مرتا میں ہی ہوں

9th ایونیو کے پہلے پولیس ناکے پر طویل ہوتی ہوئی قطار میں گاڑی کے اندر سے میں نے اپنے دائیں اور بائیں جانب کھڑی گاڑیوں کو دیکھا تو خیال کا ایک لپکا آیا اور دفعتاً خوف کی ایک بے نام سی لکیر میرے جسم کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کرتی ہوئی مجھے بے حال کر گئی۔ ’’یہاں بھی تو دھماکہ ہو سکتا ہے‘‘۔ اوہ میرے خدایا! مجھے موت اپنے سامنے ناچتی ہوئی نظر آنے لگی۔ گوشت‘ ہڈیاں‘ بارود‘ دھواں‘ چیخ پکار‘ گاڑیوں کا شور اور ایمبولینس کے ہارن۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ہاتھ کانوں پر رکھ لیے۔ ابھی کچھ دن پہلے بلیو ایریا میں ہونے والا واقعہ آنکھوں کی پتلیوں پر جم چکا تھا‘ جسے کھرچنے میں شاید کئی برس لگ جائیں۔ گاڑی رینگتے ہوئے ناکے کے پاس پہنچی اور پولیس کے جوان نے مجھے چیک کیے بغیر گزرنے کا اشارہ دے دیا۔ ابھی تھوڑی ہی دور گیا تھا کہ ہٹو بچو کی آوازوں میں سکیورٹی کی گاڑیوں کا ایک طویل قافلہ پاس سے گزر گیا۔ سکیورٹی کی گاڑیوں پر بیٹھے ہوئے جوانوں کی بندوقوں کا رُخ ہماری طرف تھا۔ پتہ چلا کہ یہ حکومتی وی آئی پی کا قافلہ تھا۔ مجھے ایک میٹنگ کے سلسلے میں پاک سیکرٹریٹ پہنچنا تھا۔ ہمارے ایک دوست امریکہ سے آئے ہوئے ہیں اور وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیںکہ حکومت اس کے سرمائے اور خدمات سے فائدہ اٹھائے لیکن معلوم ہوا کہ وفاقی وزیر کے پاس وقت نہیں ہے لہٰذا اس سے ملاقات فی الحال نہیں ہو سکتی۔ سو میرے دوست بہت مایوس ہیںاور واپس جانے کا سوچ رہے ہیں۔ مجھے یاد آیا کہ مجھے کراچی کے ایک دوست کے بیٹے کے جینوئن کیس کے لیے ایک اور وزیر سے بات کرنی ہے۔ میں ساتھ والے بلاک میں پہنچا تو حسبِ توقع وہ موجود نہیں تھے۔ پتہ چلا کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر زیادہ تر وہ گھر میں ہی بیٹھتے ہیں۔ میں نے گاڑی موڑی اور اپنا رُخ شہر کے سب سے بڑے ہسپتال کی طرف موڑ دیا جہاں مجھے ایک دوست کی عیادت کرنا تھی۔ وہاں پہنچ کر یوں لگا جیسے سارا شہر موجود ہے لیکن سکیورٹی کے لیے محض چند نوجوان ہیں۔ میں ہسپتال کے مختلف شعبوں‘ وارڈوں اور دفاتر میں سے گزرتا ہوا عام لوگوں کے اژدھام میں گم ہو گیا۔ مجھے کسی نے نہیں پوچھا کہ میں کیوں پھر رہا ہوں۔ عیادت کرنے کے بعد وی آئی پی وارڈ کی طرف گیا تو وہاں دس پندرہ پولیس کے جوان پہرہ دے رہے تھے۔ پتہ چلا کہ کوئی اہم آدمی ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ وہ دن کا ایک بجا رہی تھی۔ مجھے سرور جاوید کو ایئرپورٹ پر ملنا تھا جو اگلی پرواز سے کراچی جا رہے تھے۔ میں بہت ہی آسانی کے ساتھ پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے ریسٹورنٹ پہنچ گیا جہاں وہ میرا انتظار کر رہا تھا۔ ریسٹورنٹ ایئرپورٹ کی عمارت کے بالکل وسط میں واقع ہے۔ مجھے مین گیٹ سے پارکنگ اور پارکنگ سے ریسٹورنٹ تک پہنچنے تک کسی نے بھی نہیں روکا۔ میں نے وہاں کسی سکیورٹی کے بندے کو نہیں دیکھا۔ وہاں لوگوں کا ہجوم دیکھنے کے قابل تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے یہ ایئرپورٹ نہیں بلکہ پیر ودھائی اڈہ ہو۔ میں نے بکنگ کائونٹر کے گیٹ پر تعینات آدمی سے پوچھا کہ یہاں سکیورٹی کے لیے پولیس کیوں نہیں ہے، تو اس نے بتایا کہ ہمارے پاس پولیس کی نفری کم ہے اور جو موجود ہے اس میں سے آدھی سے زیادہ وی آئی پی لائونج کی حفاظت کے لیے مختص ہے۔ ایئرپورٹ سے نکلا تو سوچا میں پولیس سٹیشن کی صورتِ حال دیکھتا چلوں۔ پولیس سٹیشن پہنچا تو وہاں ہُو کا عالم تھا۔ تھانے کو دیکھ کر عدم تحفظ کا احساس فزوں تر ہو گیا۔ محرر نے بتایا کہ ہمارے سٹیشن میں موجود آدھے سے زیادہ پولیس کے جوان ڈی پی او‘ آر پی او‘ کمشنر اور ڈی سی او کے دفاتر میں تعینات ہیں۔ میں تھانے سے باہر نکلا تو پولیس ناکے پر ٹریفک میں پھنس گیا۔ میں نے سیٹ کی پشت سیدھی کی اور سوچا ’’تو کیا یہ طے ہے کہ اس ملک میں سکیورٹی اور حفاظت صرف امراء اور حکمران طبقے کے لیے ہی ہے؟ کیا حکمرانوں‘ وی آئی پیز اور بڑے لوگوں کی جانیں عام آدمی کی زندگی اور جانوں سے زیادہ قیمتی ہیں؟ کیا اپنے گھروں‘ دفاتر اور عافیت کدوں میں بیٹھ کر لوگوں کا مورال بلند کیا جا سکتا ہے؟ کیا عام آدمی کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے کہ وہ یا تو مہنگائی‘ بے روزگاری اور غربت کے ہاتھوں سسک سسک کر مرے یا پولیس ناکے‘ بازار‘ ہوٹل‘ مساجد‘ سکول یا سڑک پر دہشت گردوں کے ہاتھوں خودکش حملے میں جان دے دے‘‘۔ اچانک سوچوں کی کھڑکی توڑتے ہوئے اس فلم کا ہیرو میرے سامنے آن کھڑا ہوا،جو دہشت گردی کے موضوع پر بنائی گئی تھی۔ اس فلم کا ہیرو نصیر الدین شاہ روز روز کے دھماکوں سے تنگ آ کر ایک روز پولیس کمشنر کو فون کرتا ہے کہ میں نے شہر کے پانچ مقامات پر بم نصب کر دیئے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ بم نہ پھٹیں تو شام تک مختلف جیلوں میں بند دہشت گردوں کو رہا کر کے مقررہ جگہ پر پہنچا دیں۔ حکومت اس کے مطالبات مان کر مطلوب ملزمان کو مقررہ جگہ پر لے جاتی ہے۔ ملزمان جونہی مقررہ جگہ پر پہنچتے ہیں وہ انہیں وہاں نصب شدہ بم کے ذریعے مار دیتا ہے۔ پولیس کمشنر پوچھتا ہے کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ دراصل میں انہیں مارنا چاہتا تھا، بچانا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے کوئی بم کہیں نصب نہیں کیا ہوا۔ کمشنر پوچھتا ہے کہ تم کون ہو؟ تو وہ کہتا ہے ’’میں ایک Stupid Common Man ہوں۔ جو روزانہ کام پر جاتا ہے تو اسے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ زندہ واپس آئے گا یا نہیں۔ جو کبھی ٹرین‘ کبھی کسی بازار‘ کبھی کسی تھانے اور کبھی کسی دفتر میں مارا جاتا ہے اور کوئی اس کا حال تک نہیں پوچھتا۔ میں وہ ہوں‘ جو ہاتھ میں تسبیح پکڑنے‘ داڑھی بڑھانے اور ٹوپی پہننے سے ڈرتا ہے۔ جھگڑا کسی کا بھی ہو مرتا میں ہی ہوں۔ آپ نے بھڑیں تو دیکھی ہوںگی نا! ان میں سے کوئی بھی چُن لیں۔ وہ میں ہی ہوں۔ جس کے مقدر میں ذلت کی موت مرنا لکھ دیا گیا ہے۔ آپ لوگوں نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا ہے اور ہم حالات سے لڑنے کی بجائے، ان کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ دہشت گرد ہم سے زیادہ ذہین تو نہیں۔ ہم ان کا توڑ کر سکتے ہیں‘‘۔ گاڑی پولیس ناکے سے گزر رہی تھی تو خیال آیا کہ اگر یہاں کا Stupid Common Man ایسا کرنے پر مجبور ہو گیا تو کیا سماج کا توازن بگڑ نہیں جائے گا؟ کیا حکمران اسی طرح اپنے اپنے عافیت کدوں میں دبک کر بیٹھے رہیں گے؟ کیا اسی طرح سکندر شہروں کی سڑکوں پر آ کر زندگی مفلوج کرتے رہیں گے اور کوئی زمرد خان اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام خود کرنے پر مجبور ہوتا رہے گا؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں