میں بیگ صاحب کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ حیرانی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ مسجد میں نماز کیوں پڑھ رہے ہیں بلکہ اصل وجہ یہ تھی کہ میں ان کی امریکہ سے اتنی جلدی واپسی کی توقع نہیں کررہا تھا۔ بیگ صاحب کو فوج سے ریٹائرہوئے کافی زمانہ بیت چلا۔ بہت صاحبِ مطالعہ اور خوش ذوق انسان ہیں۔ اتنا عرصہ فوج میں رہنے کے باوجود ان کی خوش ذوقی ، شعروادب سے لگائو اور بذلہ سنجی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا تھا۔ وہ بعض معاملات پر اپنی رائے پر ڈٹ جانے والے اور ناپسندیدہ حدتک کٹر واقع ہوئے ہیں۔ ان کے پاس اپنے موقف کو منوانے اور اسے سچ ثابت کرنے کے لیے لاتعداد دلیلیں اور واقعاتی شہادتیں بھی موجود ہوتی ہیں، مثلاً وہ پاکستانی معاشرے کے شدیدترین نقاد ہیں۔ ان کے بقول ہم لوگ ترقی نہیں کرسکتے‘ ہم ساری عمر امریکہ اور مغرب کے غلام رہیں گے۔ گلی محلے سے لے کر سماجی، سیاسی، معاشی اور تہذیبی سطح پر ہم لوگ جاہلوں کی طرح سوچتے ہیں۔ مرعوب لوگوں کی طرح قدم اٹھاتے ہیں۔ ہمارے پاس قانون نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ انصاف ہمارے درمیان سے اٹھ گیا ہے۔ میرٹ پر ہم یقین نہیں رکھتے۔ ہرکام سفارش‘ رشوت یا دبائو سے کروانا چاہتے ہیں‘ کسی کی زندگی، جان یامال محفوظ نہیں ہے۔ رشتوں کی پاسداری ختم ہوگئی ہے۔ مسجدیں اور عبادت گاہیں مقتل بن چکی ہیں، خون سفید ہوگیا ہے۔ محبت ، خلوص اور رواداری عنقاہوچکی ہے۔ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ رشتہ اور تعلق جیسے الفاظ نمائشی بن کر رہ گئے ہیں، اولاد باغی ہوگئی ہے‘ لوگوں کے پاس ایک دوسرے کا حال پوچھنے، خیال رکھنے یا سوچنے کا وقت نہیں ہے۔ وہ بعض اوقات یہاں تک کہہ جاتے ہیں کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ ان کے بقول انہوں نے جتنی زندگی یہاں بسر کی وہ سب اکارت گئی۔ جس طرح پاکستانی معاشرے کی خرابیوں اور زوال کے حوالے سے ان کے پاس بے شمار دلائل ہیں اسی طرح مغربی تہذیب اور معاشرے کے حق میں بھی ان کے پاس بے شمار باتیں موجود ہیں۔ مثلاً وہاں قانون کی حکمرانی ہے، انسانیت کا احترام ہے، جان ومال کی حفاظت‘ روزگار اور رہائش کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست یہ ذمہ داری پوری ایمانداری سے نبھارہی ہے۔ کوئی جھوٹ نہیں بولتا‘ کوئی کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ نہیں کرتا‘ عدالتیں انصاف کرتی ہیں‘ قانون کی خلاف ورزی کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ ہرایک کو اس کا حق ملتا ہے‘ تحریروتقریر کی مکمل آزادی ہے، فرد بہت اہمیت رکھتا ہے‘ حکومتیں اپنے عوام کے لیے، ان کی ترقی کے لیے ہروقت کوشاں رہتی ہیں ۔کرپشن کی سخت ترین سزائیں ہیں۔ بوڑھے لوگوں کی دیکھ بھال کے لیے الگ مراکز بنے ہوئے ہیں ۔ وہ ہر بات میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مغربی معاشرہ ہی ’’مثالی‘‘ معاشرہ ہے اور وہ باقی زندگی وہیں گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان سے زیادہ بحث کی گنجائش نہ ہوتی۔ ان کے دوہی بیٹے ہیں جو امریکہ میں مقیم ہیں۔ اچھی اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ۔ گزشتہ سال جب ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا تو تنہائی رفتہ رفتہ انہیں کاٹنے لگی۔ اب ان کا معمول نماز پڑھنا، مطالعہ کرنا اور دوستوں کے ساتھ گپ شپ رہ گیا تھا۔ وہ روزانہ شام ہمارے دوست ڈاکٹر صاحب کے دفتر میں بیٹھتے اور حالات حاضرہ پر تبصرے فرماتے ۔ ایک مہینہ پہلے ملے تو کہنے لگے ’’میں امریکہ جارہا ہوں، بیٹے کے پاس، اور اب واپس نہیں آنا۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں؟‘‘۔ ’’تمہیں یاد ہے کہ وہاں رہنا مجھے کس قدر پسند ہے۔ اب میں باقی وقت اپنی پسندیدہ جگہ پر گزارنا چاہتا ہوں۔ اپنے بیٹوں، بہوئوں، پوتوں اور پوتیوں کے پاس۔‘‘ ان کا چہرہ کھلا ہوا تھا۔ میں نے ان کے منصوبے پر خوشی کا اظہار کیا اور پھر ایک روز وہ گھر کو مقفل کرکے امریکہ سدھار گئے۔ لیکن اس دن میں انہیں مسجد میں نماز پڑھتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ نماز ختم ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنی جلدی واپس کیسے آگئے۔ کہنے لگے کہ میں زیادہ دیرتک وہاں نہیں رہ سکتا تھا۔ ’’کیوں ‘‘ میں نے استفسار کیا۔ ’’آپ کو تو وہاں جانا اور رہنا بہت پسند تھا۔ آپ ایک عرصے تک اس معاشرے کے گن گاتے رہے۔ ان کی خوبیاں بیان کرتے رہے اور اس کو ایک جنت سے تعبیر کرتے رہے۔ پھر کیا ہوا؟‘‘ ’’ہم ان سے بہتر لوگ ہیں ‘‘ انہوں نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’میں اپنے بیٹے کے گھر میں تھا۔ میرا بیٹا اور بہو روزانہ صبح کام پر نکل جاتے‘ بچے سکول چلے جاتے اور میں صبح سے شام تک اکیلا گھر میں بیٹھا رہتا‘ مسجد خاصی دورتھی اور میں پیدل وہاں نماز کے لیے نہیں جاسکتا تھا۔ بچے سکول سے واپس آکر اپنے اپنے مشاغل میں مصروف ہوجاتے۔ ویسے بھی انہیں مجھ سے کوئی خاص لگائو یا انس نہیں تھا۔ بیٹا دو ملازمتیں کرتا تھا۔ رات گئے واپس لوٹتا تو اس سے محض علیک سلیک ہی ہوپاتی اور وہ اگلے روز تازہ دم ہوکر ملازمت پر جانے کے لیے جلدی سونے کے لیے چلا جاتا۔ مجھے وہاں کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ میں گلیوں، محلوں اور سڑکوں پر چلتا تو لوگ بے نیازی اور اجنبیت سے پاس سے گزرجاتے‘ سبھی لوگ جلدی میں ہوتے۔ میری بیٹیوں، پوتوں، بہوئوں اور پوتیوں سمیت کوئی بھی شخص ایسا نہیں تھا جس نے رک کر، میرے پاس بیٹھ کر میرا حال پوچھا ہو۔ میرے ساتھ گپ شپ کی ہو۔ مجھے جاننے کی کوشش کی ہو۔ میری تنہائی کو شیئر کرنے کی سعی کی ہو۔ سو میں اداسی، ڈیپریشن اور تنہائی کی ایک ایسی دلدل میں دھنستا چلا گیا کہ مجھے اس آزاد فضا میں دم گھٹتا ہوا محسوس ہونے لگ گیا۔ میں اگر مزید وہاں کچھ دن رہتا تو شاید پاگل ہوجاتا۔ سو وہ ملک جہاں میری آنکھوں کا نور، میری اولاد رہتی ہے، جہاں رہنے کے لیے میں نے برسوں خوابوں کی فصل کاشت کی تھی اور جہاں کی آب وہوا اور فضا میرے لیے ایک آئیڈیل کی حیثیت رکھتی تھی، اس لیے چھوڑ آیا ہوں کہ وہاں مجھے کوئی نہیں پہچانتا تھا، میری کوئی شناخت نہیں تھی۔ جس طرح تم مجھے پوچھ رہے ہو، اس طرح مجھے پکڑ کر، میرے پاس بیٹھ کر، میرا حال پوچھنے اور حال بتانے کی کسی کے پاس فرصت نہیں تھی۔ سو میں عید سے پہلے ہی اپنوں کے درمیان واپس آگیا ہوں‘ اب ہم روزانہ شام کو ڈاکٹر صاحب کے پاس بیٹھا کریں گے۔‘‘ یہ کہہ کر بیگ صاحب نے مجھے گلے لگایا تو میں نے اپنے کندھے پر ان کی آنکھوں کو برستے ہوئے محسوس کیا اور میری قمیص بھیگتی چلی گئی۔