ایک اور صاف ستھرا، بے داغ، سچا، سیدھا اور کھرا شخص اس گلے سڑے، بدبودار اور سڑاندسے بھرپور نظام کا مزیدحصہ بننے سے انکاری ہوا اور خدا حافظ کہتا ہوا ہم ایسوں کو سوچنے کا سامان مہیا کرگیا کہ اس بوسیدہ نظام میں سچائی اور کھرے پن کے ساتھ کام کرنا کتنا مشکل ہے۔ لیکن ہم میں سے کون سوچے گا۔ جہاں ایک کار، چیئرمین شپ، اختیارات‘ ادارے کی سربراہی، مراعات ، کاروباری فوائد، ٹی اے ڈی اے، ترقیاتی فنڈز ، وزارت اور قائمہ کمیٹیوں کی سربراہی جیسی پرکشش ترغیبات اور اشیاء ہی مقصد حیات ٹھہریں، وہاں کون فخرو بھائی ایسے سرپھروں کو کام کرنے دیتا ہے یا ان کے ایسے کاموں پر سوچتا ہے۔ ہاں کچھ وقت گزرے گا، تاریخ انگڑائی لے گی اور واقعات پر پڑی ہوئی گرد کو ایک طرف کرکے اصل خدوخال کو سامنے لانے کی کوشش کرے گی کہ کیسے ایک صاف ستھرے شخص کو ادارے کے اندر اور باہر موجود نادیدہ قوتوں نے کام نہیں کرنے دیایا اس کو اس کی مرضی کے مطابق کام نہیں کرنے دیا گیا۔ کس طرح آرٹیکل 62اور 63، جعلی ڈگریوں ، الیکشن شیڈول اوردھاندلی کی شکایت کے ازالے کے حوالے سے اسے بے دست وپا کردیا گیا۔ جو کمیشن کی مکمل خودمختاری کے لیے جنگ لڑتا رہا‘ بالآخر اسے مجبور کردیا گیا۔ اس نے کچھ بھی نہ کہا‘ اپنا بیگ اٹھایا‘ ہینگر پر لٹکے اپنے کوٹ کو کندھے پہ رکھا اور سیڑھیاں اتر گیا۔ کہنے کو تو فخرالدین جی ابراہیم پر صدارتی الیکشن کے شیڈول کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا دبائو تھا، وہ چاہتے تھے کہ جو تاریخ الیکشن کمیشن نے مقرر کی ہے کمیشن اس تاریخ پر ڈٹ جائے۔ انہوں نے کمیشن کے اراکین کو قائل کرنے کی کوشش کی لیکن باقی اراکین نے دوسرے ایشوز کی طرح ان کا ساتھ نہیں دیا۔ فخرو بھائی کو الیکشن کمیشن کا چیئرمین بنے ابھی ایک مہینہ ہوا تھا کہ ان سے ایک غیررسمی ملاقات ہوئی جس میں انہوں نے اپنے لیے دعا کا کہا اور ساتھ ہی کہا کہ مجھے سب سے بڑا چیلنج کمیشن کے اندر سے درپیش ہے۔ کمیشن کے اندر سے کیا چیلنج درپیش تھا‘ وہ آہستہ آہستہ کھلتا چلا گیا۔ کمیشن کے باقی ارکان مختلف صوبوں سے تھے جنہیں کسی نہ کسی سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ کی سفارش پر رکھا گیا ہوگا یا عموماً رکھا جاتا ہے۔ ان اراکین کے اپنے اپنے مفادات اور ایجنڈے ہوتے ہیں، نوکری تو ہوتی ہی ہے وہ اپنے مربیوں کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ انہیں چیئرمین ، کمیشن اور ملک سے غرض نہیں ہوتی۔ واقفان حال کے مطابق کتنے ہی ایسے معاملات تھے جن سے چیئرمین کو بے خبر رکھا گیا، بعض اجلاسوں کی مکمل اور مناسب بریفنگ نہ دی گئی۔ ادارے کا ہرافسراپنے ایجنڈے پر کام کررہا تھا۔ سیکرٹری کمیشن کوئی بیان دیتا تھا، ڈائریکٹر جنرل اور ایڈیشنل سیکرٹری کچھ اور میڈیا کے سامنے بیان کردیتا تھا۔ عوام نے ایک باریش افسر کو کیمرے کے سامنے میڈیا کے ساتھ الجھتے بھی دیکھا۔ الیکشن کمیشن کا کون ترجمان تھا کسی کو کچھ پتہ نہ تھا۔ کمیشن کے اندر علاقائی بنیادوں پر گروپنگ موجود ہے اور یہ گروپنگ مراعات اور گریڈز کے لیے کی جاتی ہے۔ سیکرٹری کی الگ لابی ہے، ڈی جی زکی الگ لابی ہے، ارکان کی الگ الگ منڈلی ہے اور صوبائی الیکشن کمشنرز کی الگ لابی ہے۔ اس گروپنگ نے ایک صاف ستھرے شخص کو اپنی خواہشات پر چلانے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب رہے۔ یہی وجہ تھی کہ الیکشن کمیشن بعض ایشوز پر جگ ہنسائی کا مرکز بنارہا۔ آرٹیکل 62اور 63لاگو تو ہوا لیکن عملی طورپر کسی کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ بے چارے ڈاکٹر طاہر القادری شروع دن سے چلاتے رہے کہ الیکشن کمیشن کے تمام اراکین کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ لیکن ان کی کسی نے نہ سنی۔ انہی لوگوں نے ایک ایسے ہی اہم اجلاس میں‘ جونادرامیں ہوا‘ چیئرمین کے لیے سبکی کا سامان مہیا کردیا۔ چیئرمین نے ایک اعلیٰ شخصیت کو صرف اس لیے پہچاننے سے انکار کردیا کہ اس کے بارے میں انہیں مکمل بریفنگ نہیں دی گئی تھی۔ بعض معاملات پر ان کے افسران کی میڈیا کو بریفنگ بھی ان کے لیے سبکی کا باعث بنی۔ کمیشن کا ہررکن اپنے سٹیک ہولڈرز کو خوش کرنے کے چکر میں پڑا رہا یا ذاتی مراعات کو بڑھانے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن کمیشن کے معاملات میں ان کی دلچسپی اپنے اپنے حساب سے ہی رہی۔ کمیشن کے افسران مختلف ایشوز پر کنفیوژن کا شکار رہے۔ انہیں مکمل آگاہی نہ ہونے کے باعث عوام تک مکمل معلومات نہ پہنچ سکیں۔ مختلف افسران کی ایک ایشو پر رائے مختلف تھی‘ تشریح مختلف تھی‘ وضاحت مختلف تھی۔ صدارتی الیکشن پر کمیشن کے دیئے گئے شیڈول پر فخروبھائی ڈٹ جانا چاہتے تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود چاہتے تھے کہ کمیشن کی دی ہوئی تاریخ پر ہی انتخابات ہوں۔ لیکن باقی ارکان نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ان کا ساتھ نہ دیا۔ یوں ان پر اور ان کی ساکھ پر انگلیاں اٹھنا شروع ہوگئیں اور انہوں نے سوچنا شروع کردیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس خوش نما دلدل سے نکلا جائے اور پھر وہ نکل گئے۔ سو اس بدبودار اور سڑاند زدہ نظام کے سرپرستوں کو مبارک ہو، ان کے لیے کام کرنے والے کمیشن کے افسران کو بھی یہ سعد لمحہ مبارک ہو کہ ایک اچھا، کھرا اور سچا شخص بالآخر چلا گیا جیسے اس سے پہلے وہ چار بار اصولوں کی خاطر اپنے مناصب کو لات مار کر چلا گیا تھا۔ اب اپنے جیسا کوئی شخص ڈھونڈکر لائو جو آپ کو ترقیاں دے، مراعات دے اور آپ کو تحفظ دینے والوں کے مفادات کا خیال رکھے۔