روزنامہ ’’دنیا‘‘ کو پہلی سالگرہ مبارک ہو۔ ان بارہ مہینوں اور 365 دنوں کا یہ سفر کیسا گزرا اس کے بارے میں ’’دنیا‘‘ کی ٹیم کے وہ افراد بہتر انداز میں روشنی ڈال سکتے ہیں جن کی دن رات کی محنت نے اسے ایک ننھے پودے سے ثمر آور اور سایہ دار مضبوط درخت کے قالب میں ڈھال دیا ہے لیکن ہم ایسے ٹوٹے پھوٹے لفظ لکھنے والوں‘ خوابوں کی تراش خراش‘ خیالوں کی ظروف سازی اور یادوں کی پیکر تراشی کرنے والوں کے نزدیک‘ کسی بھی ادارے یا اخبار کی کامیابی کو پرکھنے کا پیمانہ مختلف ہوتا ہے۔ سارتر نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کسی فن پارے یا تخلیق کی کامیابی کو پرکھنے کا ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تک اسے پڑھ کر نفرت‘ غصہ‘ محبت‘ جنون‘ اختلاف‘ جھنجھلاہٹ یا ردعمل دینے کا جذبہ پیدا ہوتا رہے گا اس وقت تک وہ تخلیق پارہ کامیاب تصور کیا جاتا رہے گا۔ اس کسوٹی پر بھی اگر ہم دیکھیں تو ’’دنیا‘‘ نے ان تمام انسانی جذبات اور محرکات کو ایک مکالمے کی شکل دی ہے۔ لکھنے اور پڑھنے والوں کو ایک ایسا چمنستاں مہیا کردیا ہے جس میں مختلف النوع اور رنگا رنگ پھول کھلے ہوئے ہیں جن کی باس زندگی اور زندگی کے رویوں کی تہذیب میں اپنا رچائو اور حصہ لیے موجود ہوتی ہے۔ اگر صرف ادارتی صفحات کی ہی بات کریں تو نظریات‘ خیالات‘ تصورات اور تجزیوں کا ایسا تنوع بہت کم اخبارات کے ادارتی صفحات کی زینت بنتا ہے اور سب سے اہم بات جو اسے دوسرے اخبارات سے ممتاز کرتی ہے وہ لکھنے والوں کا آزادیٔ اظہار ہے جو لکھنے والے کو بہت کم کم میسر آتا ہے۔ مجھ سمیت کتنے ہی ایسے لکھنے والے ہیں جو ’’دنیا‘‘ میں صرف اس لیے آئے کہ انہیں یہاں لکھنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ لکھنے والوں کے پاس اور ہوتا ہی کیا ہے۔ چند حروف‘ کچھ خواب اور نظریات۔ یہ ایسا کریڈٹ اور قابل تحسین کام ہے جو صرف اور صرف ایڈیٹر انچیف ’’دنیا‘‘ اور ’’دنیا میڈیا گروپ‘‘ کے چیئرمین میاں عامر محمود اور گروپ ایڈیٹر جناب نذیر ناجی کے حصے میں آیا ہے۔ میاں عامر محمود کی ذاتی توجہ اور محنت نے جس طرح میڈیا گروپس‘ چینلز اور اخبارات کے ہجوم میں ’’دنیا نیوز‘‘ کو ایک باوقار ٹی وی چینل کے طور پر منوایا اسی طرح روزنامہ ’’دنیا‘‘ محض ایک سال کے عرصے میں پڑھنے والوں کے درمیان ایک الگ اور مثبت شناخت لیے سامنے آیا ہے اور مزید استحکام کی شاہراہ پر تیزی سے رواں دواں ہے۔ جناب نذیر ناجی کا گرچہ نام ہی کسی اخبار کے لیے ایک معتبر اور باوقار حوالہ ہے لیکن انہوں نے بھی وابستگی کے بعد اس اخبار کو ہر طبقے اور مکتبۂ فکر کے لوگوں کے لیے پسندیدہ اور مؤثر بنانے کے لیے دن رات مسلسل کام کیا ہے۔ مجھے ’’دنیا گروپ‘‘ میں ناجی صاحب ہی لے کر آئے اور کالم نگاروں کی اس خوبصورت کہکشاں میں شامل کیا۔ ایک صاحبِ طرز کالم نگار کے طور پر تو ان کا نام مسلمہ ہے ہی لیکن ان کا نام ایک جدید اور صاحبِ طرز نظم گو کے طور پر بھی اہم ہے۔ جدید نظم لکھنے والوں میں ان دنوں افتخار جالب‘ عباس اطہر‘ انیس ناگی اور دوسرے شامل تھے۔ ان کا تذکرہ جناب ظفر اقبال نے بھی کیا ہے۔ ناجی صاحب سے گزارش ہے کہ اپنی نظموں کو ا گر وہ یکجا نہیں ہیں تو یکجا کر کے انہیں سامنے لائیں تاکہ آج کا ادب کا طالبعلم بھی انہیں پڑھ سکے اور نظم کے رجحانات کا مطالعہ کر سکے۔ جس اخبار میں جناب نذیر ناجی‘ جناب ہارون الرشید‘ اوریا مقبول جان‘ اردو کے بڑے غزل گو جناب ظفر اقبال‘ رجحان ساز شاعر جناب اظہار الحق اور منفرد مزاح گو ہمارے دوست خالد مسعود خان کے کالم بھی شائع ہوتے ہوں‘ اس کی تزئین‘ آرائش‘ تنوع اور دلکشی کے بارے میں دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ جناب ظفر اقبال نے درست اشارہ کیا ہے کہ جناب نذیر ناجی‘ اوریا مقبول جان‘ جناب ظفر اقبال‘ محمد اظہار‘ خالد مسعود‘ ڈاکٹر اختر شمار‘ کاظم جعفری اور میرے ہوتے ہوئے مشاعرے کے لیے کسی کو باہر سے بلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس پورے عرصے میں ادارتی ٹیم کے دوستوں سجاد کریم‘ عمار چودھری اور اسلم کولسری نے جس طرح ادارتی صفحے کی خوبصورتی کو برقرار رکھنے اور اس میں اضافہ کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا وہ قابلِ تعریف ہے۔ ’’دنیا‘‘ نے ابھی بہت آگے جانا ہے۔ اسے ایک ایسے تھنک ٹینک کی شکل اختیار کرنا ہے جہاں سماج کی مثبت قدروں کے فروغ اور ملک و قوم کی ترقی کے پیمانوں کی بُنت پر مکالمہ ہو‘ مسائل اور ایشوز کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ اس کے حل کی طرف پیش قدمی ہو۔ ضروری نہیں ہوتا کہ لکھے ہوئے لفظ سے کوئی انقلاب برپا ہو جائے یا زندگی میں تبدیلی واقع ہو جائے یا سماج پہلے سے بہتر ہو جائے۔ ہاں اگر لکھے ہوئے لفظ سے کوئی مکالمہ آغاز ہو جائے‘ سوچ کی زیریں لہروں میں بھی ارتعاش پیدا ہو جائے‘ کسی خیال کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہو جائے‘ کسی مایوس دل کے حجرے میں آرزو کا دیا جل جائے‘ کہیں امیدوں کی کوئی فصل پیدا ہو سکے‘ زندگی آسان ہو سکے‘ کسی شب کے کسی پہر یادوں کا جہاں آباد ہو سکے‘ کسی کے اندر زندہ رہنے کی خواہش پیدا ہو سکے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ لکھا ہوا اکارت نہیں گیا۔ لکھنا ایسے ہی ہے جیسے سانس لینا لیکن یہ ہے بہت اذیت ناک عمل۔ خیال سے قرطاس پر منتقل ہونے میں لفظ کو ایک عجیب کرب سے گزرنا پڑتا ہے۔ کالم لکھنا شعر لکھنے سے قدرے مختلف عمل ہے۔ یہ سامنے کے موضوعات کو تہہ داری کے بغیر ابلاغ کو جامہ پہنانے کا عمل ہے۔ اس میں کوئی تخلیقی جادو یا Gimmick نہیں ہوتا۔ ہاں ٹریٹمنٹ اور سٹائل لکھاری کو مختلف بنا دیتا ہے۔ ایک تخلیق کار اور شاعر اپنی تخلیقی ایج سے کالم کو بھی تخلیقی رنگ میں ڈھال دیتا ہے۔ وہ اپنے قاری کی انگلی پکڑ کر اسے خیالوں‘ یادوں‘ نظریات‘ سوچوں‘ سوالوں اور خوابوں کے حیرت بھرے جہانوں کی سیر کراتا ہے اور کبھی کبھی اپنی سوچوں اور خوابوں کی پٹاری کو عین چوراہے میں کھول کر بیٹھ جاتا ہے اور ایسے طلسمی کرتب دکھاتا ہے کہ دیکھنے اور پڑھنے والا حیرت سے انگلیاں دانتوں میں دبائے سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ میں بھی اپنی سوچوں اور خوابوں کی پٹاری ’’دنیا‘‘ میں کھولے بیٹھا ہوا ہوں۔