حکومت اور پاک فوج دوراہے پر

لیجیے‘ اب نکتہ آفرینی اور دلیلوں کی بساط بچھائیے۔ عذر تراشیے ، جواز ڈھونڈیئے ، تجزیوں کا ایک چمنستان سجائیے۔ تاویلات اور حاشیہ آرائی کی گنجائش نکالیے، گمان کے فرس پر سوار رہ کر تسلی کا تازیانہ ہاتھ میں لیجیے، کالم لکھیے، سرشام ٹی وی ٹاک شوز کے بازار میں بن سنور کر بیٹھیے اور قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کیجیے کہ میجر جنرل ثناء اللہ نیازی، ایک لیفٹیننٹ کرنل اور ایک لانس نائیک کو ان قوتوں نے شہید کیا ہے جو مذاکرات کے عمل کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ کچھ قوتیں چاہتی ہی نہیں ہیں کہ ملک میں امن قائم ہو اور حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں۔ لیکن کیا کیجیے اس حقیقت کا کہ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہدنے خود میڈیا کے ذریعے اس کارروائی کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کے خلاف اس طرح کے حملے اور جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ شرائط بھی عائد کردیں کہ جب تک پاکستانی فوج فاٹا سے نکل نہیں جاتی اور ان کے تمام ساتھیوں کو جیلوں سے رہا نہیں کردیا جاتا اس وقت تک پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے۔ سو جب سے طالبان نے اس بزدلانہ کارروائی کی ذمہ داری قبول کی ہے، مذاکرات کی حمایت کرنے والوں کے منہ بند ہوگئے ہیں۔ ان کے پاس صرف مذاکرات کی حمایت کے لیے کوئی دلیل، کوئی جواز اور کوئی عذر نہیں ہے لیکن کہنے والے تو اب بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کوئی تیسری قوت ہے جو حالات اور فضا کو خراب کررہی ہے اور مذاکرات کا آپشن ہی واحد قابل عمل راستہ ہے ۔ حکومتی حلقوں اور پاکستانی فوج کے اندر اس کارروائی پر بہت غم وغصہ پایا جارہا ہے جس کا اظہار پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل کیانی نے اپنے حالیہ بیان میں کیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حکومت‘ سیاسی جماعتیں اور پاک فوج کافی تگ ودو کے بعد کل جماعتی کانفرنس کے نتیجے میں ایک صفحے پر آئی تھیں اور سبھی نے متفقہ طورپر یہ فیصلہ کیا تھا کہ پہلے مذاکرات کیے جائیں گے؛ چنانچہ مذاکرات کے لیے فضا ہموار کی جارہی تھی، ماحول تراشا جارہا تھا، رابطہ کار رابطوں میں مصروف عمل تھے کہ یہ دلخراش سانحہ ہوگیا۔ اس سانحہ نے مذاکرات کے عمل اور مجموعی طورپر بننے والی فضا پر کیا اثرات مرتب کیے ؟ اس عمل سے طالبان کو کیا نقصانات ہوئے ؟پاکستانی فوج کیا سوچ رہی ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ طالبان نے اپنے گھنائونے عمل سے ثابت کردیا ہے کہ: 1۔ طالبان پر کسی بھی حوالے سے اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔ 2۔ وہ محض اپنی شرائط منوانا چاہتے ہیں‘ مذاکرات یا کسی حل میں مخلص نہیں ہیں۔ 3۔ وہ پاکستانی حکومت اور فوج سے اپنی باتیں بندوق کے زور پر منوانا چاہتے ہیں۔ 4۔ وہ اس سماج پر اپنی مرضی کا نظام بزور بازو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ 5۔ ان کے نزدیک انسانی زندگی اور انسانی خون کی کوئی اہمیت نہیں۔ 6۔ وہ کسی بھی صورت میں امن قائم نہیں کرنا چاہتے‘ جنگ وجدل اور کشت وخون کا سلسلہ جاری رکھنے پر بضد ہیں۔ اس کے جواب میں پاک فوج کو کیا ردعمل ظاہر کرنا چاہیے تھا؟ وہی جو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ظاہر کیا ہے کہ پاک فوج کے پاس دہشت گردوں کے ساتھ جنگ لڑنے کی قابلیت بھی ہے اور اہلیت بھی اور یہ کہ کسی کو یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ ہم دہشت گردوں کی شرائط مان لیں گے۔ پاک فوج یہ کام کیسے کرسکتی ہے۔ جو فوج اپنے پانچ ہزار سے زائد فوجی افسروں اور جوانوں کی قربانی دے چکی ہے وہ ان کی ڈکٹیشن کیسے مان سکتی ہے‘ لیکن جنرل کیانی کی ہمت کو داد دینی چاہیے جنہوں نے اس المناک سانحے کے بعد بھی امن کی بات کی ہے۔ انہوں نے بہت ہی واضح انداز میں کہا ہے کہ ’’امن کو موقع ملنا چاہیے‘‘ ۔ ایسے سانحے کے بعد‘ جس نے پاک فوج کی قیادت کو سکتے کی کیفیت سے دوچار کردیا ہے اور جس نے اسے ایک عجیب وغریب اعصابی امتحان میں ڈال دیا ہے، پاک فوج کے سپہ سالار کا ایسا بیان خوشگوار حیرت ہی کا باعث نہیں، قابل تحسین بھی ہے۔ ایسا بیان ایک مضبوط اعصاب والا جنرل ہی دے سکتا ہے وگرنہ طالبان کا یہ اقدام ایک کھلی جنگ کا اعلان ہے اور میجر جنرل ثناء اللہ کی شہادت پاک فوج کے لیے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔ اس خوں فشاں واقعے کے بعد سیاسی قیادت اور پاک فوج کو کسی قسم کی خوش گمانی میں نہیں رہنا چاہیے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات مفید ہوں گے یا ان سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہوسکتا ہے۔ سری لنکا ہو یا نیویارک ، لندن ہو یا اٹلی، کہیں بھی حکومت اور سکیورٹی فورسز نے ہتھیار اٹھانے والوں اور بے گناہوں کی جانیں لینے والوں کے ساتھ مذاکرات نہیں کیے۔ مذاکرات حکومتی عملداری کو تسلیم کرنے والوں سے ہوتے ہیں، ملکی قوانین ماننے اور نظام کو تسلیم کرنے والوں سے ہوتے ہیں۔ ایسے ظالم اور باغی لوگوں سے کیسے مذاکرات ہوسکتے ہیں جو بچوں کو یتیم کررہے ہیں اور بازاروں، مسجدوں، مارکیٹوں اور سکولوں میں بے گناہ لوگوں کا خون بہارہے ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ رابطے میں رہنے والے علما سے کبھی یہ تو پوچھیں کہ وہ کس قسم کے اسلام کے داعی ہیں۔ اسلام میں ایک بے گناہ شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، لیکن یہ لوگ روزانہ بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں، کسی کا باپ تو کسی کا بیٹا، کسی کی ماں تو کسی کی بہن ہر روز شہید ہورہے ہیں‘ پھر بھی وہ بضد ہیں کہ وہی مسلمان ہیں اور وہ بے گناہوں کو مار کر سیدھے جنت میں جائیں گے۔ مذاکرات کرنا ہیں تو علما کو ان سے مذاکرات کرنے چاہئیں، ان کے اسلامی نظریات پر بات کرنی چاہیے۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے علما نے مصلحت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے‘ سبھی کو اپنی جانوں کی فکر ہے، سبھی اپنے اپنے مدرسوں اور عبادت گاہوں کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے کچھ علما مساجد میں جمعۃ المبارک کے خطبوں میں طالبان کی کامیابیوں اور پاک فوج کی ناکامیوں کی دعائیں مانگتے ہیں ۔ اس ملک میں کون ہے جو اسلامی نظام کا نفاذ نہیں چاہتا؟ لیکن اس قسم کا اسلام دیکھ کر لوگ اصلی اسلام سے ہی دور بھاگ رہے ہیں۔ طالبان نے اپنے ظلم وستم اور دھماکوں کی کارروائیوں سے عام مسلمانوں کو خود سے دور کردیا ہے۔ پاک فوج اور حکومت، طالبان کے اس خون آشام کارروائی کے بعد سوچ کے دوراہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں اور یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ ایسے لوگوں سے مذاکرات کرنا کس حد تک درست ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں