ایک جنرل کی باقیات

جنرل حمید گل کی وفات کی خبر سن کر عجیب سا احساس ہوا، کم و بیش ویسا جیسا ستائیس سال پہلے17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء کے جاں بحق ہونے کی خبر سن کر ہوا تھا۔ اس وقت کسی کو بھی یقین نہیں تھا کہ جنرل ضیاء کبھی قومی منظر سے غائب ہوںگے اور جس طرح سے وہ دنیا سے رخصت ہوئے وہ تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ اگر آج قدرت کسی طور دودن انتظارکرلیتی تو لوگ ان جنرلوں۔۔۔۔۔ ضیاء الحق، اختر عبدالرحمان اور حمید گل کو تاریخ (ہر دو معنوں میں) کے اعتبار سے بھی یاد رکھا جاتا۔ 
سٹریٹیجک فکر میں اختلاف رکھنے کے باوجود حمید گل ایک ایسے انسان تھے جن کے ساتھ آسانی سے بات چیت کی جاسکتی تھی۔ ان کے بہت سے ہم عصر اور جانشین انتہا پسندوںکی معاونت کی تردید کرتے ہیں لیکن حمید گل سینہ تان کر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوںکو آ گے بڑھانے کی ذمہ داری قبول کرتے۔ وہ اپنے ادارے کی پالیسیوں، جو ملک و قوم کو بہت مہنگی پڑیں،کی ذمہ داری لیتے لیکن اس قیمت کی بات نہ کرتے جو ملک و قوم کو ادا کرنا پڑی۔جب کہا جاتا کہ وہ اسلامی مجاہدین تشکیل دینے اور جہاد کو پروان چڑھانے کے ذمہ دار ہیں تو وہ بالکل برا نہ مناتے۔ مجھے یاد ہے،2001 ء میں ان سے معاشرے میں اسلحے کی نمائش کا رجحان ختم کرنے کے موضوع پر بات کرنے کا موقع ملا تواُنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی مجاہدین سے بات ہوئی ہے کہ وہ قانون کی پابندی کرتے ہوئے فوج کے ساتھ الجھنے سے گریزکریں۔جب بھی ملک میں کوئی سیاسی بحران سراٹھاتا تو وہ بہت جوش میں آ جاتے۔انہیں ایسے لگتا جیسے ریاست اور معاشرہ اپنی اصل منزل یعنی اسلامی حکومت بلکہ بے پناہ قوت کی حامل اسلامی قلمرو بننے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ 
اگرچہ جنرل حمید گل1990ء کے بعد آئی ایس آئی میں نہیں رہے، لیکن وہ اور مرزا اسلم بیگ جی ایچ کیو میں پروان چڑھنے والی اُس سوچ کا حصہ تھے جو مستعمل پالیسی کے خد وخال وضع کرتی تھی۔ جی ایچ کیو کا ایک پالیسی پیپر : '' 1990کا خلیجی بحران ‘‘ جس میں جنرل گل کا بھی حصہ تھا، اپنی توسیع شدہ شکل میں ایک ایسا تصور بناتا دکھائی دیا جس کے مطابق پاکستان نہ صرف ایک اہم علاقائی بلکہ اسلامی بلاک کی ایک موثر طاقت بن کر سامنے آئے گا۔اس منصوبے کے مطابق بھارت کے ساتھ جنگ کی صورت میں افغان مجاہدین کو اضافی عسکری طاقت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اس لیے حیرت کی کوئی بات نہیں کہ حمید گل کے بعد آنے والے ان کے خفیہ ادارے کے سربراہ جو لبرل اور متعدل سوچ کی نمائندگی کرتے ہیں‘ نے 2008ء میں بیت اﷲ محسود جیسے جنگجوئوںکو نہ صرف محب ِوطن قرار دیا بلکہ طالبان کے جہاد کے حق کو بھی تسلیم کیا۔ 
اپنی ذاتی زندگی میں بہرحال حمید گل کوئی بنیاد پرست نہیں تھے، لیکن اس طرح تو ضیاء الحق بھی کٹر ملاّ نہ تھے۔ مذہب کی پیروی کرنے کا کام اُنہوں نے عام لوگوںسے کروایا، لیکن یہ جنرل اپنے اہل خانہ کی حد تک مذہب کے حوالے سے تنگ نظر نہ تھے۔ بے شک ضیاء الحق، اختر عبدالرحمن اور حمید گل مذہب کے سماجی پہلو پر یقین رکھتے تھے لیکن ان افسران نے مذہب کو سٹریٹیجک مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ایک مختلف پہلو تلاش کیا۔کچھ لوگ کہیں گے کہ پاکستان کی تمام قیادت نے، چاہے وہ فوجی ہو یا سویلین، سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال کیا، لیکن 1980ء کی دہائی میں اس ملک پر حکمرانی کرنے والے افراد نے مذہب کے استعمال کو ایک مختلف سطح پر پہنچا دیا۔اگر 1980ء کی دہائی تبدیلیوں کے لحاظ سے انتہائی اہم دور تھا تو یہ جنرل یقیناً اس کا حصہ تھے اور اُنہوں نے اپنے ادارے میں ایک واضح سٹریٹیجک سوچ کو راسخ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ تاہم جن روایات کو اُنہوں نے آگے بڑھایا وہ ان کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہوئیں۔ بہت سال بعد، 2009ء میں، جب میں نے ایک اور آرمی چیف کا انٹرویوکیا تو اُنہوں نے بتایاکہ سوات کو کس طرح شرعی قوانین کے تحت کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ باقی ملک اپنے معمول کے مطابق چلتا رہے لیکن سوات میں شریعت نافذ کردی جائے۔ یقیناً یہ حمید گل کی سوچ کا تسلسل تھا کہ مذہبی انتہا پسندی کواستعمال کیا جائے لیکن چھائونیوں اور دیگر اہم علاقوں سے دور رکھا جائے۔ وہ ''اثاثوںکوکنٹرول کرنا‘‘جانتے تھے، ان کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ رابطے میں رہ کر انہیں بے قابو ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔ حمید گل کے مطابق پرویز مشرف کی امریکہ نواز پالیسی کی وجہ سے ہمارے انتہائی اہم اثاثوںکے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوا۔ اگروہ دیکھتے کہ اُن کے بعد آنے والے افسر بھی اُسی پرانی پالیسی کو آگے بڑھا رہے ہیں تو وہ نہایت طمانیت اوراحساس تفاخرکے ساتھ جان، جان آفرین کے سپردکرتے۔
اس سے پہلے جنرل گل اور اُن کے بہت سے ساتھیوں نے 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں امریکی جنگ ہی لڑی تھی۔ اس وقت بہت سے افسر جوش و خروش سے بتایا کرتے تھے کہ ماسکو افغانستان کے بعد پاکستان پر بھی چڑھائی کرسکتا ہے، لیکن حمید گل کی سوچ مختلف تھی۔ جب میں نے ان سے پہلی مرتبہ 1994ء میں انٹرویوکیا تو اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت سے مزید پیش قدمی کا اشارہ نہیں ملتا تھا۔ اُن کا بھارتی فوجی مشقوں، براس ٹیک کے بارے میں بھی یہی خیال تھا؛ حالانکہ بہت سے پاکستانی افسر ان مشقوں کو جنگ کا پیشہ خیمہ تصورکر رہے تھے۔ حمید گل کا دعویٰ تھا چونکہ بنیادی طور پر جنرل اختر عبدالرحمن اورکے ایم عارف کے پاس کورکمانڈنگ کا تجربہ نہ تھا، اس لیے وہ بارڈر پر فوجوںکی حرکت کا درست اندازہ لگانے میں غلطی کرگئے۔ جنرل حمید گل کاکہنا تھا کہ بھارتی عزائم کو جانچنے کے لیے سرحد کے قریب ایک سٹرائیک کور تعینات کی جائے، اس اقدام سے سرحدی کشیدگی ختم ہوگئی۔ 
یقینا حمید گل نے فیصلوں کو فوج کی تنظیمی حدود کے اندر رہ کر ہی چیلنج کیا ورنہ اُنہیں گھر کی راہ دکھا دی جاتی ۔ ہمارے پاس اُن افسروں کی تاریخ موجود ہے جنہیں اختلاف کی پاداش میں اپنے اعلیٰ افسروں کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ فوج کو داخلی اور خارجی طور پر انتہائی طاقت ور دیکھنا چاہتے تھے۔ سوویت یونین کے خوف کا ہوّا کھڑا کرکے مفاد حاصل کرنے والوں میں حمید گل بھی شامل تھے۔ جب رقم اوراسلحے کی رسد شروع ہوئی تو آئی ایس آئی اور فوج کی کم شدت کی جنگ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہونے لگا۔ حمید گل کی آئی ایس آئی کے سامنے آفاقی مقاصد تھے۔ ادارے کو اپنے کاموں کے لیے مقامی اور عالمی تاجروں کے علاوہ بہت طریقوں سے فنڈز حاصل کرنے کی آزادی حاصل تھی۔
درحقیقت اُس نسل کے جنرلوں نے پاکستان کی سٹریٹیجک سوچ کو تبدیل کرنے میں اہم کردار اد اکیا۔ سوچ یہ تھی کہ محدود اسلحے کے باوجود محاذ گرم کیا جاسکتا ہے۔ اگر پاکستان سوویت یونین کا شیرازہ بکھیر سکتا ہے (جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے) تو اُسی آپریشنل فارمولے کو دوسرے محاذوں پر آزما کر ویسے ہی نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ حمید گل کا شمار ان افسروں میں ہوتا ہے جن کا خیال تھا کہ افغانستان کو استعمال کرتے ہوئے وسط ایشیائی خطے میں اثر ورسوخ بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ تصور بیرونی جارحیت کی صورت میں ریاست کی جغرافیائی سرحدوںکی حفاظت سے کہیں بڑھ کر تھا، جس مقصد کے لیے پاکستان نے پہلی نسلی کے افغان جنگجوسرداروںکو تربیت دی تھی کہ وہ ستر کی دہائی میں صدر دائود کی حکومت کوکسی جارحانہ اقدام سے روک سکیں ۔ یہ 1980ء کی دہائی تھی جب دفاع اور جارحیت کے معانی بدل گئے۔ اس دور میں علاقے میں بڑی فوج کے ''سٹریٹیجک کردار‘‘ کے بجائے ''سٹریٹیجک سوچ‘‘ کو آگے بڑھانے کا آغاز ہوا۔ چنانچہ جب بعد میں آنے والے خفیہ اداروں کے افسر بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ دنیا پاکستان اور اس کی فوج کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہے تو یہ دراصل حمیدگل کی سوچ کی ہی کارفرمائی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگلی نسل کے جرنیلوں کے کچھ معاملات پر اختلافات کے با وجود فوج میں ضیاء اور حمید گل سے کبھی تعلق نہیں توڑا گیا اور فوج میں ان کے خیالات کی چھاپ ہمیں اب بھی نظر آتی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں