سامراج کسی بھی دور کا ہو، اس کا طریق کار، اس کے اہداف اور ذہنی مرکزہ جوہری طور پر ایک ہی ہوتا ہے۔ ہدف تک پہنچنے کے راستے اور حکمت عملی میں فرق آسکتا ہے لیکن منزل ایک ہی ہوتی ہے۔ انیسویں صدی ہو یا اکیسویں صدی‘ استحصالی قوتوں اور سامراجی نمائندوں کا بنیادی ہدف اپنے علاقے، سلطنت اور نظریے کو وسعت اور فروغ دینا، دوسرے ممالک پر اپنی بالادستی قائم کرنا اور پوری دنیا کے تیل، گیس اور دسرے معدنی ذخائر کو اپنے کنٹرول میں لینا ہوتا ہے۔ ایسا طاقتور ملک اس مقصد کے لیے اپنے ہی وضع کردہ اصولوں، بین الاقوامی طور پر مسلمہ انسانی حقوق‘ اپنے ہی بنائے ہوئے اداروں کے منشور اور مقاصد کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا ہے۔ وہ سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے دوسرے اداروں اور ان کے مینڈیٹ کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تضحیک کرتا ہے اور اپنی ٹیکنالوجی کی طاقت اور برتری کی بنا پر دوسرے ممالک کی خود مختاری، آزادی، سلامتی اور وقار کو پائوں تلے روندتا چلا جاتا ہے۔ طاقت کے اس کھیل میں اسے ہر قدم پر بہت سارے سٹیک ہولڈرز اور کھلاڑی مل جاتے ہیں جو بہرحال شطرنج کے مہرے ہوتے ہیں جنہیں جب اور جیسے چاہا استعمال کرلیا جاتا ہے۔ جب احتجاج، بغاوت میں ڈھلنا شروع ہوجاتا ہے اور عوام پر ان کے اپنے ہی لوگ گولیاں برسانے لگتے ہیں تو ظلم کے خاتمے، انسانی حقوق کی بحالی اور جمہوریت کی بالادستی کے لیے یہ ان ممالک پر چڑھ دوڑتا ہے۔ کبھی خود اور کبھی اپنے نمائندوں کو وہاں بٹھا دیتا ہے تاکہ وسیع تر ایجنڈے کو اس ملک کے ’’عوام کے وسیع تر مفاد میں‘‘ آگے بڑھایا جاسکے۔ اگر آج امریکہ دھونس، دبائو، معاشی پابندیوں، اقتصادی ناکہ بندیوں، فوجی امداد کی بندش، فضائی حملوں، حکومتوں کے بدلنے، بغاوتیں اور شورشیں برپا کرنے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے ایجنٹوں کو خریدنے اور پیسہ پھینک کر سیاستدانوں اور حکمرانوں کی چند روزہ اقتدار کی بھیک دے کر یہ کام کررہا ہے تو انیسویں صدی میں بھی کم و بیش اسی طریقے کا چلن رہا۔ اس وقت امریکی حکومت اپنی سلطنت کو وسعت دینے کے لیے سرخ فام انڈین قبائلیوں سے ان کی زمینیں خریدنے کی پیشکش کرتی۔ وہ انکاری ہوتے تو ان کومنہ مانگے دام پیش کیے جاتے۔ طرح طرح کی ترغیبات دی جاتیں‘ پھر بھی نہ مانتے تو ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جاتا اور انہیں مجبور کردیا جاتا کہ وہ اپنی زمینوں سے دستبردار ہوجائیں۔ وہ پھر بھی نہ مانتے تو زبردستی ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا جاتا۔ اس کام کے لیے وہ پہلے قبیلے کے سردار کو خریدنے کی کوشش کرتے، قیمت لگاتے، سردار بک جاتا تو کام آسان ہوجاتا ورنہ انہیں زبردستی قبضہ کرنا پڑتا۔ دو صدیاں بیت گئیں۔ سامراجی طرز حکومت اور فلسفے میں کوئی فرق نہیں آیا اور بکنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ہوئی۔ اگر فرق آیا ہے تو ٹیکنالوجی میں اور بکنے والوں کی شرائط اور قیمتوں میں آیا ہے۔ پاکستان میں سیاستدانوں، حکمرانوں، مذہبی گروہوں اور دانشوروں کو خریدنے اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرکے پھینکنے کا عمل سامراج نے شروع ہی سے جاری رکھا ہوا ہے۔ کسی کو ڈیل اور سمجھوتوں میں جکڑ کر‘ کسی کو اقتدار کی ہڈی دے کر‘ کسی کو وطن واپسی کی اجازت دے کر اور کسی کو محفوظ راستہ دے کر وہ اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرتا جا رہا ہے۔ مصر، لیبیا، عراق اور یمن میں بھی اسے کتنے ہی بکنے والے مل گئے اور اب ایک مرتبہ پھر شام کے قبضے میں بھی وہی حکمت عملی، وہی طریق کار، وہی شورش، وہی بغاوت، وہی قتل عام، وہی بہانے اور وہی ساتھ دینے والے اندر کے لوگ، اپنے پڑوسی مسلمان بھائی، جو ادنیٰ اور پست گروہی، مسلکی اور نظریاتی اختلاف کی بنا پر لوگوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور ابھی موت کے رقص میں مزید ساتھ ناچنے پر بھی تیار ہیں۔ خفیہ اور علانیہ اپنی حمایت اور پشت پناہی کا وعدہ کر چکے ہیں۔ کرائے پر لڑنے والے جنگجو مل گئے ہیں اور لمبی اور بھاری عبائیں پہنے اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل ہوتے دیکھ کر محظوظ ہونے والے بھی۔ ’’شام‘‘میں گہری رات تاریک تر ہوتی جا رہی ہے۔ سامراجی عزائم کا ساتھ دینے کے اعلانات اور دھمکیوں کے خوف کی فضا میں ایک ایسا خط بھی ہے جو اس وقت آپ کے ساتھ شیئر کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔ ممکن ہے آپ نے یہ خط پہلے بھی کہیں پڑھ رکھا ہو۔ لیکن اچھی چیز کو دوبارہ پڑھنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہوتا۔ 1854ء میں جب امریکی حکومت نے ایک سرخ فام انڈین قبیلے کے سردار کو زمین بیچنے کی دعوت دی تو اس کے جواب میں قبیلے کے سردار Seattle نے ایک خط بھیجا جو یوں تھا: ’’اے واشنگٹن کے سفید فام سردار! ہمیں پیغام آیا ہے کہ تم ہماری زمینوں کو خریدنا چاہتے ہو۔ تم نے دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا ہے حالانکہ تمہیں ہماری دوستی کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ اگر ہم نے اپنی زمینیں نہ بیچیں تو تم اپنی بندوقیں لے کر آجائو گے اور ان پر قبضہ کرلو گے۔ ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ ہم اپنے آسمان کی وسعت اور دھرتی ماں کی چاہت کیسے بیچیں۔ اگر ہم خود بھی اپنی ہوا کی تازگی اور اپنے پانیوں کی لطافت کے مالک نہیں ہیں تو تم ہم سے وہ کیسے خرید سکتے ہو۔ اے واشنگٹن کے سردار! تم نے جو ہماری دھرتی ماں کی چاہت اور خوشبو کو خریدنے کا پیغام بھیجا ہے‘ کیا تم جانتے ہو کہ تم کس چیز کا سودا کررہے ہو؟ تم کہتے ہو کہ تم نے ہمارے لیے ایک علاقہ مخصوص کر رکھا ہے تاکہ ہم آرام کی زندگی گزار سکیں۔ تم چاہتے ہو کہ تم ہمارے باپ بن جائو اور ہم تمہارے بچے۔ تم جانتے ہو کہ ہماری ندیوں اور دریائوں میں جو پانی بہتا ہے وہ پانی نہیں ہے بلکہ ہمارے آبائو اجداد کا خون ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ہم دھرتی ماں کا حصہ ہیں۔ اس دھرتی کی چھاتی پر چلنے والے ہرن اور گھوڑے اور اس کی فضائوں میں اڑنے والے شہباز اور کبوتر ہمارے بھائی ہیں۔ جھیلوں اور دریائوں کے پانیوں پر لہراتے سائے ہمارے بزرگوں کی یادیں ہیں۔ یہ دریا ہماری کشتیوں کو سہارا دیتے ہیں اور ہمارے بچوں کی بھوک مٹاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہم تمہیں کیسے بیچ دیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ماضی میں قبائلی لوگ سفید فام لوگوں کے آگے ایسے ہی پسپا ہوتے آئے ہیں جیسے سورج کی روشنی کے آگے پہاڑوں کی دھند پسپا ہوتی ہے۔ یہ زمین، یہ پہاڑ، یہ درخت، یہ جھیلیں، یہ دریا اور یہ آسمان ہماری زندگی اور ہمارا فلسفہ حیات ہیں۔ بھلا کوئی اپنی زندگی کو کیسے بیچ سکتا ہے۔ سفید فام انسان زمین کو اپنا دوست سمجھنے کے بجائے دشمن خیال کرتا ہے‘ وہ اسے فتح کرنے کے بعد آگے بڑھ جاتا ہے۔ وہ دھرتی ماں سے اس کے بچے چھین لیتا ہے۔ وہ زمین اور آسمان کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدتا اور بیچتا ہے‘ وہ اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے معصوم لوگوں اور جانوروں کا قتل عام کرتا ہے۔ ہم اپنی زمینیں ایسے لوگوں کے ہاتھوں کیسے بیچ سکتے ہیں۔ ہمارے بچوں نے اپنے بزرگوں کو شکست کھاتے دیکھ لیا ہے۔ ہمارے بہادر جنگجو ہتھیار ڈالتے آئے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ وہ ہمیں اب ہتھیار پھینکنے نہیں دیں گے۔ اے واشنگٹن کے سردار! اب ہم دھرتی ماں کو بچا لیں گے یا خود ختم ہوجائیں گے۔ اگر ہم لوگ ختم ہوگئے اور ہمارے بعد کے لوگوں نے تمہاری دعوت پر غور کر بھی لیا تو وہ اسی صورت میں اسے قبول کریں گے کہ انہیں ان کے مخصوص علاقے میں ان کی مرضی اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔ لیکن نہیں‘ ابھی تو ہم آخری بچے کی موجودگی تک اپنی زمین کو بچانے کی کوشش کریں گے‘‘۔