ہمارا اور فسطائیت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مانئے نہ مانئے ہم نے جمہوری فلسفے کوآج تک دل سے تسلیم نہیں کیا۔ بعض لوگ جمہوریت کا یوں ذکر کرتے ہیں جیسے گالی دے رہے ہوں۔ ممکن ہے اس میں ہماری ٹوٹی پھوٹی جمہوری حکومتوں اور گرتے پڑتے جمہوریت پسندوں کا بھی کچھ ہاتھ ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ اس کم عمر ملک کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے۔
برصغیر میں مسلمانوں نے ملوکیت کے طفیل عروج پایا۔ پیشتر اس کے کہ تبدیلی کا وہ عمل شروع ہوتا‘ جو جمہوریت کے ارتقا کے لیے ضروری ہے‘ انگریز آ گئے وہ استحصالی نوآبادیاتی نظام ساتھ لائے۔ جو توانائی ممکنہ اصلاحات پر صرف ہوتی وہ نئے آقائوں سے مال و اسباب بچانے میں لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اشرافیہ تو ان کے رنگ میں رنگ گئی۔ عوام کا اس طرح استحصال ہوا کہ اسے ان دونوں سے ہی نفرت ہو گئی۔ انگریز اپنے آپ کو جمہوریت پسند کہتے تھے لیکن ان کے محکوموں کے ساتھ بدتر رویے کے باعث ہم جمہوریت سے متنفر ہوتے چلے گئے۔ اسی نفرت کے باعث برطانیہ کے ساتھی ہمیں دشمن اور اس کے دشمن ہمیں اپنے دوست نظر آنے لگے۔اگرایک طرف سبھاش چندر بوس نے نازی جرمنی اور جاپان کی مدد سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی تو دوسری طرف علامہ مشرقی بھی ہٹلر کو جا کر ملے۔ اور تو اور علامہ اقبال بھی نہ صرف مسولینی کو جا کر ملے بلکہ موصوف کی شان میں نظم بھی کہہ ڈالی۔ دنیا ابھی نظریات میں بری طرح منقسم تھی۔ ہمیں ابھی آزادی بھی نہیں ملی تھی کہ ہماری پسند و نا پسند کی بنیاد رکھ دی گئی۔خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکی میں بھی جمہوریت پروان نہ چڑھ سکی تو لاشعوری طور پر اس نے بھی گہرا اثر چھوڑا ہوگا۔
اگر آزادی کے بعد ہمارا جمہوری سفر شروع ہو جاتا تو شاید یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا ۔ نوٹ کیجئے کہ میں شایدپر زور دے رہا ہوں کیونکہ مشہور زمانہ کتاب ''اقوام کیوں ناکام ہوتی ہیں‘‘ Why Nations Fail، کے مصنفین سمجھتے ہیں کہ ریاست کی کامیابی کے لیے محض انتخابی عمل ہی کافی نہیں۔ سامراج جاتے جاتے اپنے پیچھے کھوکھلی اشرافیہ اور استحصالی بیوروکریسی چھوڑ گئے۔ ان دونوں نے مل کر ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں اس طرح سلب کر لیں کہ ہمیں اپنے استحصال کا احساس ہی نہ رہا۔ پھر آمریت کا طویل دور شروع ہوا۔ اشرافیہ نے آمریت سے خوب استفادہ کیا۔ ملک میں حقیقی زرعی اصلاحات نہ ہوسکیں اُلٹا وڈیرہ شاہی کو مزید فروغ ملا۔ قبائلی نظام کو تبدیل کرنے کے بجائے من و عن برقرار رکھا گیااس سے نقصان یہ ہوا کہ ریاست کے پاس طاقت کے استعمال کی جو اجارہ داری ہونی چاہئے وہ نہ بن سکی۔ ایک آمر طاقت میں رہنے کے لئے وہ سب کرتا ہے جو اسے آسان لگے نہ کہ وہ جو صحیح ہو۔ ایسے میں سوال یہ نہیں تھا کہ قبائلی نظام کو کس طرح جمہوریت میں بدلنا ہے بلکہ یہ کہ کون سا قبائلی سردار دوسرے قبائلیوں کے مقابلے میں اس کا ساتھ دے گا۔ بالکل یہی حال وڈیروں کا بھی تھا۔ سو گزشتہ سرسٹھ سال میں ہمیں ایسی ایسی جونکیں آکر چمٹی ہیں کہ جانے کا نام نہیں لیتیں۔ اور یہی عمل سیاست کا بھی حصہ بن گیا ہے۔
کتاب "Why Nations Fail" معروف امریکی یونیورسٹی ایم آئی ٹی کے ماہر معیشت ڈیرن آسی موگلو اور ہارورڈ یونی ورسٹی کے جیمز رابنسن نے مل کر لکھی ہے۔ یہ کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ مصنفین نے بے شمار تاریخی حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ معاشی استحصالی نظام کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ استحصالی سیاسی نظام کا خاتمہ ہو۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے غیر متعلقہ یا جداجدا خطوں کی مثالیں نہیں دیں بلکہ ہمسایوں کی ہی دیں، مثلاًامریکی شہر ناگولاس ایریزونا اور میکسیکو کے ہمنام شہر کا حوالہ دیا ہے جو آمنے سامنے ہیں۔ امریکی شہر میں معاشی آسودگی نظر آتی ہے جب کہ میکسیکو کے شہر میں غربت پھٹی پڑی ہے۔ یہی حال جنوبی اور شمالی کوریا میں تفاوت کا ہے۔شمالی کوریا میں اشتراکیت کے نام پر آمریت قائم ہے غربت کی انتہا ہے۔ اس کے مقابلے میں جنوبی کوریا جمہوریت کے ساتھ ساتھ عوام کو معاشی بہتری بھی مہیا کرتا ہے۔ان کا ماننا ہے کہ نظام میں ادارے دو ہی قسم کے ہو سکتے ہیں۔استحصالی Extractive اور شمولیت پسندInclusive۔ سامراجیت‘ ملوکیت اور آمریت تینوں ہی استحصالی اداروں کو جنم دیتے ہیں۔ آپ نے غور تو کیا ہوگا کہ ہمارے ادارے‘ امیروں اور غریبوں کے ساتھ معاملات میں دوہرا معیار کیوں رکھتے ہیں؟ صرف تھانے یا ڈپٹی کمشنر کے آفس چلے جائیے، امیر بلا روک ٹوک افسران سے مل پائے گا اور غریب کو ذاتی حوالوں کے بغیر گھنٹوں انتظار سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہی حال معاشی اداروں کا ہے۔کسی بھی بینک چلے جائیے اور جو رقم آپ کے اکائونٹ میں ہے اس سے صرف دس روپے کا چیک پیش کردیجیے۔ آپ دیکھیں گے کہ وہی بینک جو امیروں کو کروڑوں اربوں روپے کے قرضے معاف کرچکے آپکو کسی ذاتی حوالے کے بغیردس روپے کا اوور ڈرافٹ دینے کو بھی تیار نہ ہونگے، اور ممکن ہے کہ ذاتی جان پہچان بھی کام نہ آئے۔انہیں ہی استحصالی ادارے کہا جاتا ہے۔ جمہوری معاشروں میں سرمایہ دارانہ نظام کی موجودگی میں یہ تو ممکن ہے کہ امیروں کوکچھ اہمیت دی جائے مگر متوسط اور غریب طبقوں کے حقوق کے لئے نظام موجود ہے۔
اب معاشی عدم مساوات کے اس دوہرے نظام بارے ہمارا ردعمل بھی عجیب ہے۔ کئی پڑھے لکھے لوگ بھی، جہالت کا ثبوت دینے لگتے ہیں۔ کہتے ہیںبھائی ادھر جمہوریت نہیں چلنے کی یا تو آمریت چلے گی یا انقلاب آئے گا۔ مسلم ممالک میں جو عرب بہارکے نام سے خلفشار کا سلسلہ پھوٹا ہے ویسا ہی تماشہ یہاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک کی تاریخ میں سرسٹھ سال میں پہلی دفعہ ایک منتخب حکومت نے آئینی مدت پوری کی ہے اور اس کی جگہ عوام نے دوسری نمائندہ حکومت کو منتخب کیا ہے۔ صرف ایک ہی جھٹکے سے کئی سیاستدانوں کی گردن کا سریا پانی ہوگیا ہے۔ دو چار ایسے ہی الیکشن وقت پر ہوگئے تو دیکھئے گا یہی افسران اور بینکر باہر آکر آپ کے مسائل حل کریں گے۔ بس ہمیںآئین کی بالادستی اور جمہوری نظام کے تسلسل پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہئے۔جمہوریت اور اسلام کی مطابقت پر بھی تبصرہ ضروری ہے کیونکہ کچھ لوگ فسطائی ذہنیت کے دفاع میں مذہب کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب اور جمہوریت میں کوئی مطابقت نہیں جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ مگر اس پر تفصیلی بحث پھر کسی وقت۔
بس چلتے چلتے یہ ذکر ضروری ہے کہ ان دو مصنفین کے مطابق عوام کی بااختیار عمل داری کے بغیر جمہوریت بھی استحصالی نظام کے تدارک میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس کے لئے طاقت کی نچلی سطح تک منتقلی بہت ضروری ہے۔ بدقسمتی سے جمہوری دور میں مقامی حکومتوں کے معاملات یکسر ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان حکومتوں کا قیام آپ کا حق ہے اور اس کے بغیر آپ کی جمہوری جدوجہد اور صبر بھی خاص تبدیلی نہ لا پائیں گے۔ اس لیے ہم سب پر واجب ہے کہ اپنے منتخب نمائندوں اور حکمرانوں پر مسلسل زور ڈالیں کہ مقامی حکومتوں کے قیام کے لئے الیکشن جلد سے جلد کرائیں اور یہ کہ اگر یہ نہ کیا تو اگلی دفعہ ووٹ آپ کو نہیں دیں گے ‘ممکن ہے اسی طرح کوئی فرق آجائے۔