالی ملہوترا نے ادا کیا ۔ شاہدہ کی مذہبی شناخت اُس وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ سبزیوں کے برعکس دیگر خوراک کی طرف راغب پائی گئی اور ایک مزار پر دعا کرنے گئی جیسے وہ اپنی والدہ کو کرتے ہوئے دیکھ چکی تھی۔ تاہم راسیکا، جس کا کردار نسائی قدروں کے حوالے سے پروان چڑھتا ہے ، ایک گونگی بچی کی ضروریات پر فوکس رکھتی ہے نہ کہ نظریاتی اختلافات پر۔
یہ فلم نہ صرف ہندوتواکوانسانی اقدار کے رنگ میں پیش کرتی ہے بلکہ دائیں بازو کے ہندوئوں کو بھی احساس دلاتی ہے کہ بھارت میں مقیم اقلیتوں کے علاوہ پاکستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کے اور طریقے بھی ہیں۔ اور ایسی منفی سوچ دونوں طرف ہے۔ ہمیں پاکستان میں بھی اس بھارتی کالم نگار جس کا میں نے حوالہ دیا ، کی سی سوچ رکھنے والے مل جاتے ہیں، جو اس فلم پر مشتعل تھے اور اُنھوں نے اسے پاکستان میں ممنوع قرار دینے کی کوشش کی۔ عقل حیران ہے کہ ایسا کیوں ہے کیونکہ یہ غیر معمولی فلم حساس معاملات کو چھیڑے بغیر پاکستان کے ساتھ مراسم بڑھانے کا درس دیتی ہے۔ جس طرح یہ ہندوتوا کو نرم انداز میںپیش کرتی ہے، یہ پاکستانی سکیورٹی اسٹبلشمنٹ کا بھی نرم چہرہ سامنے لاتی ہے۔ جب ایک مرتبہ بارڈ ر پر تعینات آفیسر بجرنگی بھائی جان کے ارادے سے آگاہ ہوجاتا ہے تو اُسے خفیہ طریقے سے پاکستانی علاقے میں جانے کی اجازت دے دیتا ہے۔ اگرچہ بعد میں بجرنگی بھائی جان پکڑے جاتے ہیں اور اُن پر تشدد بھی ہوتا ہے لیکن کچھ افسران اُن کے ساتھ ہمدردی کرتے ہوئے اُنہیں فرار کا موقع دیتے ہیں۔
یہ فلم انسانی المیے کے پس ِ منظر میں پاکستان کے سرکاری موقف کو چیلنج کرتے ہوئے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے مذاہب اور سماجی اقدار کے احترام کا درس دیتی ہے۔ اہم بات یہ کہ ایسا کرتے ہوئے یہ عام پاکستانی کی توہین نہیں کرتی۔اسی وجہ سے یہ فلم پاکستان میں بھی بے حد پسندکی جارہی ہے۔ اس میں نرم سفارت کاری کا ایک پہلو بھی موجود ہے۔ ایک چھ سالہ بچی کو ایک دائیں بازو کے ہندو گھرانے میں پاکستانی پرچم کو چومتے ہوئے دکھانے والا منظر بہت سے پاکستانیوںکے دل میں بھارت کے ساتھ امن و آشتی کی اہمیت کو اجاگر کرسکتا ہے۔ ایک حوالے سے اس فلم میںہندوتوا پاکستان کے تصور کے ساتھ سمجھوتہ کرتادکھائی دیا۔ ہمارے خطے میں سوچ کی ایسی تبدیلی کی بہت گنجائش موجود ہے۔ یہ فلم یقینی طور پرجامد نظریات پر ضرب لگاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرحد کے دونوں طرف انتہائی نظریات رکھنے والے اس کے خلاف ہیں۔ موجود تنائو اور سکیورٹی کشیدگی کے عالم میں اسے ہوا کا خوشگوار جھونکا قراردیا جاسکتا ہے۔