سچ یہ ہے کہ جب 1999ء میں میاں نواز شریف صاحب کی حکومت کو ہٹا یا گیا تو کئی لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ میاں صاحب کے بارے یہ خیال عام تھا کہ وہ رفتہ رفتہ طاقت پر اپنی گرفت مضبوط کرتے جارہے ہیں۔ جو بھی ان کے سامنے کھڑا ہوا ‘ایک ایک کر کے فارغ کر دیا گیا۔جسٹس سجاد علی شاہ، سابق صدر لغاری، جنرل کرامت، سب گئے۔ اس پر مزید شریعت بل کا تذکرہ۔ کہا جاتا تھا کہ اس بل میں قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ چیف ایگزیکٹو(جو کہ وزیر اعظم کا ہی دوسرا نام ہے)کے احکامات بھی رد نہ کئے جاسکیں گے۔ یوں ہر کسی کو یہ فکر تھی کہ کچھ ہی عرصہ میں میاں صاحب ایک مطلق العنان حکمران بن جائیں گے۔ دائیں بازو کی جماعتوں کو بھی کارگل سے پسپائی اور لاہور امن مذاکرات کے بعد یہ دھڑکا لگا تھا کہ اپنی حکومت کے دوام کے لئے میاں صاحب طالبان حکومت کا سودا کر دیں گے۔ پھر ان کی حکومت گر گئی۔ مشرف صاحب‘ طاقت کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے توانہیں عالمی سٹیج پرایٹمی دھماکوں اور کارگل کے بعد کے عوامل اور آمریت کی واپسی کی وجہ سے شدید تنہائی کا سامنا تھا۔ مگر ملک کے اندر سپریم کورٹ نے انہیں تین سال کی حکمرانی بخش دی۔ انہیں یہ اجازت بھی تھی کہ ماسوائے پارلیمانی اور وفاقی نظام کے‘ وہ آئین میں جس نوعیت کی تبدیلی چاہیں کریں۔ آج سوچتا ہوں کہ اگر میاں صاحب کی حکومت مطلق العنانیت کی طرف جارہی تھی تو یہ کیا تھا؟
پھر عالمی منظر پر تنہائی ختم کرنے کے لئے مشرف صاحب نے ہر وہ کام کیا جو ان سے چاہا گیا۔پہلے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد طالبان پالیسی سے یکسر جان چھڑا لی گئی۔ پھر جب بھارت کی جانب سے دبائو بڑھا تو وہ جسے کشمیری جہادکہا جاتا تھا اسے مشرف صاحب نے ہی سرحد پار دہشت گردی اور در اندازی کے نام سے پکارا۔ اس تمام عمل کے دوران کیونکہ ملک میں جمہوریت نہ تھی تو عوام کی ناراضی اور غصہ بڑھتا گیا۔ کچھ لوگ ایسے بھٹکے کہ دشمن سے جاملے۔ عوام اور فوج دونوں کو ہی بے شمار قربانیاں دینی پڑیں۔
اس تمام قصے کے بیان کا مقصد کسی شخص یا ادارے کی برائی بیان کرنا نہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ عالمی تناظر میں وقوع پذیر تبدیلیا ں اتنی سخت ہوتی ہیں کہ حکومت میں جو بھی ہو انہیںروکنے میں بے بسی محسوس کرے گا۔فرق اگر پڑتا ہے تو صرف اتنا کہ الزام کس پر لگے گا اور لگانے والا کون ہوگا۔ الزامات لگانے میں ہم سب ماہر ہیں ۔ مگر ان الزامات کی بوچھاڑ کے دوران جو اصل بات کہیں دب جاتی ہے‘ وہ ہے جمہوریت اور آمریت کا فرق۔ کیا وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہترہوتی ہے؟یقینااس کی سب سے اہم وجہ نظام کی پختگی ہے۔
آمر دودھ کا دھلا ، فرشتہ صفت بھی ہو تو رہے گا تو بندہ بشر ہی نا۔ چونکہ آمر کو ہٹانے کا کوئی موثر ذریعہ نہیں ہوتا اس لئے وہ عرصہ دراز تک حکمرانی کرتا ہے۔ اس حد تک کہ ہر چیز اسی کی ذات میں جمع ہو جاتی ہے۔پھر جب وہ جاتا ہے تو نظام ڈگمگا جاتا ہے۔ کیونکہ حکومت میں آنے کا واحد ذریعہ طاقت کا استعمال ہی ہوتا ہے اس لئے اس بات کا ضامن کوئی نہیں کہ اگلا آمر کوئی بدطینت یا ملک یا عوام دشمن نہ ہوگا۔ چونکہ آمریت کے خلاف عوامی مدافعت رفتہ رفتہ دم توڑ جاتی ہے لہٰذااس آمر کو ہٹانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ اسی تذبذب کے عالم میں سب پہلے آمر کا لایا ہوا معاشی اور سماجی استحکام ہوا ہوجاتا ہے۔ شاید آپ کو اس تبصرے سے جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ کے دن یاد آئے ہوں‘جب ملک دو لخت ہو گیا‘گوکہ میری بات کا ماخذ دنیا کی تاریخ ہے صرف پاکستان کی نہیں۔
اس کے برعکس جمہوری حکمران عوامی ووٹوں کے سہارے حکومت میں آتا ہے۔ اگر وہ طاقت کے حصول کے بعد عوام کو بھول بھی جائے تو پانچ سال کی ٹرم کے بعد اس کو جانا تو پھر عوام کی عدالت میں پڑے گا، جو اس کو یکسر مسترد کردیں گے۔ اب نظام کیسے پختہ ہوگا؟ اسی طرح کہ الیکشن ہر پانچ سال بعد مقررہ مدت پر ہوتے رہیں ۔دو تین دفعہ ایسا کرنے سے ہی آپ دیکھیں گے کہ نظام اور ملک دونوں نہایت پختہ ہو گئے ہیں۔
آج کل ایک جوالامکھی اندر ہی اندر پک رہا ہے‘ اس کی وجہ مشرف صاحب ہیں۔ کیا ان پر غداری کا مقدمہ چلے یا فرد جرم عائد ہونے کے بعد انہیں جانے دیا جائے؟ موصوف کے سیاسی رفقاء اس بات پر تلے نظر آتے ہیں کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو نظام کو بھی تباہ کرکے چھوڑیں گے۔اب چونکہ مشرف صاحب ایک سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سابق آرمی چیف بھی ہیں تو ان کے ساتھیوں کا پراپیگنڈا وہاں تک بھی جا پہنچتا ہے جہاں پہلے ہی یہ شکایت موجود ہے کہ ان کی بے انتہا قربانیوں کی قدر نہیں کی گئی۔ ایسے میں نظام میں غصہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کو کوئی یہ بھی نہیں بتا رہا کہ آپ تو ہمارے ہیرو ہیں ہی ، آپ کی قربانیوں کا صحیح ادراک اس لئے نہیں ہو پایا کہ جس جنگ میں آپ نے جانیں دیں ‘اس کا آغاز ایک آمر کے دور میں ہوا اور اس طرح قوم میں احساس ملکیت نہ تو پیدا ہوا اور نہ ہی مشرف نے پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اب آہستہ آہستہ یہ احساس بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ وہ جنرل ہے جس نے فوج کو سیاست سے دور رکھا یعنی جنرل کیانی اور اسے (فوج) اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلایا۔
یقین ہوتا چلا جا رہا ہے کہ مشرف تو بالآخر چلے ہی جائیں گے مگر پریشانی یہ ہے کہ نظام پختہ ہونے کی جو امید بندھی تھی وہ کہیں ہاتھ سے نہ چلی جائے۔ یہ ملک بار بار کی فوجی مداخلت کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کیا ہی بہتر ہو کہ ہمارے فوجی بھائی خود کو ''سٹیزن ان یونیفارم‘‘ سمجھیں اور ہم ان کو وہ عزت دیں جو ہیروز کو دی جانی چاہیے۔ اور اس طرح ہمارا ملک اتنا مضبوط ہو جائے جس کا تصور قائد اعظم لے کر چلے تھے۔ اس کے لئے ہمیں باہمی اعتماد‘ تحمل اوربرداشت کی ضرورت پڑے گی۔ ورنہ کیا فائدہ ‘اگر ملک اگلے سرسٹھ سال بھی ایسا چلتا رہا جیسے ابھی تک چلا ہے۔ نظام کی پختگی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔