کرپشن اور جمہوریت

ہم اکثر ایسی باتوں کے تعاقب میں رہتے ہیں جو ذرا ہٹ کر ہوں۔ ایسے میں کئی دفعہ بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔ اب دستی صاحب کو دیکھئے۔ اتنے دنوں سے ٹی وی چینلز اُن کے الزامات اور بیانات چسکے لے کر بیان کر رہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب ریاست اور نظام دونوں ہی بقا کی خونی جنگ لڑ رہے ہیں ، میں یہ ہرگز نہیں پوچھنا چاہتا کہ اس بحث سے کس کو فائدہ ہوگا۔
مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ موصوف نے قوم کی دکھتی رگوں پر ہاتھ رکھ دیاہے۔ چونکہ ریاست زیادہ عرصہ آمریت کے زیراثر رہی ہے ۔ ایک آمر سب سے زیادہ جمہوری سیاستدانوں سے ہی خائف ہوتا ہے، لہٰذا یہ غلط فہمی جان بوجھ کرمنظم طریقے سے پھیلائی گئی کہ سارے سیاستدان کرپٹ ، غدار وطن اور اخلاقی پستی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ پراپیگنڈہ بھی کچھ اس طرح سے پھیلایا گیا کہ انفرادی عمل اورسیاسی ذمہ داریوں کو خلط ملط کر دیا گیا ۔ اور سونے پر سہاگہ یہ کہ دین اور دنیا کے فرق کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔
ایک سوچ یہ بھی ہے کہ اگر آپ ظاہری وضع قطع میں عابد و زاہد ہیں تو آپ کو سو مسلمانوں کا خون بھی معاف ہو سکتا ہے ، شرط صرف اتنی ہے کہ آپ کہتے جائیے کہ جسے قتل کر رہا ہوں وہ بدکردار اور اسلام دشمن تھا۔ایسا شخص بظاہر بڑی عبادت کرتا ہے لیکن ساتھ ساتھ یتیموں مسکینوں کا حق بھی کھاتا رہتا ہے لیکن پھر بھی ہم کہیں گے کہ وہ بڑا نیکوکار ہے۔ اس کے برعکس کوئی بندہ شریعت کے احکام نہ ادا کرتا ہو مگر اس میں خوف خدا اتنا ہو کہ وہ کسی کا حق نہ کھاتا ہو ، قومی مال سے خیانت نہ کرتا ہو، خاموشی سے کسی مظلوم کی امداد بھی کر دیتا ہو تو بھی اُسے دکھاوے کے دین دار آدمی سے کم تر ہی سمجھیں گے۔ اگر یہ فرق ناسمجھی میں کیا جائے تو اسے کند ذہنی کہیں گے، اور اگر جان بوجھ کر کیا جائے تو منافقت کہلائے گا۔ بدقسمتی سے ہم سب اس منافقت کو بڑھاوا دیتے رہتے ہیں۔
ہم اصل مقصد یعنی انسانی فلاح کے نظام کے قیام سے بھٹک گئے ہیں۔ ملک میں بھوک ،افلاس، غربت ، بیماری اور جہالت حد سے زیادہ ہے لیکن ہمیں ڈرایا صرف بے راہ روی سے جاتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ریاستی ڈھانچے کو اگر صرف ایسے ایشوز کی طرف لگائیں گے تو وہ انسانی جان ، مال اورحقوق کاتحفظ خاک کرے گا۔ ہماری درسگاہوں میںسالہا سال سے مسخ تاریخ پڑھائی جا رہی ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کہیں سے تصور ٹپک پڑا ہے کہ حکمران فرشتے ہونے چاہئیں۔ ورنہ سکندر اعظم سے ظہیرالدین بابر تک اگر حکمرانوں کی ذاتی زندگیوں کا مطالعہ کریں تو وہ کمزوریوں سے بھری پڑی ہیں۔ حکمران عاقل ہو، غریبوں کا درد دل میں رکھتا ہو، خیانت نہ کرتا ہواور دانا ہو، یہی کافی ہے۔
اب چلئے اس سے ملتے جلتے ایک اور مسئلے کی طرف اور وہ ہے کرپشن کا مسئلہ۔ جس پراپیگنڈہ کا ذکر اوپر آیا ہے اس میں اسی طبقے پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ وہ کرپٹ ہے۔یوں تو دنیا کے کسی ملک سے کرپشن کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو سکا۔ مگر پھر بھی بعض ممالک میں یہ قدرے کم ہے بالخصوص جہاں صحیح معنوں میں جمہوریت کی حکمرانی ہے۔ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ عوامی دولت میں جب بھی خیانت ہوتی ہے، عوام ووٹ کے ذریعے ایسی حکومت کو ہٹا دیتے ہیں۔ اب آپ نے یہ بات بہت دفعہ سنی ہوگی کہ جو نظام پاکستان میں جمہوریت کہلاتا ہے وہ درحقیقت جمہوریت ہے ہی نہیں، بلکہ ایک بدعنوان اشرافیہ کی اجارہ داری ہے۔ اس پر ایسے ہی کئی اور اعتراضات پرتفصیل سے تو ہم کسی اور دن بات کریں گے مگر یہ دیکھ لیجیے کہ جمہوریت اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک یہ اپنا سائیکل پورا نہ کرلے۔ یعنی جس حکومت کو آپ سنگھاسن پر بٹھا تے ہیں اسے مدت پوری ہونے پر وہاں سے ہٹانے کی طاقت بھی صرف آپ کے پاس ہو۔ ماضی میں یہ ہوتا رہا کہ حکومت لائے تو آپ، مگر اسے ہٹایاکسی اور نے۔ یہی نظام پینسٹھ سال چلتا رہا۔ذرا سوچئے کہ اگر میں آپ کا نمائندہ ہوں اور مجھے پتہ ہو کہ مجھے آپ نہیںہٹا سکتے بلکہ کسی اور ہی کے ہاتھ میں یہ باگ ڈور ہے تو میں آپ کے حقوق کی فکر کیوں کروں گا؟ ایسے ہی آپ کو بھی معلوم ہو کہ آپ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تو آپ بھی الیکشن کے دن مجھے ووٹ بیچ کر فارغ ہو جائینگے۔ مگر اب حالات بدل رہے ہیں۔
گزشتہ سال یہ جو الیکشن ہوئے ان کے بارے کوئی کچھ بھی کہے دنیا یہ مانتی ہے کہ پہلی بار ہمیں ایک حکومت کو ہٹانے اور نئی حکومت لانے کا حق ملا ہے۔ ایسے میں جہاںسیاستدانوں کو عوامی طاقت کا احساس ہونے لگا ہے وہیں ، عوام کو بھی آہستہ آہستہ اپنے حقوق کا ادراک ہو رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ دو تین ٹرمز نکال گیا تو یقین مانئے کہ نظام الیکشن کی چھلنی سے چھن چھن کر بہت موثر اور عوام دوست ہو جائے گا۔ اگر قیام پاکستا ن کے وقت ہی اس بات کو سمجھ لیا جاتا تو حالات بہت بہتر ہوتے۔ کیونکہ اصلاحات کا عمل بہت سست رو ہوتاہے یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ برداشت کے یہ گھونٹ ہوتے بہت کڑوے ہیں، مگر کسی کو تو آنے والی نسلوں کے لیے قربانی دینی ہے۔ وہ ہم ہی سہی۔
جب بات آنے والی نسلوں کے لیے تعمیر وطن کی ہواور ہر کسی کو اپنا حصہ ڈالنا ہو تو اپنے منتخب نمائندوں کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے، انہیں محنت اور قربانی کی ترغیب دینی ہوتی ہے۔ ایسے میں دستی صاحب نے ہماری امیدوں پر کچھ اس طرح پانی پھیرا ہے کہ بات کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔بغیر ثبوت کے انہوں نے پوری پارلیمان پر انگلی اٹھا دی ہے، جس میں ناجانے کتنے پاکباز بھی ہوں گے۔انہیں چاہیے تھا کہ پہلے ثبوت پیش کرتے اور پھر اس کا ڈھنڈورا پیٹتے۔ اگر ثبوت سچے نکلیں تو ذمہ داران کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے مگر یہ کرے گا کون؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں