ذہن میں خیال ابھرتا ہے کہ کیا ممتاز قادری کی پھانسی سے پاکستان کی تاریخ کا ایک طویل باب بند ہوگیا یا ایک اور کھل گیا؟یکم مارچ، بزورمنگل اُس شخص، جس نے 2011ء میں سلمان تاثیر کو توہین کے مبہم الزام میں قتل کیا تھا، کی نماز جنازہ اور تدفین کے موقع پر ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اب لاکھوں افراد کو یقین ہے کہ ممتاز قادری، جو سلمان کا باڈی گارڈ تھا، نے اپنے کانوںسے سابق گورنر پنجاب کو توہین آمیز کلمات ادا کرتے سنا تھا۔ آنے والے دنوں میں کچھ اور بھی دیومالائی داستانیں سامنے آئیں گی اور مزید لاکھوں افراد کو یقین دلائیں گی کہ قادری کا اقدام درست تھا۔
اس دوران ہم جیسے بہت سے افراد نے سکون کی سانس لی اور ہمیں یقین آگیا کہ ریاست نے ایک قاتل کو قانون کے مطابق سزا دے کرٹھیک کیا ہے۔ جسٹس کھوسہ کے تفصیلی فیصلے کے مطابق نہ تو سلمان تاثیر توہین کے مرتکب ہوئے تھے اور نہ ہی ممتاز قادری کے پاس قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا کوئی جواز موجود تھا۔ کچھ افراد کا خیال ہے کہ یہ ملک کو درپیش ایک نازک لمحہ تھا‘ لیکن ریاست اس امتحان میں مضبوط قدموں پر کھڑی دکھائی دی۔ ملک اسحاق کو ''ٹھکانے‘‘ لگا کر، اور اب ممتاز قادری کی سزا پر عمل درآمد کرکے حکومت نے ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف لڑنے کے عزم کا عملی ثبوت دے دیا ہے۔ اگرچہ بہت سے افراد کو وزیر اعظم نواز شریف سے اس قسم کے دلیرانہ فیصلوں کی توقع نہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد کا بوجھ انہوں نے ہی اٹھایا ہے۔
کیا ہم پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز دیکھ رہے ہیں؟ نواز شریف صاحب تحسین کے سزاوار ہیں کیونکہ لاکھوں افراد نے ان فیصلوں کی ذمہ داری اُن پر ہی ڈالی ہے۔ آج کل ملٹری اور سول قیادت یقینا ایک ہی پیج پر ہے؛ تاہم کسی نے فوج کی طرف انگشت نمائی کی جسارت نہیں کی لیکن تمام تر غصہ حکومت اور اس کے اہل کاروں پر اتارا جائے گا، جیسا کہ ہم نے وزیر اطلاعات پرویز رشید کے ساتھ ہونے والے سلوک سے دیکھا۔ ہو سکتا ہے کہ اس فیصلے کا نواز شریف کو سیاسی طور پر نقصان ہو کیونکہ جنازے میں شریک بہت سے افراد، جن میں پی ایم ایل (ن) کے رکن بھی شامل تھے، نے اعلان کیا کہ وہ مستقبل میں نواز شریف کو ووٹ ہرگز نہیں دیں گے۔
اس وقت کچھ حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اس فیصلے سے غیرملکی طاقتوں کو خوش کرنا مقصود تھا؛ چنانچہ حکومت نے انصاف کی سربلندی کی بجائے کسی اور کی خوشنودی کا خیال رکھا ہے۔ ایک عام شہری کو بہت سے متحارب اور متضاد تصورات کا پرچار الجھائو میں ڈال دیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ یہ کیس آسیہ بی بی کے بعد شروع ہوا‘ لیکن اسے پہلے کیونکر نمٹا دیا گیا؟ جوڈیشل سسٹم کی عمومی حالت کیسی ہے اور عام شہریوں کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے؟ کیا یہ تاثر درست نہیں کہ عام شہری کی آنکھوں کے سامنے، خاص طور پر ماتحت عدلیہ میں، انصاف بکتا ہے؟ اس کے علاوہ یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ کیا بہت سے مخصوص انتہا پسند ملک میں آزادی سے صرف اس لیے رہ رہے ہیں کہ وہ بعض ریاستی اداروں کے ساتھ کسی نہ کسی حد تک وابستگی رکھتے ہیں؟ فی الحال ریاست دہشت گردی کو مطلق برداشت نہ کرنے کی پالیسی پر عمل کرنے میں بہت کامیاب دکھائی نہیں دیتی۔ مسٹر سرتاج عزیز کے اعلانات کہ تمام انتہا پسندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا‘ اور کسی سے بالکل رعایت نہیں کی جائے گی، نے یقینا بہت سے مخصوص گروہوں کو وارننگ دے دی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ عام شہری سادہ اور بے بس ہوں لیکن وہ بے وقوف ہرگز نہیں۔ اُن کا تاثر یہ ہے کہ اس فیصلے نے بیرونی طاقتوں کو خوش کیا ہے۔
ممتاز قادری کے جنازے اور تدفین کے موقع پر جمع ہونے والے افراد کی تعداد متاثر کن حد تک بہت زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ اشتعال کے باوجود لوگ بہت منظم تھے اور کوئی توڑ پھوڑ اور انتشار دکھائی نہ دیا۔ اس کا مطلب ہے کہ اب لوگوں کو پاکستانی سیاست میں ایک اور ''شہید‘‘ اور مزار مل گیا ہے، جو اُنہیں احتجاج کی تحریک دیتا رہے گا۔ ہو سکتا ہے کہ قادری کا مزار اُن افراد کے خلاف جنگ کا مرکز بن جائے جو پاکستان میں مغربی لبرل ازم اور سیکولر سوچ کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے لبرل اشرافیہ اور دقیانوسی اور انتہا پسند اشرافیہ کے درمیان ایک تقسیم کی لکیر موجود ہے، لیکن اب یہ مزید گہری ہو جائے گی۔ جب بیانیہ اور تصورات لوگوں کو تقسیم کر دیتے ہیں تو یہ معاشرے کے لیے کوئی اچھی علامت نہیں ہوتی۔
سیاسی طور پر نواز شریف نے ہو سکتا ہے کہ ملک اور بیرونی دنیا میں بہت سے دل جیت لیے ہوں لیکن یہ سوچ بھی ذہن میں آتی ہے کہ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے ملک کے دیگر طاقتور سٹیک ہولڈرز کے مقابلے میں اپنی پوزیشن مستحکم کر لی ہے۔ مثال کے طور پر ان کی اور ان کے اہل خانہ کی زندگی کو کچھ خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، لیکن یہ کیفیت دیر تک نہیں رہے گی۔ عام افراد کے لیے یہ کسی عام مجرم کو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق سزا دینے کا معاملہ نہیں بلکہ وہ اسے توہین کے وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک تاثیر کی بے گناہی بھی ایک مبہم معاملہ ہے۔ یہ معاملہ اس معاشرے میں انتہائی نازک سمجھا جاتا ہے جہاں ہر شخص مذہبی شخصیات اور عقائد کے دفاع کے لیے لڑنے مرنے کے لیے تیار رہتا ہو۔ اس وقت لبرل افراد کا بیانیہ گہرائی سے عاری ہے اور سچی بات یہ ہے کہ عام شخص اس بیانیے سے متاثر ہونے والا نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ لبرل حلقوں کی وسعت میں محدود اضافہ دیکھنے میں آئے لیکن عام آدمی اس حلقے سے باہر رہے گا۔
ہو سکتا ہے کہ ریاست میڈیا پر قادری کے موضوع پر پابندی لگا کر اُس کی یادکو وقت کی گرد میں دفن کرنے کی کوشش کرے، اور امید رکھے کہ میڈیا بھی اس کام میں اس کا ہاتھ بٹائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اس مقصد میں کامیاب ہو جائے، لیکن یہ بات فی الحال یقینی طور پر کہنا مشکل ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملے گا کہ ریاست جب چاہے گی، اپنی اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے میڈیا کا گلا دبا سکے گی۔ آج یہ بات قادری کے جنازے تک محدود ہے، کل دیگر معاملات بھی اس کی زد میں آئیںگے۔ جس دوران ہمارے ہمسائے، انڈیا، میں انتشار پھیلا ہوا ہے، ہم زیادہ معتدل مزاج دکھائی دیتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح آوازوں کو دبانا لبرل اور جدید سوچ کی عکاسی کرتا ہے؟ اپنے ارد گرد اسلامی دنیا میں دیکھتے ہوئے آپ کو اندازہ ہو گا کہ جبر سے جدید سے نفرت اور کلچر سے بیزاری کے جراثیم پرورش پاتے ہیں۔ ایسا کرنے سے لوگ کلچر کو مغرب کی پیداوار سمجھ کر اس سے مسترد کرتے رہیں گے۔ بہرحال آواز کو کسی بھی بہانے سے دبانے کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اس مقصد کے لیے ریاست کی اتھارٹی استعمال کرنے کی بجائے میڈیا اور عوام کی سوچ پر اعتماد کیا جانا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ میرے مضمون میں قادری کی حمایت تلاش کر لیں، میں صرف مستقبل کے کچھ خدشات کی پیش بینی کر رہی ہوں۔