ظلم اور جبر کا ثمر

ایک وقت تھا‘ جب پاکستانی قومیت کے تین محور تھے... اسلامی شناخت، کشمیر اور ایٹمی ہتھیار۔ اب اس فہرست میں کچھ اور معروضات کا اضافہ ہو چکا، جیسا کہ ریاست کو محفوظ اور مضبوط بنانے کا ایجنڈا۔ جہاں تک ریاست کو مضبوط اور محفوظ بنانے کا تعلق ہے‘ تو اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہاں سے غربت کی تمام علامتیں ختم کر دی جائیں‘ تاکہ ملک جدید اور خوشحال دکھائی دے اور سزائے موت کی حمایت کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کے عفریت سے نجات پانے کا واحد اور موثر ذریعہ قرار دیں‘ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ اگر سزا پانے والے افراد کی اکثریت دہشت گرد نہیں، نہ ہی اس بات پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ ریاست کی بد اعمالیوں کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہوتا ہے یا پھر دہشت گردی سے ہٹ کر، عام جرائم میں ملوث افراد کو سزا دینے کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے جاتے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس معاشرے میں اُن افراد کو ہی سزا ملتی ہے جو انصاف کو خریدنے یا اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی اسطاعت نہیں رکھتے؟ سوال یہ ہے کہ اس طرح لوگوں کے دلوں میں قانون کا احترام یا سزا یا احتساب کا خوف کس طرح پیدا ہو گا؟ زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کراچی میں ایک نوجوان غریب شخص کو ہلاک کرنے والے اس لیے صاف بچ گئے تھے کہ ان کا تعلق ایک اہم ادارے سے تھا۔ اس کی طرح کی بے شمار اور بھی مثالیں ہیں۔ 
جس جگہ انصاف صرف اشرافیہ کے مفاد کا تحفظ کرے، وہاں لازمی طور پر تشدد جنم لے گا۔ کم از کم اسلام آبادکی کچی آبادی، آئی الیون کے مکینوں نے یہی کچھ سوچا ہو گا‘ جب بلڈوزر اُن کے گھروں کو مسمار کر رہے تھے۔ اُن افراد کو پنجاب یا دارالحکومت میں کسی دوسری جگہ، جہاں اُن کے رشتے دار رہتے ہوں، جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہیں اسلام آباد میں اتنی دیر تک قیام کرنے کے گناہ کی پاداش میں ایک بچے کی ہلاکت کا صدمہ سہنا پڑا۔ ان افراد کی اکثریت کا تعلق، جیسا کہ اکثریت کا خیال ہے، افغان نسل سے نہیں تھا، بلکہ یہ لوگ پاکستانی تھے اور متعلقہ ادارے نے عدالت کے سامنے اس حقیقت کو تسلیم کیا تھا۔ ان افراد کا واحد گناہ غربت اور ایک مخصوص نسل سے ہونا تھا اور بدقسمتی سے اس نسل کو آج کل دہشت گردی کے ساتھ مربوط کیا جاتا ہے۔ ان بے گھر ہونے والے افراد سے کہا گیا کہ وہ جہاں سے آئے تھے، واپس وہیں چلے جائیں۔ 
اگر خدانخواستہ برطانیہ، یورپ کے کسی ملک حتیٰ کہ اسرائیل میں ایسی کارروائی ہوتی تو اس ایکشن کو نسلی تعصب قرار دیا جاتا۔ ہمارے ہاں ایسی صورت حال نہیں‘ کیونکہ ہم غریب افراد کو نکال کر اپنی غربت دور کرنے کی کوشش میں ہیں۔ آئی الیون کی کچی آبادی کو بے دخل کرنے میں یہی سوچ کارفرما تھی۔ اس کیس کو تحریک اس وقت ملی جب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک شخص نے نادرا کے خلاف درخواست دی کہ اس نے اُسے قومی شناختی کارڈ جاری کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بعض نامعلوم وجوہ کی بنا پر فاضل عدالت نے مقامی انتظامیہ اور وزارت داخلہ کو اس کیس میں فریق بنا لیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تو صرف ابتدا ہے، اسلام آباد کی تمام ''بد نما‘‘ کچی آبادیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا منصوبہ بن چکا۔ 
دنیا کی دوسری ریاستیں بھی شہری علاقوںکو اشرافیہ کی رہائش کے لیے موزوں بناتی رہتی ہیں، لیکن اس طرح کا طرز عمل اختیار نہیں کرتیں جیسا کہ آئی الیون کے رہائشی افراد کے ساتھ کیا گیا۔ جیسا کہ کہا گیا، یہ صرف ابتدا ہے، متعلقہ ادارہ اسلام آباد کے ارد گرد غیر قانونی طور پر مقیم 85,000 غریب افراد کو بے گھرکرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے حکام نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے ایک منصوبہ پیش کر دیا ہے۔ چند دن پہلے بہاولپور میں بھی ایسی ہی کارروائی ہوتی دکھائی دی۔ ممکن ہے کہ اس وقت انتہائی فعالیت کا مظاہرہ کرنے والی وزارت داخلہ عدالت کو یہ باور کراتی دکھائی دے کہ معاشی طور پر کمزور افراد کی وجہ سے قومی سلامتی کو خطرہ ہے۔ ماضی میں ان علاقوںسے کچھ دہشت گرد پکڑے گئے ہوں گے، لیکن یقینا آج، جبکہ ان غریب افراد کو بے دخل کیا جا رہا ہے، ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے کہ میں اسلام آباد کو ایک صاف ستھرا پوش علاقہ، جس میں غربت کی بدصورتی نہ ہو، بننے کے تصور سے خوش ہوتی اگر مجھے ایسے ہی غریب، کمزور اور سماجی اور سیاسی طور پر پسماندہ افراد کے بارے میں ایک اور عدالتی فیصلے کا علم نہ ہوتا۔ ستمبر 2003ء میں عدالت نے پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ بریگیڈیئر کو یاد دلایا کہ وہ غریبوں کا خیال رکھے۔ یہ اُس وقت کا مشہور، لیکن اب فراموش کردہ فیصلہ بریگیڈیئر بشیر بالمقابل عبدالکریم کیس کا ہے‘ جس میں سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ (بہاولپور بنچ) کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا‘ جس کے تحت مذکورہ افسر کو 0.375 ایکڑ زمین دی گئی تھی۔ 1993ء میں صوبائی حکومت نے زمین کی ملکیت چیک کیے بغیر جی ایچ کیو کو 33, 866 ایکٹر زمین الاٹ کر دی۔ اس زمین کا کچھ حصہ پہلے ہی بے زمین ہاریوں کو الاٹ کیا جا چکا تھا۔ بریگیڈیئر بشیر اس بات پر ناخوش تھے کہ ان کو الاٹ کردہ 49.5 ایکڑ میں سے تین کنال زمین ایک بے زمین ہاری عبدالکریم کو الاٹ کر دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے ڈسٹرکٹ کولیکٹر کی سرزنش کی کہ اُس نے ایک بے زمین شخص کو الاٹ ہونے والی تین کنال زمین جبری طور پر ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کو کیونکر الاٹ کر دی، حالانکہ لکھا ہوا تھا کہ یہ زمین الاٹ نہیں کی جا سکتی۔ عبدالکریم کو زمین کاشت کرنے کے حقوق دیتے ہوئے فاضل عدالت نے ایک غریب کسان کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش میں اُس بریگیڈیئر کو بھی ڈائٹ پلائی۔ اس فیصلے میں امریکی مصنف جان سٹین بیک (John Steinbeck) کے ناول ''Grapes of Wrath‘‘ کا حوالہ بھی شامل کیا گیا۔ 
''بڑے مالکان، جو انتشار کے دور میں اپنی زمین کھو دیں، اور بڑے مالکان کو آنکھیں کھول کر تاریخ کا یہ سبق یاد رکھنا چاہیے کہ جب بھی جائیداد چند ہاتھوں میں جمع ہو جائے تو یہ چھین لی جاتی ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ جب زیادہ تر افراد بھوک کا قہر برداشت کر رہے ہوں تو پھر وہ اپنی ضرورت کی چیزیں چھین لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق اس حقیقت کی چیخ چیخ کر منادی کر رہے ہیں کہ جبر کے نتیجے میں مجبور افراد متحد اور توانا ہو گئے۔ بڑے مالکان تاریخ کی تین صدائوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جب زمین چند ہاتھوں تک محدود ہو گئی تو لازمی طور پر بے زمین ہونے والوں کی تعداد بڑھ گئی، اور اُس عالم میں بڑے مالکان کا ہر اقدام جبر پر مبنی دکھائی دیا۔ انہوں نے دولت سے ہتھیار خریدے تاکہ اپنی جائیداد کی حفاظت کر سکیں۔ اسی طرح جاسوس رکھے گئے تاکہ بغاوت کرنے والوں کی پیشگی اطلاع حاصل کرکے اُن کی سرکوبی کی جا سکے۔ تبدیل ہوتی ہوئی معیشت کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیا گیا، منصوبے پس پشت ڈال دیے گئے کیونکہ تبدیلی کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی جبکہ تبدیلی کی وجہ اپنی جگہ پر موجود رہی۔‘‘ افسو س کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کیس کا کبھی حوالہ نہیں دیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکمران اسے بھُلا دینے میںہی اپنا بھلا سمجھتے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں