امریکہ ،دوست ہے یا دشمن؟

کوئی پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔ میں اپنی زندگی کا پہلا انٹرویو کرنے چلا تھا۔ سامنے امریکہ کے معروف تجزیہ کار پروفیسر سٹیفن کوہن تھے۔ بات پاک امریکہ تعلقات پر ہی ہونا تھی اور میں چاہتا تھا کہ کچھ دوستی یاری والی باتیں ہوجائیں۔ اپنے نئے باس کو مرعوب جو کرنا چاہتا تھا‘ مگریہ ہو نہ سکا۔ جب انٹرویو شروع ہوا تو مجھے اس مشکل کا سامنا ہوا کہ پروفیسر صاحب کسی لگی لپٹی کے بغیر صاف صاف بات کئے جاتے تھے۔ ساتھ ہی چہرے پر ہلکی سی شرارتی مسکراہٹ بھی تھی۔ زیرک آدمی ہیں‘ تاڑ گئے تھے کہ کل کا چھوکرا ہے کچھ بگاڑ نہ سکے گا۔ میں نے قدرے جھنجھلاکریہ سوال داغ دیا کہ بین الاقوامی تعلقات میں اخلاقیات اور دوستی کی بھی کوئی اہمیت ہے کہ نہیں۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ایک دل جلے کا سوال تھا اور مقصد انٹرویو میں تھوڑی گرمی پیدا کرنا تھا۔میں سمجھ رہا تھا کہ کوئی تندوتیز جواب آئے گا۔ مگر یہ کیا۔ وہ انتہائی سنجیدہ ہو گئے اور بولے ''جانتے ہو یہ کتنا عمدہ سوال ہے؟‘‘ پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہنے لگے کہ ''یوں تو ملکوں کے باہمی تعلقات میں ایسے معاملات کم ہی زیر غور آتے ہیں مگر پاک چین دوستی سمیت بعض مثالیں ہیں جن سے ماننا پڑتا ہے کہ ممالک میں دیرینہ دوستی ہو سکتی ہے‘‘۔ پاکستان اور امریکہ کے درمیان رشتے کے بارے میں براہ راست تو کچھ نہ کہا مگربین السطور ضرور کہہ گئے کہ امریکہ بھی اس میں یقین رکھتا ہے۔
دن گزرتے گئے۔ کلنٹن انتظامیہ چلی گئی، بش حکومت آگئی۔ امریکی سیاست میںکائو بوائے کلچر فروغ پانے لگا۔ پھر گیارہ ستمبر کا واقعہ ہواتو حالات کی کایا ہی پلٹ گئی۔طالبان ہمارے ہی چہیتے تھے، انہوں نے ہی اسامہ بن لادن کو پناہ دی تھی جس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ امریکہ پاکستا ن پر ہی چڑھ دوڑے گا۔ بعد کے انکشافات سے ثابت ہوا کہ یہ تاثر درست نہ تھا۔ امریکہ کو پاکستا ن سے توجہ ہٹانے کے لئے حیلے بہانوں کی ضرورت تھی‘ سو مل گئے۔ حملہ افغانستان پر ہوا ۔ ایک برادر ملک پر غیر ملکی تسلط ہم میں سے کئی کو برداشت نہ ہوا۔ کئی بے پر کی اڑنے لگیں۔ امریکہ پاکستان توڑنے آیا ہے۔ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو اچک کر لے جائے گا۔ بھارت امریکہ گٹھ جوڑ اتنا ہے کہ دونوں مل کر ہم پر حملہ کردیں گے۔ ایسے میں اے کیو خان صاحب سے متعلق انکشافات ہوئے۔ بہانہ اچھا تھا۔ اگر کوئی چاہتا تو ہماری زندگی مشکل کی جاسکتی تھی۔ مگر معاملہ رفع دفع کرادیا گیا۔ بھارتی پارلیمان سے لے کر ممبئی تک کئی حملے ہوئے۔ انگلی ہم پر اٹھی۔ بھارت نے ایک سال ہمارے بارڈر پر فوج رکھنے کا شوق بھی پورا کر لیا۔ لیکن حملہ ہوا نہ جنگ چھڑی۔ ظاہر ہے امریکہ نے ہی بیچ بچائو کرادیا۔ ان تمام واقعات کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ افواہوں میں کوئی صداقت نہ تھی۔
پھر بھی نائن الیون سے چلنے والے نفرتوں کے سلسلے کو نئی زندگی مل گئی جب لائرز موومنٹ کے دنوں میں جنرل مشرف کے جذباتی حامی ،جو اس وقت تک امریکہ کے مداح معلوم ہوتے تھے، سازشی نظریات کے تعاقب میں نکل پڑے۔ اس وقت سے آج تک رواج یہ ہے کہ زیادتی کوئی کرے‘ گالی امریکہ کو پڑتی ہے۔ یہاں دھماکہ ہوا ، ذمہ داری طالبان نے قبول کی‘ پر ہم نے امریکی حکومت میں ہی عیب نکالے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ڈرون حملے بھی قابل مذمت ہیں۔ مگریہ بھی تو کوئی اپنے حکمرانوں سے پوچھے کہ پہلے پہل اجازت دی کیوں؟ مارک مزیٹی کی کتاب ''دی وے آف دی نائف (The Way of the Knife) پڑھ لیجیے‘ کئی سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ اورپھر گنتی کر لیجیے، امریکہ نے کتنے پاکستانی شہری اور سرکاری اہلکار مارے اور دہشت گردوں نے کتنے۔ پھر بھی ہمارا عتاب ایک ہی ملک پر پڑتا ہے۔
پھر امریکہ کے بارے میں تصورات بھی عجیب ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ وہاں تھنک ٹینکوں کی حکومت ہے جو سو سال آگے کی سوچتے ہیں، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں مگر پالیسیاں اور منصوبے وہی رہتے ہیں۔یہ بات حقیقت سے کافی مختلف ہے۔ سچ یہ ہے کہ واشنگٹن میں بھانت بھانت کی بولی بولنے والے بے شمار تھنک ٹینک ہیں۔ وہاں لابنگ چلتی ہے۔ کبھی کسی لابی کی بات مان لی جاتی ہے اور کبھی کسی کی۔ اسی طرح سیاسی پارٹیوں کے درمیان بھی رسہ کشی ہے اور پالیسیوں پر بھی خاصا اختلاف۔ یہ اور بات کہ جو جنگ ایک دفعہ شروع ہو جائے اُسے ختم ہونے میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود کافی دیر لگتی ہے۔ اگر آپ امریکہ کی خارجہ پالیسی کو سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ ہنری کسنجر کی کتاب 'ڈپلومیسی‘ کا مطالعہ ضرور کریں۔شاید آپ کو یہ احساس ہو جائے کہ اوپردیئے گئے تصورات میں چنداں صداقت نہیں۔
پھر امریکہ پاکستان کے تعاون کو ہی دیکھ لیجیے۔ دونوں ممالک کے درمیان پہلا دفاعی معاہدہ 1954ء میں ہوا۔ اس وقت ہماری سپاہ کی تعداد بمشکل دو لاکھ ہوگی۔ آج یہ ساڑھے پانچ لاکھ ہے۔پاکستانی افواج کے ارتقائی مرحلے اور امریکی تعاون کا احاطہ شجاع نواز نے اپنی کتاب ''کروسڈ سورڈز‘‘ (Crossed Swords) میں بہت عمدہ طریقے سے کیا ہے۔ہمارے جوہری پروگرام کے متعلق بھی مغربی اور بھارتی میڈیااور مصنفین پہلے ہی یہ الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ نے پروگرام کے دوران جان بوجھ کر نظریں دوسری طرف کرلیں تاکہ پاکستان اپنا کام مکمل کرلے۔ یہ بات یوں تو کچھ عجیب معلوم ہوتی ہے مگر آپ دیکھئے کہ پاکستا ن کے سوا جتنے ممالک نے جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کی‘ وہ آج کہاں کھڑے ہیں۔
یہ بات سچ ہے کہ 1985ء میں ہم پر پریسلر ترامیم متعارف کرائی گئیں جو چند سال بعد نافذ بھی ہوگئیں۔ مگر عجب اتفاق ہے کہ پاکستا ن ان کے متعارف ہونے سے پہلے ہی کولڈ ٹیسٹ کرچکا تھا، یعنی اسے جوہری صلاحیت حاصل ہوچکی تھی۔اور یہ بھی یاد رہے کہ جب 1990ء میں پریسلر ترامیم کی شقوں کا پاکستان پر اطلاق ہوا تو پاکستان کے اندر سول اور ملٹری اداروں میں اتنا فاصلہ پیدا ہو چکا تھا کہ ساری توجہ محلاتی سازشوں پر مرکوز تھی، اور ہمارا کیس لڑنے اور ہمارے لئے لابنگ کرنے پر کسی کی توجہ ہی نہ تھی۔جب اپنے ہی اداروں میں پھوٹ پڑی ہو تو دنیا کو کیا الزام دیا جائے۔
ایک اور الزام یہ بھی لگتا ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے وقت ہم امریکی مداخلت کا انتظار کرتے رہے اور وہ مدد کو نہ پہنچا۔ اس سلسلے میںحال ہی میں شائع ہونے والی گیری باس کی کتاب ''دی بلڈ ٹیلیگرام‘‘ (The Blood Telegram) پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ گو کہ جو نتائج مصنف اخذ کرتا ہے وہ بھارتی پروپیگنڈہ سے متاثر محسوس ہوتے ہیں مگر ایک بات جو اس کو پڑھ کر معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ بین الاقوامی پریس میں پاکستان کے خلاف اتنے سنگین الزام لگ رہے تھے کہ امریکہ پر اس بات کا دبائو تھا کہ وہ دوسری طرف سے مداخلت کرے۔ اورایسے میں کچھ نہ کرنا بھی ایک قسم کی مدد تھی۔ یاد رہے کہ اس جنگ میں ہمارے کسی اور دوست ملک نے بھی تو براہ راست مداخلت نہ کی۔یہ دہائی کا گند تھا جوبالآخر ابل پڑا۔ کسی اور کو کیا الزام دیں۔
آج بات بے بات امریکہ کو گالی دینا فیشن بن گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے؛ چونکہ امریکہ مسلمان ملک نہیں لہٰذا اس سے دوستی نہیں ہو سکتی۔ اگر یہی آنکڑہ استعمال کیا جائے تو ہمارے دیگر دیرینہ دوست مثلاً چین اور جاپان بھی ہمارے ساتھی نہیں کہلا سکیں گے جو کہ درست نہ ہوگا۔پھر اگر کوئی امریکہ کی تعریف ہی کردے تو جھٹ الزام لگ جاتا ہے کہ اس نے ڈالر لئے ہونگے۔ چونکہ میرا تعلق کسی مراعات یافتہ طبقے سے نہیں‘ میں اپنے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میراایسا کوئی سلسلہ نہیں۔ میں اس بات پر ہی خوش ہوں کہ ڈالر ملک میں آئیں اور ملکی ترقی میں لگیں۔ اور یہ سلسلہ تو دہائیوں سے آج تک چل رہا ہے۔ آخر میں‘ میں امریکہ کے بارے میں نتائج اخذ کرنے کا معاملہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔ البتہ اصل سوال تو یہ ہے کہ جو امریکہ کو ہمارا دشمن بتاتے ہیں انہوں نے ہمارے لئے کیا کیا؟ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں