پاکستانی میڈیا اور حب الوطنی

کارگل جنگ اور ممبئی حملوں کے وقت بھارتی میڈیا کے کردار نے ہماری مسلح افواج اور ریاست دونوں کے شعور پر گہرے نقوش چھوڑے۔ ان دونوں معاملات میں بھارتی میڈیا نے من و عن وہی موقف اختیار کیا جو کہ اس کی حکومت کا تھا۔ اس سلسلے میں انہوں نے جھوٹ اور سچ میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا۔ پاکستان پر مسلسل تنقید نے حقائق بلکہ ان معاملات کی باریکیوں کو بھی یکسر دھندلا دیا۔ اس کے مقابلے میں‘ کارگل کے دنوں میں تو پاکستانی میڈیا اتنا کمزور تھا کہ دنیا ہمارے کہے سنے کو ماننے کو تیار نہ تھی۔ممبئی حملوں کا قصہ البتہ ذرا مختلف ہے کیونکہ اس وقت پرائیویٹ میڈیا چینلز موجود تھے۔ ہم نے یہ دیکھا کہ ابھی ریاست نے اجمل قصاب کو پاکستانی شہری تسلیم نہیں کیا تھا کہ اس گائوں جہاں کا وہ مبینہ رہائشی تھا‘ وہاں سے رپورٹنگ کی گئی اوراس طرح دشمن کا موقف تسلیم کر لیا گیا۔ایسے رویوں سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ ہمارے میڈیا اور صحافتی برادری میں حب الوطنی کا فقدان ہے۔ ایسے الزامات سن سن کر میرے کان پک گئے ہیں اور ضروری ہے کہ اس سلسلے میں کچھ وضاحت کردی جائے۔
میڈیا کوجس حالیہ بحران کا سامنا کرنا پڑا‘ اس میں کچھ ایسی شدت سے صف بندی ہوئی کہ سچ کہیں درمیان میں ہی دب گیا۔ دو طرفہ محاذ آرائی میں کسی درمیانی رستے کی کوئی گنجائش ہی نہ نظر آتی تھی۔ وہ صف آرائی اپنی جگہ مگر جو بات دل پر گراں گزرتی رہی وہ یہ تھی کہ صحافی برادری کو بکائو مال، غدار اور نہ جانے کیا کچھ کہا گیا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ گندے انڈے تو کسی بھی ٹوکری میں ہو سکتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں پورے کے پورے پیشے کو ہی بدنام کردیا جائے۔ پھر یاروں کا چلن یہ کہ کسی صحافی نے بہتر تنخواہ کے لئے نوکری اور ادارہ تبدیل کرلیا تو طرح طرح کے جملے کسے جانے لگے، طعنہ زنی ہونے لگی‘ اسے لالچی کہا گیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاشرہ صحافیوں کے لئے کوئی الگ تھلگ اور انوکھا ضابطہ اخلاق وضع کرنا چاہتا ہے ۔ ڈاکٹر، انجینئر، بینکر، اکانومسٹ یا سائنسدان کسی کو بھی بہتر تنخواہ کی آفر ہو تو وہ ادارہ بدل لیتا ہے۔ کوئی اسے برا نہیں کہتا، بلکہ مبارک باد دیتا ہے۔ یہ سارے پتھر صحافی کے لئے ہی کیوں رکھ چھوڑے گئے ہیں؟ اور مسئلہ ہے بھی یہی۔ ٹی وی ٹاک شوز کیا شروع ہوئے صحافی کو آسمانی مخلوق سمجھ لیا گیا۔ ارے! ہم سبھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ کوئی ہم سے ہی ایسے معیار کی کیوں امید کرے جس پر شاید ہی کوئی پورا اترتا ہو۔جس ملک میں لفظ قومیت کو ذات ، برادری ، لسانیت اور صوبائیت سے جوڑا جائے وہاں صحافی سے یہ امید کرنا کہ وہ کسی خاص قسم کی حب الوطنی کا مظاہرہ کرے گا‘ محض سادہ لوحی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ غدار وطن ہے‘ جی نہیں۔ یہ تو قومی ارتقا کا مسئلہ ہے‘ کوئی مینوفیکچرنگ ڈی فالٹ نہیں۔ 
معاملہ دراصل ریاست کی نوعیت کا ہے۔ یہ بات توصحیح ہے کہ ہر ریاست کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے شہریوں سے وفاداری کی امید رکھے۔ مگر اس مقصد کے لئے ریاستیں جو مختلف اقدامات کرتی ہیں اسی کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے ان کی تین اقسام ہیں۔ مضبوط ریاست، کمزور ریاست اور سخت ریاست۔ مضبوط ریاست، جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، وہ ریاست ہے جس کے عوام رضاکارانہ طور پر اس سے وفاداری نبھاتے ہیں۔ مشکلات جو بھی ہوںان کو ریاستی جبر کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ اور ریاست بھی ان پر اعتماد کرتی ہے، ان کی نیت پر شک نہیں کرتی۔ ہاں اگر کوئی اسے دھوکا دے، اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے تو اس کو ضرور قرار واقعی سزا ملتی ہے مگر قانون کے دائرے میں رہ کر۔ کمزور ریاست بالکل اس کے الٹ ہوتی ہے۔ نہ عوام اس پر اعتماد کرتے ہیں نہ ہی وہ اپنے عوام پر۔ اس پر ظلم یہ کہ ریاست میں اتنی جان بھی نہیں ہو تی کہ وہ عوام کوقانون شکنی اور غداری دونوں سے روک سکے۔ نتیجہ ایک ٹوٹتی پھوٹتی ریاست جو کبھی 'ناکام‘ اور کبھی 'ناکام ہوتی‘ ریاست کے نام 
سے پکاری جاتی ہے۔تیسری قسم سخت یا سخت گیر ریاست ہے اس کا عوام اور اداروں پر اعتماد تو کوئی خاطر خواہ نہیں ہوتا مگر ریاست کے پاس اتنی طاقت ضرور ہوتی ہے کہ دھونس دھمکی کے ذریعے وفاداری کا عہد لے سکے۔ مطلب یہ کہ جب تک ریاستی اداروں میں طاقت ہے‘ وفاداری قائم رہے گی، جیسے ہی ریاست کی عملداری ختم ہوئی وفاداری بھی کھڑکی سے باہر۔ ایسے میں ریاست اور عوام دونوں ہی چوکنے رہتے ہیں، دشمن کے خلاف استعمال کیے جاسکنے والے تمام تر وسائل اپنے ہی عوام کی جاسوسی میں صرف کر دیئے جاتے ہیں۔ ریاست کو دشمن کے ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ اپنی رعایا کی نافرمانی کا بھی سامنا ہوتا ہے۔ یہ دو طرف سے گھڑی جاتی ہے، حتیٰ کہ انتہائی کمزور ہوجاتی ہے۔کمیونسٹ ، سوشلسٹ، فسطائی اور ڈکٹیٹر شپ کے زیر عملداری ریاستوں کا زیادہ تر یہی المیہ ہوتا ہے۔
پاکستان کی ریاست جو صرف سڑسٹھ سال پہلے وجود میں آئی‘ مشکلات میں گھری ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی نئی اشرافیہ کی سازشوں کاایک لامتناہی سلسلہ تھا جو ختم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ ایسے میں نہ تو زرعی اصلاحات ہو سکیں اور نہ ہی جمہوریت اور قومیت کے تشخص کی بنیاد رکھی جاسکی۔ جہاں صوبائی، لسانی،نسلی اور برادری تعصبات کو ہوا ملی وہیں قومی سطح پر تشخص کے خلاء کو مذہبی نظریات نے پرکیا۔اجتہاد کی کمی کی وجہ سے مسئلہ یہ ہوا کہ جس مذہبی سیاسی فلسفے کو مسلم ممالک میں پذیرائی حاصل ہے‘ وہ قومی ریاست کو نہیں مانتا۔اس لئے نہ توہم ایک مضبوط قوم بن پائے اور نہ ہی مضبوط ریاست۔ پھر جمہوریت کی کمی اورآمریت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی آڑے آیا۔ ڈکٹیٹر ہر قومی مسئلے کو شخصی بنیاد پر حل کرنے کا عادی ہوتا ہے۔ وہ گیا تو نظام گیا۔نہ کوئی عوامی احساس ملکیت آیااور نہ ہی احساس قومیت۔ جبر کا نظام جب تک کمزور یا ختم ہوتا ہے تو عوام‘ قومی اداروں اور ڈکٹیٹر کی انا میں فرق کرنا بھول چکے ہوتے ہیں۔ یوں سارا غصہ ریاست پر ہی نکلتا ہے۔
اس تمام مسئلے کا کوئی فوری حل موجود نہیں۔عوام میں احساس قومیت اور احساس ملکیت رفتہ رفتہ آتے ہیں۔ ماضی میں جو ہوا‘ سو ہوا۔ ملک میں مضبوط ریاست کا قیام تبھی ممکن ہے جب ادارے مضبوط ہوں، جمہوریت کا پہیہ چلتا رہے،اظہار رائے کی آزادی ہو، عوام کو یہ علم ہو کہ ان کی ریاست کوئی کام ان کی مرضی کے بغیر نہیں کرتی۔ پھر یہ ہوگا کہ عوام خود ریاست کے دفاع کے لئے ہر وقت تیار رہیں گے۔ ریاست بھی ہر وقت عوام پر اعتبار کر پائے گی۔ ہم آدھی پونی صدی سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ ہمیں صدیوں اور نسلوں کا سفر پلک جھپکتے میں کرا دے گی۔ اسے مزید دس پندرہ سال دے کر دیکھ لیں۔ زمانہ شاہد ہے کہ اگر ایسا ہوا تو عوام اور میڈیا خود کو تصور سے بھی زیادہ حب الوطن ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں