دہشت گردی میں مرنے والوں کیلئے بھی سوچیں

ہم پر مسلط کی گئی دہشت گردی کے خلاف جنگ اور قومی سلامتی کے حوالے سے کوئی متفقہ پالیسی ہم بناسکتے ہیں نہ اس پر عملدرآمد کرواسکتے ہیں۔ مفادات اور اقتدار سے وابستہ ارفع واعلیٰ مخلوق نے عام آدمی کو بم دھماکوں اورخودکش حملوں میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ وہ جانیں اور دہشت گرد جانیں۔ قومی سطح پر نہ سہی انفرادی اور نجی ادارے کی سطح پر بھی کسی نے یہ نہیں سوچا کہ جس گھر کا کمانے والا دنیا سے چلا گیا ہے اس کے بچے اب زندگی کیسے گزاریں گے۔ ٹارگٹ تو ایک آدھ ہی ہوتا ہے لیکن مرنے والوں میں زیادہ تر بے گناہ اور غریب لوگ شامل ہوتے ہیں۔ کوئی مزدور ہوتا ہے تو کوئی دکاندار‘ کوئی ملازم ہوتا ہے تو کوئی خوانچہ فروش‘ یہ سب لوگ کسی نہ کسی گھر کے کفیل ہوتے ہیں۔ ہرواردات سینکڑوں گھروں کے چراغ گل کردیتی ہے۔ آسرے چھین لیتی ہے، بھائیوں کو بہنوں سے جدا کردیتی ہے‘ والدین کو اولاد سے، بیٹوں، بیٹیوں کو والدین سے اور شیرخوار اور معصوم بچوں کو مائوں کی گودسے محروم کردیتی ہے۔ ایسی ایسی روح فرسا اور اندوہناک کہانیاں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ کلیجہ منہ کو آتا ہے، دماغ مائوف ہوجاتا ہے اور خون کی گردش رکنے لگتی ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ اسے ایک واقعہ سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اہل اقتدار مذمت اور تعزیت کے دوفقرے ذرائع ابلاغ کو دے کر مطمئن ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ معصوم بچے، بچیوں اور خواتین کے چہرے سراپا سوال ہیں۔ وہ اس سماج سے پوچھ رہے ہیں کہ ہمارا کیا قصور تھا اور اب ہمارا کیا بنے گا؟ لیکن ہم میں سے کسی کے پاس ان سوالوں کا جواب نہیں، بے حسی کی بکل مارتے یہ سماج آنکھیں بند کرکے سویا رہتا ہے۔ اہل اقتدار اپنے اپنے آئیوری ٹاور (Ivory Tower) میں دبک کر بیٹھے رہتے ہیں۔ حکومت اور حکومتی ادارے اس قابل نہیں رہے کہ وہ ایسے خاندانوں کی مددکرسکیں۔ چلیں وہ نہیں تو ہم ہی سوچ لیں۔ ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ یہ لوگ بھی تو ہماری طرح ہی ہیں۔ آپریشن یا بم دھماکوں سے پہلے یہ بھی تو ہنسی خوشی کسی گھر میں ایک ساتھ رہتے تھے۔ ان کا کوئی کفیل تھا جس کی راہ اس کے بچے اور بچیاں روز دیکھتے ہیں۔ اب یہ لوگ کیسے زندگی گزاریں گے۔ میڈیا نے چند روز ایک واقعہ بیان کیا پھر کوئی اور اہم واقعہ اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ پرانے واقعات میڈیا کی سکرین سے ہی نہیں ذہن کی سکرین سے بھی مٹ جاتے ہیں۔ مرنے والوں کے بچے اور بچیاں اپنا لہو تلاش کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور پھر یہی سماج دادرسی نہ کر کے انہیں سماج ہی سے بدلہ لینے میں مددفراہم کرتا ہے۔ اصولی طور پر ایسے لوگ ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں لیکن جہاں ریاست یہ ذمہ داری نبھانے سے قاصر ہو وہاں سماج آگے بڑھتا ہے۔ مظلوموں کے آنسو پونچھتا ہے، ان کے اشک اپنے اندر جذب کرتا ہے اور کفالت سمیت تمام ضروریات زندگی کا خیال رکھتا ہے‘ تعلیم کا موقع فراہم کرتا ہے۔ زندگی کی جنگ مختلف محاذوں پر لڑی جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور بم دھماکوں کے دوران جہاں ہمت، حوصلے اور جذبے کی ضرورت ہے وہاں سماج میں چند ایسے لوگ بھی ہونے چاہئیں جو مل کر اس جنگ میں نشانہ بننے والوں کے لیے سوچیں۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو فوراً پتہ چل جائے گا کہ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو صاحب ثروت اور وسائل سے مالا مال ہیں، خدانے ان لوگوں کے مال میں ایسے لوگوں کا حصہ بھی رکھا ہوا ہے لیکن وہ اس ذمہ داری سے پہلوتہی کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے امیر ترین لوگوں اور گروپوں کی فہرست شائع ہوئی تھی ۔ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کے اثاثے اربوں اور کھربوں سے کم ہوں۔ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ ان کے اکائونٹس میں کتنے پیسے پڑے ہیں اور اکائونٹس کہاں کہاں ہیں۔ یہ لوگ سینکڑوں خاندانوں کو پال سکتے ہیں‘ یتیم بچوں کی کفالت کرسکتے ہیں، تعلیم دلواسکتے ہیں اور انہیں زندگی کے مرکزی دھارے میں لانے اور اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وہ چاہیں تو اس ملک کا قرضہ اتار سکتے ہیں۔ اپنے بیرون ملک پڑے ہوئے پیسے کو ملک میں لاکر صنعتوں کو فروغ دے سکتے ہیں۔ حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی خدمات بھی حاصل کرسکتی ہے۔ وہاں تو ہرکوئی چیرٹی میں پیسہ لگاتا ہے اور ایسے کام کرنے کے مواقع ڈھونڈتا ہے‘ لیکن ان کی خدمات کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے لیے حکومت کچھ کررہی ہے نہ کوئی ایسا ادارہ ہے جو ایسے افراد کے وسائل سے مستحق لوگوں کو ریلیف فراہم کرے۔ اس قوم نے ہر بحران میں زندہ ہونے کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ آج مزید عبدالستار ایدھیوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو معاشرے کو اس راہ پر ڈال سکیں۔ ضروری تو نہیں کہ ایسے بحرانوں میں لوگوں کی راہ دیکھی جائے یا ڈونرز کو ڈھونڈا جائے۔ سماج کے صاحبِ ثروت افراد مل کر خود بھی یہ کام کرسکتے ہیں۔ اچھی شہرت کے حامل دیانتدار خصوصاً ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ایک ایسا فنڈ یا ٹرسٹ قائم کردیا جائے جس میں لوگ اپنا حصہ ڈالیں۔ اس فنڈ اور ٹرسٹ کے معاملات نیک نام لوگ اپنے ہاتھوں میں رکھیں تاکہ شفافیت برقرار رہ سکے۔ چیک اینڈ بیلنس اور آڈٹ کا سخت انتظام ہو۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو خاص طورپر متحرک کیا جائے۔ کوئی ایسا نظام وضع کردیا جائے کہ حکومت کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ جس طرح ہم نے اکتوبر 2005ء میں کام کیا تھا‘ یہ کام مستقل بنیادوں پر کرسکتے ہیں۔ اس سے نہ صرف بحرانوں سے فوری طورپر نمٹنے میں مدد ملے گی اور متاثرہ خاندانوں کی کفالت جاری رہے گی بلکہ معاشرے میں وہ بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات بھی کم ہوجائیں گے جو دہشت گرد اور دہشت گردی کے واقعات پیدا کرتے ہیں۔ آئیے ہم بھی حکومت کا ہاتھ بٹائیں جومذمتی بیانات جاری کرکے تھک چکی ہے اور جس کے پاس اس عفریت کے چنگل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ اگر جاپانیوں نے جدید ٹیکنالوجی سے گھر تعمیر کرکے آئے روز زلزلوں کے ہاتھوں طاقتور جھٹکوں کا مقابلہ کرنا سیکھ لیا ہے تو ہم ایسا کیوں نہیں کرسکتے۔ بعض معاملات میں حکومت کو متحرک کرنا پڑتا ہے۔ چند پرعزم لوگوں کے سوچنے اور آگے بڑھنے کی ضرورت ہے‘ قافلہ خود بخود بنتا جائے گا۔ قوموں کے اندر تبدیلی تحرک سے ہی ممکن ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں