بھوکے ننگے عوام۔ کتنا ڈرامہ ہے ان تین الفاظ میں۔کتنی تڑپ، کتنی تکلیف۔ مگر ان الفاظ کو مذاق بنادیا گیا ہے۔ اب ٹی وی والے ایسے ہی غریبوں کو اپنے شو میں بلاتے ہیں‘ ریٹنگ کا پیٹ بھرنے کے لئے‘ ان سے بھیک ہی تو منگواتے ہیں۔ اینکر بھائی! غریب ہوں‘ یہ موٹر سائیکل مجھے دے دو۔ اینکر بہن! میں نے دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھائی ، یہ کار کھیل میں ہارنے کے باوجود میرے حوالے کر دو۔ اس سب تماشے سے پرے، تمہاری میری آنکھوں سے اوجھل جب خلق خدا بھوک سے مرتی ہے توکوئی ماتم ہوتا ہے نہ ہی جنازہ اٹھتا ہے۔ لواحقین کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مرنے والے کا بین کریں‘ اپنی بھوک پر بلبلائیں ، یا اسی طرح بے گوروکفن مرنے کی تیاری کریں۔ فرمایا گیا: جب کسی کی مدد کرو تو بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلے کہ دائیں ہاتھ نے کیا دیا۔ مگر انگریز ان معاملات کو کسی اور نظر سے دیکھتا ہے۔ کہتا ہے: دِئر ازنو بزنس لائیک شو بزنس۔ شوز کا بزنس بھی تو چلانا ہے۔ یہ وہ عفریت ہے جس کا دماغ تو بہت بڑا ہے مگر سینے میں دل نہیں رکھتا۔ یہ آپ کی خالی تھالی بھرنے میں نہیں، اس کی عکس بندی کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔کمال کی بات ہے کہ بھوک ننگ کے الفاظ استعمال کرنے والے دوستوں نے اصل بھوک کا کبھی سامنا نہیں کیا۔ پھر دیکھیے بھوک ہے کیا؟ آپ ہم جو سیر ہوکر سحری کھاتے ہیںاور سارا دن افطار کی تیاری میں گزار دیتے ہیں‘ اس کا نام تو بھوک نہیں۔ ہم کو تو پتہ ہوتا ہے کہ اگلا کھانا کب اور کہاں ملے گا‘ غریب کو نہیں ہوتا۔ بھوک سے کہیں ڈرائونا‘ بھوک کا وہ خوف ہے جو سامنے رکھے کھانے کو دیکھ کر پیٹ میں مروڑ ڈالتا ہے کہ پھر کبھی موقع ملے یا نہ ملے۔
اسے معاشرے کا جبر کہیے یا خوبصورتی، غریب عام طور پر سفید پوشی کا بھرم ہی رکھتا رہتا ہے، ادھار لے لیتا ہے مگر بھیک نہیں مانگتا۔ اگر کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا بھی پڑے تو انتہائی مجبوری کی حالت میں۔بچے کو بخار ہو، نہ کھانا کھلانے کے لئے پیسے ہوں نہ دوا دارو کے لئے‘ یہ سفید پوش آپ کے پاس آکر پیسے نہیں مانگے گا بلکہ آپ کے پاس بچہ لا کر دھیرے سے التجا کرے گا کہ اس پر دم درود پڑھ دیں‘ عقلمند کو اشارہ کافی۔ آپ سمجھ جائیںگے کہ اس کو کیا چاہئے‘ اسی لیے غریب اور بھکاری میں امتیاز کرنا ضروری ہے۔
غریب مزدورکو آج کیا چاہئے؟ کام کرنے کا موقع۔ جب ملک میں کارخانے بند ہوں تو سب سے زیادہ مشکل غریب کو ہوتی ہے۔ مانتا ہوں کہ ہمارے ہاں استحصالی نظام صدیوں سے رائج ہے جو غریب کو غریب ہی رکھتا ہے۔ اس کے بچوں کو تعلیم کے زیور
سے محروم رکھتا ہے۔ اس کے صحت کے مسائل حل نہیں ہوتے، سر پر معقول چھت نہیں ہوتی۔ مگر ان سب کا علاج کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ ملک میں صنعت کا پہیہ چلتا رہے، جمہوریت ہو، آزادی صحافت ہو اور مزدور کو اس کی مزدوری بر وقت مل جائے تو کوئی استحصالی نظام بر قرار نہیں رہ سکتا۔
آپ نے بچپن میں کچھوے اور خرگوش کا قصہ تو سنا ہوگا۔ بڑا فلسفہ ہے اس چھوٹی سی کہانی میں۔ غریب کا فلسفہ۔ دھیرے دھیرے چلتے رہو کہیں پہنچ ہی جائو گے۔ رک گئے تو یا د رکھو اگر رک جانے کی وجہ سے خرگوش اپنی تمام تر تیز رفتاری کے باوجود ہار گیا تو تم کیا خاک جیتو گے۔ غریب کچھوے کی طرح ہوتا ہے۔ چلتا رہتا ہے۔ کہیں پہنچ ہی جاتا ہے۔ جو نہیں پہنچ پاتا وہ اس لئے کہ امیر خرگوش ہر دوسرے دن نظام بدلنے کے لئے رکاوٹیں کھڑی کردیتا ہے۔ مشکلات یوں تو دونوں فلسفوں کو درپیش ہیں مگر جس ملک میں آبادی کی کثرت کچھووں پر محیط ہو وہاں کون سا فلسفہ جیتے گا آپ خود ہی سوچ لیجئے۔ یہ ان کچھووں کا ہی فلسفہ ہے کہ اگر رکاوٹوں کی وجہ سے بھٹو کی پھانسی، بے نظیرکے قتل اور نواز شریف کی جلاوطنی کے وقت کچھ نہیں کر پاتے تو جب بھی موقع ملتا ہے انہی کی پارٹیوں کو جتا دیتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے آج بھی ملک کا نظام‘ پارلیمانی جمہوریت ہے اور تہتر کا آئین ہٹائے نہیں ہٹتا۔اگر کوئی اس فلسفے کو سمجھ جائے تو اُسے حکومت میں آنے کے لئے انقلاب کی نہیں صرف تدبر اور محنت کی ضرورت ہوگی۔مگر یہ بات کسی خرگوش کو کیا سمجھ آئے۔ امیر زادوں کے لئے مسئلہ روزی روٹی نہیں‘ انا کاہوتا ہے۔ کس کی گاڑی کتنی بڑی ہے کس کا گھر کتنا کشادہ ہے۔ یہ ہیں ان کے مسائل‘ اسی لئے تو جو حکومت میں آئے وہی برا ہو جاتا ہے۔ چیلوںکوکیا پتہ کہ چیونٹی کی محنت و حکمت کا راز کیا ہے۔ انہیں تو لگتا ہے کہ اگر چیونٹیوں پر ہی سب کچھ چھوڑ دیا گیا تو ان کی من پسند تبدیلی اگر صدیوں میں نہیں تو دہائیوں میں آئے گی۔مگر ترقی تو پھر چیونٹیوں ہی کی مرہون منت ہے۔ دیکھو مغرب میں ان چیونٹیوں نے کیا تہذیب برپا کردی ہے۔ عقابوں کا مشغلہ تو صرف شکار ہے ان کو کیا معلوم تعمیر کیسے ہوتی ہے ، وہ تو صرف تخریب پر زندہ ہیں۔کچھوا جب سفر طے کرتا ہے تو اسے ترقی کہتے ہیں، خرگوش کہاں کبھی ٹکتا ہے کہ وہ ترقی کی بنیاد بنے۔
اب چونکہ جمہوری نظام کی پختگی ملک میںاستحکام لارہی تھی توبند کارخانے بھی کھلنے لگے تھے۔ مزدور کو دو وقت کی روٹی ملنے لگی تھی، فاقے کم ہونے لگے تھے۔ ایسے میں امیر زادوںکو یہ سوجھی ہے کہ غریبوں کے حقوق کے لئے انقلاب لایا جائے۔ ایسے انقلابوں میں صرف غریبوں کے بچے مرتے ہیں، یہاں انقلاب بادشاہ کو ہٹا کر رعایا کو تخت پر نہیں بٹھاتابلکہ صرف ایک بادشاہ کو ہٹا کر دوسرے بادشاہ کو تعینات کرتا ہے۔ ایسے انقلاب تو ہمارے ملک میں بار بار آتے ہیں اور پھر ختم ہوجاتے ہیں۔دھرنے جلوسوں اورانجینئرڈ انقلابوںمیں غریب ہی مرتا ہے، امیر کا تو بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ اگر آج بھی کوئی سمجھتا ہے کہ ایسے کسی انقلاب سے کسی غریب کا فائدہ ہوگا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ یہ بات غریب کچھووں کو پتہ ہے۔ اس لئے انقلاب آئے یا سونامی آپ کو شخصیت پرستی میںغرق لوگ تو مل جائیں گے مگر غریبوں کی آواز اس میں کم ہی شامل ہوگی۔ امیر زادوں کو ان کا ایک اور انقلاب مبارک ہو!