میرو کا سوال

عید کی چھٹیوں میں ٹی وی دیکھتے ہوئے ایک منظر میں سے ایک اور منظر برآمد ہوا اور کچھ سال پہلے کا ایک واقعہ یادوں کی کھڑکی توڑتے ہوئے میرے سامنے آن کھڑا ہوا۔ ایئرپورٹ کو جانے والی سڑک کی جانب گاڑی جونہی مڑی تو میرو نے شورمچادیا کہ فوراً گاڑی روکیں۔ میں نے شروع میں تو اس کی بات یا مطالبے پر کوئی توجہ نہ دی لیکن اس کا اصرار جب شور میں تبدیل ہوگیا تو میں نے گاڑی سڑک کی بائیں جانب کھڑی کردی اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘ اس کے منہ سے ایک دم خوشی اور جوش کے ملے جلے جذبات سے مملوآواز نکلی’’مجھے دولہا دیکھنا ہے ۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کہاں ہے ‘‘ کہنے لگا ’’وہ رہا ۔ ہماری گاڑی کے پیچھے جوگاڑیاں آرہی ہیں نا۔ ان میں ہے۔‘‘ میرو نے گاڑیوں کی طرف اشارہ کیا اور میری پلکیں اس منظر پر جیسے جم سی گئیں۔ ہم وہیں کھڑے ہوگئے اور گاڑیاں گزرنے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ کوئی سات گاڑیاں تھیں۔ سب کی سب بہت قیمتی اور ایک سے بڑھ کر ایک ماڈل۔ سبھی گاڑیاں یوں سجائی گئی تھیں جیسے کسی بارات میں ہوتی ہیں اور ہرگاڑی میں لوگ اپنے ہاتھوں میں پھولوں اور روپوں کے ہارلیے بیٹھے تھے۔ لیکن کوئی ایسا نہ تھا کہ جس کے گلے میں ہار ہو۔ یوں دولہا اور عام لوگوں میں امتیاز نہ کیا جاسکا۔ یہ سبھی گاڑیاں ایئرپورٹ جارہی تھیں۔ میں نے سوچا ہوسکتا ہے کوئی نیا شادی شدہ جوڑا جہاز کے ذریعے آرہا ہو اور یہ اسے لینے جارہے ہوں اور وہاں سے جلوس کی صورت میں یا بارات بناکر واپس آنا ہو۔ میں نے میرو کو یہ کہہ کر کہ دولہا ایئرپورٹ پر دیکھتے ہیں‘ گاڑی کو ایئرپورٹ کی طرف بھگا دیا‘ جہاں ہم ایک عزیز کو لینے جارہے تھے۔ ایئرپورٹ کی پارکنگ میں زیادہ تر ایسی گاڑیاں تھیں جو سجائی گئی تھیں۔ انتظار گاہ میں لوگوں کا اس قدر جم غفیر تھا کہ الاماں۔ اکثر کے ہاتھوں میں پھول اور روپوں کے ہارتھے۔ لوگوں کی زبانی علم ہوا کہ حج پروازوں کے ذریعے حاجی آرہے ہیں اور ان کے عزیز واقارب انہیں لینے آئے ہوئے ہیں۔ ہمارے عزیز کی پرواز ایک گھنٹہ تاخیر سے آرہی تھی لہٰذا ہم نے وہ ایک گھنٹہ ایئرپورٹ پر ہی گزارنے کا فیصلہ کیا اور حاجیوں کے ایئرپورٹ سے نکلنے اور گاڑی تک پہنچنے کے تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ جونہی کوئی حاجی باہر نکلتا پچیس تیس کے قریب لوگ اس کے گلے میں ہارڈالتے۔ کچھ پھولوں اور روپوں کی بارش کرتے چندایک گلے لگ کر روتے۔ بزرگ بلائیں لیتے۔ ویڈیو کیمرہ تھامے مستعدنوجوان یہ تمام مناظر قید کرلیتے۔ ہاروں سے لدا ہوا حاجی اس گاڑی میں بیٹھتا جو سب سے زیادہ سجی ہوئی ہوتی۔ قافلہ چل پڑتا۔ ویڈیو فلم بننی شروع ہوجاتی اور میرا خیال ہے پورا راستہ بنتی جاتی۔ ہرحاجی کے ساتھی اتنا زیادہ سامان ہوتا کہ وہ چارپانچ گاڑیوں میں سماتا۔ بعض اعزاء اقربا اس وقت تک ایئرپورٹ سے رخصت نہ ہوئے جب تک حاجی صاحب اور ان میں چیزوں کا تبادلہ نہیں ہوگیا۔ اور بعض تو حاجی صاحب سے ناراض ہوکر چلے گئے کہ ان کے لیے اس سامان میں کچھ نہ تھا۔ میرو اپنی کمرعمری کی وجہ سے یہ مناظر بہت حیرت اور دلچسپی سے دیکھتا رہا اور میں اس کے سوالات کے جوابات دیتارہا۔ کہتے ہیں جب پورے شہر، قصبے یا گائوں میں ایک آدھ شخص حج کا فریضہ ادا کرکے لوٹتا تو تب اسے لینے بہت دورتک لوگوں کو جانا پڑتا۔ اکا دکا حاجی ہونے کی وجہ سے سارے لوگ انہیں پہچانتے اور ان کے نیک نام کو سند مانتے ۔ لوگ انہیں حاجی صاحب کہتے اور وہ بھی اپنے نام کے ساتھ حاجی کے سابقے کا اضافہ کرلیتے۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے یہ مقدس فریضہ محض ایک سماجی رسم بن کر رہ گیا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کا تعلق کردار سے نہیں بلکہ محض نمائش اور پیسے سے رہ گیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ نہ حج سے کوئی فرق پڑ رہا ہے نہ دعائوں سے۔ ہرسال لاکھوں لوگ عمرہ اور حج کی سعادت حاصل کرنے جاتے ہیں‘ خانہ کعبہ اور روضۂ رسول ؐ پر عبادتیں کرتے اور گڑگڑا کر دعائیں مانگتے ہیں‘ گریہ کرتے ہیں لیکن سماج پر مجموعی طورپر کوئی اثر نہیں پڑرہا۔ باب قبولیت جیسے بند ہوگیا ہے۔ جھوٹ بھی اسی طرح جاری ہے اور ناپ تول میں کمی بھی ویسے ہی کی جارہی ہے۔ ناجائز منافع بھی کمایا جارہا ہے اور غریبوں، مسکینوں اور رشتہ داروں کا حق بھی اسی طرح مارا جارہا ہے۔ اپنے بھائیوں، بہنوں اور یتیم رشتہ داروں کے حق مارکر ان کے پیسوں سے عمرے اور حج کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور ناجائز منافع کے لیے سردھڑ کی بازی بھی لگادیتے ہیں۔ عمرے اور حج بھی کرتے ہیں اور ساتھ سمگلرز اور چوروں کی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ ہم ہرسال حج کرنے یا عمرہ کی سعادت حاصل کرنے تو چلے جاتے ہیں لیکن محلے میں کسی یتیم کی تعلیم، کسی بیمار کی دوا یا کسی بھوکے کو کھانا کھلانے کا انتظام نہیں کریں گے۔ ہم بڑی بڑی کوٹھیاں اور عالی شان گھر تو بنالیں گے لیکن اپنی گلی کی حالت ٹھیک نہیں کریں گے۔ وہاں گندگی بھی ہوگی اور بدبودار پانی بھی کھڑا رہتا ہے۔ ہمیں موقع ملے تو زکوٰۃ کا پیسہ بھی کھاجاتے ہیں اور بیت المال کا فنڈ بھی ہڑپ کر لیتے ہیں۔ ہم ہرسال حضرت امام حسینؓ کی عظیم قربانی کو یادکرتے ہیں، ان کے لیے روتے ہیں لیکن جس مقصد کے لیے انہوں نے قربانی دی تھی اسے یکسر فراموش کردیتے ہیں۔ ہم کسی کے لیے حق کی آواز اٹھاتے ہیں نہ کسی کو انصاف دلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ سال میں ایک دفعہ عیدمیلادالنبیؐ اور محرم کے جلوس میں جاکر سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمارا دینی فریضہ پورا ہوگیا۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ صاحب حیثیت لوگوں کے موجود ہونے اور زکوٰۃاور خیرات دیئے جانے کے باوجود غربت میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ خودکشیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ جس معاشرے میں ناجائز ذرائع سے کمائے جانے والے پیسوں سے حج اور عمرے کیے جائیں، زکوٰۃ اور خیرات دی جائے وہاں کے لوگوں کے حج اور عمرے مقبول ہوتے ہیں نہ نمازیں۔ توبہ قبول ہوتی ہے نہ دعائیں۔ اور ہاں‘ میں نے میرو سے کہا کہ جو شخص حج کرلیتا ہے وہ حاجی کہلاتا ہے اور اپنے نام کے ساتھ حاجی کا لفظ بھی لگالیتا ہے تو وہ فوراً بولا ’’بابا! پھرتو جو لوگ نماز پڑھتے ہیں انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’نمازی‘‘ کا لفظ لگالیا کریں کہ نماز بھی حج کی طرح اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہے۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں