معروف فلسفی اور ماہر عمرانیات میکس ویبر کے مطابق ریاست تبھی ریاست کہلانے کے قابل ہوتی ہے جب اس کے زیر عملداری رقبے پر صرف اسی کے پاس طاقت کے استعمال کی اجارہ داری ہو۔ اسی اجارہ داری سے آئین اور قانون کی کونپلیں پھوٹتی ہیں اور پھر یہی قوانین جزاو قضا کے نظام کی بنیاد بنتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ اجارہ داری بار بار چیلنج ہوتی رہی ہے۔ پھر بھی ریاست کسی نہ کسی طریقے سے اپنی عملداری کو بحال کر ہی لیتی ہے۔
گزشتہ بارہ برسوں کاحال البتہ قدرے مختلف ہے۔ اب کی بار جو وبا پھوٹی ہے‘ اس نے من حیث القوم ہمیں بری طرح تقسیم کر دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عملداری کو چیلنج کرنے والے مذہب کا نام استعمال کرتے ہیں‘ اور یہ کہ گزشتہ چالیس برسوں میں ہماری ریاست نے قومی تشخص کے لئے صرف مذہب پر تکیہ کیے رکھا ہے۔ اس بات کو چھوڑیے کہ یہ فیصلہ صحیح تھا یا غلط ، صرف اس بات پر غور کیجیے کہ مد مقابل قوت کی طرف سے مذہب کے استعمال نے معاشرے اور ریاست کو کس بری طرح جھنجھوڑا ہوگا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سمت نما ساکت ہو جاتا ہے، اور سمت کا تعین ناممکن لگنے لگتا ہے۔ ایسے میں جو راہ کا تعین کر پائے وہی ہیرو کہلاتا ہے۔
اس خلفشار اور فتنہ و فساد کی فضا میں میری کم سن ریاست نے بڑی جدوجہد کی ہے۔ اگر آپ غور کریں تو محسوس ہوگا کہ قلیل سے وقت میں یہ طویل فاصلہ طے کر کے خاصی آگے جا چکی ہے۔ اسی کے ساتھ ریاستی اداروں میں بھی ارتقاء کا عمل جاری ہے۔ یاد رکھیے کہ قومیں تبھی طاقتور بنتی ہیں جب ان کو طرح طرح سے آزمایا جاتاہے۔ پاکستان مسلمانوںکی اکثریت والا ایک اہم ملک ہے، اور ایک جوہری طاقت بھی۔ اس کا وجود تاریخی اہمیت رکھتا ہے اور تہذیبوں کے درمیان پل بندی کے حوالے سے ایک خاص حیثیت بھی۔
ایسے میں ایک طرف وہ ہیں جو اس ملک کو ہر طریقے سے کمزور کرنے پر تلے بیٹھے ہیں، خودکش حملے کرتے ہیں، معصوموںکو ناحق قتل کرتے ہیں، جس مذہب کا نام لیتے ہیںاسی کو بدنام کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے وہ ادارے ہیں جو ان سے برسرپیکار ہیں اور جن کے اہل کار ہماری بقا کے لئے ہر روز جانوں کی قربانیاں دیتے ہیں ۔ اچھائی اور برائی کا تعین اب زیادہ مشکل نہیں ہونا چاہیے‘ مگر ہے۔ بہت مشکل ہے۔
اس کی وجہ وہ ذہنی علامت ہے جسے ماہر نفسیات اسٹاک ہوم سنڈروم Stockholm syndromeکہتے ہیں۔ اس اصطلاح کی بنیاد کچھ اس طرح پڑی کہ1973ء میں اسٹاک ہوم میں ایک بینک میں ڈکیتی کی ایک واردات ہوئی۔ جب واردات کامیاب ہوتے نظر نہ آئی تو ڈاکوئوں نے بینک کے عملے اور وہاں موجود کسٹمرز کو یرغمال بنا لیا۔ یہ سلسلہ چھ دن چلتا رہا۔ اس عرصے میں یرغمالیوں کو ڈاکوئوں سے کچھ ایسا لگائو ہو گیا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر ریاستی اداروں سے لڑنے کو بھی تیار ہو گئے۔ جب اس معاملے کا بغور مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اگر لوگ کچھ عرصے تک یرغمال بنانے والوں کے زیر اثر رہیں اور مکمل طور پر ان کے رحم و کرم پر ہوں تو ان سے اثر پکڑنے لگتے ہیں۔ اس کنفیوژن کے عالم میں یرغمال بنانے والوں کے نظریات، جو کتنے بھی نامعقول کیوں نہ ہوں،اپنالئے جاتے ہیں۔
آپ خود ہی بتائیں کہ گزشتہ برسوں میں دہشت گردوں نے ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا۔ نہ ہمارے گھر محفوظ رہے نہ ہی مساجد۔ ہماری زندگیاں بکھر کر رہ گئی ہیں۔ جب بھی گھر سے نکلئے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ واپس آسکیں گے یا دہشت گردی کے کسی واقعے کی بھینٹ چڑھ کر لقمۂ اجل بن جائیں گے۔ پھر بھی ہم ان جرائم کو نظر انداز کرنے کے لئے کیسی کیسی تاویلیں پیش کرتے ہیں، کیسی کیسی کہانیاں گھڑتے ہیں۔اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہم بھی اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ وہی مقام ہے‘ جہاں اپنے پرائے کا فرق ہی مٹ جاتا ہے۔ وگرنہ معاملہ اتنا بھی پیچیدہ نہیں۔
غور کیجیے کہ ایک طرف قوم کی وہ مائیں ہیں جو اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اس قوم کی حفاظت کے لیے بھیجتی ہیںاور ان کے لعل بھی ہمارے سکون کے لیے کٹ مرتے ہیں، ہم ان شہیدوںکے خون کا یہ قرض چکانے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو آپ کو، مجھ کو، ہر کسی کو بات بے بات قتل کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ آپ ہی کہیے کہ کوئی مقابلہ ہے ان کا؟ اس مشکل کی گھڑی میں، تمام کنفیوژن کے باوجود ، جو سخی ریاست کے حکم پر ہماری زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لئے لبیک کہتا ہے، قربان ہونے کو تیار ہو جاتا ہے، اس کو کیونکر دل اپنا ہیرو نہ مانے؟
اب صاحبو‘ مسئلہ یہ ہے کہ کسی قوم میں بھی ایسے بہادروں کی لامتناہی فصل نہیں ہوتی۔ اگر ان کا ساتھ نہ دیا جائے ، اگر ان کے ساتھ کھڑا نہ ہوا جائے تو کوئی انسان بھی ہمیشہ ثابت قدم نہیں رہ پاتا۔ ریاست کا سانس پھولنے لگتا ہے، قوم کے ہیرو بننے کو تیار لوگ بد دل ہو کر کوچ کر کے کسی اور ملک کے ہیرو بن جاتے ہیں۔کیا ہم ایسے کسی نقصان کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں۔
آج ریاست اس مقام پر ہے‘ جہاں اس کی مضبوطی ہماری زندگیوں کو سہل بنا سکتی ہے۔ اس کی طاقت ہماری طاقت ہے۔ اس کا نقصان ہمارا نقصان ہے۔ وہ جو آمریت کے سائے تھے وہ دھیرے دھیرے چھٹ رہے ہیں۔ ایسے میں آپ ہی کہیے کہ اس کو کیسے تنہا چھوڑا جاسکتا ہے۔ کیا ہمیں قوم کے ان سپوتوں کے ساتھ سینہ سپر ہو کر کھڑا نہیں ہونا چاہیے، جو ہمیں نقصان سے بچانے کیلئے برسر پیکار ہیں؟ غیور قومیں ایسا ہی کیا کرتی ہیں۔ آج ریاست کو ہماری ضرورت ہے۔ چاہے یہ مذاکرات کرے یا جنگ‘ اس کو پتہ ہونا چاہیے کہ ہم ہر دو صورتوں میں اس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یاد رکھیے یہ سودا مہنگا ہر گز نہیں۔